لوگوں کو سوچنے دو

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 12 جنوری 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

آئیں ! ذرا بات کرتے ہیں ، ان لوگوں کی جو پان کی دکانوں، کیفوں یا گلیوں میں اپنے اپنے گھروں کے تھلوں پر بیٹھ کر یاآفسوں میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر یا سڑکوں کے کنارے دیہاڑی کے انتظار میں رہتے ہوئے یا اپنے رکشہ تھوڑی دیر کے لیے چھاؤں میں روک کر اخبار پڑھتے ہوئے اور خبروں پر تبصر ہ کرتے ہوئے لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں۔

اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں، زیادتیوں، سارے ظلم ، ساری برائیوں اور ساری خرابیوں پر رکے بغیرگھنٹوں بولتے رہتے ہیں ، ادھر پائے یا سگریٹ ، پان یاآفس کا وقت یا اخبار ختم ہوا ، یہ لوگ یہ جا و ہ جا اور اپنے گھر جا کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں ہر غم و فکر سے بے نیاز لمبے لمبے خراٹے لیتے رہتے ہیں ۔ شام میں اٹھتے ہیں ،کبھی کسی کوگالیاں دیتے ہیں ،کبھی کسی کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں۔

رات میں گھنٹوں مختلف ٹی وی چینلز پر مذاکرے دیکھتے ہیں، خبریں اور تجزیے سنتے ہیں، اپنا چہرہ لال پیلا کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہتے ہوئے ٹی وی بند کردیتے ہیں کہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے ، سالے سب حرامی ہیں اور ایک بار پھر سونے کے لیے پلنگ پر لیٹ جاتے ہیں اور بس آنکھ لگتی ہی ہے تو بجلی چلی جاتی ہے تو پھر پلنگ پر بیٹھ کر واپڈا والوں کو موٹی موٹی تازہ تازہ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور اتنی زور سے دیتے ہیں کہ باقی محلے والوں کوکچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور جب ان کے بچے تنگ آکر ان سے یہ کہتے ہیں کہ ابا چپ کر جا ہمیں تو سونے دے تو پھر وہ اچانک قلابازی کھاتے ہوئے اپنے بچوں کو گالیاں دینے بیٹھ جاتے ہیں ۔

یہ سب وہ لوگ ہیں جو اس طرح زندگی گذار رہے ہیں جیسے یہ کوئی عادت ہو،ایسی عادت جسے تبدیل نہ کیاجاسکے ۔ عادت یا تو بہتر ین غلام ہوتی ہے یا بدترین آقا ، ظاہر ہے غلاموں کے غلام تو ہو نہیں سکتے اس کے تو صرف بدترین آقا ہوسکتے ہیں ۔ یہ سب کے سب اس ملک کے باشندے ہیں جسے غریبوں نے امیروں کے لیے تعمیر کیا ہے ۔ ان سب کے امیدوں کے چراغ عرصے سے بجھے اوندھے پڑے ہیں جن کی ویرانی دیکھ کر دل وحشت سے پھٹ جاتا ہے ۔ جہاں امید نہ ہو وہاں وحشت آخری پناہ ہوتی ہے ۔ دنیا بھر کے تمام جمہوری ، خوشحال، لبرل معاشرے دراصل امیدوں کی دکانیں ہوتے ہیں ، جہاں سے وہاں کے لوگ امیدیں خریدتے ہیں۔

یاد رہے، امیدیں ہی آپ کو خوش رکھتی ہیں لیکن جب معاشرہ بد حال ، غلام ، انتہا پسند ، رجعت و قدامت پسند بن جاتا ہے اور جہالت و اندھیروں کی قوتیں اسے دبوچ لیتی ہیں تو وہاں امیدوں کی دکانیں بند ہوجاتی ہیں اور وحشت کی دکانیں کھل جاتی ہیں پھر آپ کو ڈھونڈنے سے امید کی کوئی دکان کھلی ہوئی نہیں ملتی وہاں پھر صرف وحشت ملتی ہے امید نہیں ۔ ذہن میں رہے حقیقی مفلس وہ ہی ہوتا ہے جس کی امیدیں بھی مر جائیں ۔ اس وقت ہم سب حقیقی مفلس ہیں ۔

ہم نے 22 کروڑ جیتے جاگتے کارآمد انسانوں کو نا کارہ ، ردی بنا دیا ہے اورکاڑکباڑ میں تبدیل کردیا ہے جو اب ملک کی تعمیر اور ترقی میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے، بس صرف باتیں کرنے کے قابل ہیں ، اگر ملک کے سیاست دانوں اور اشرافیہ کا بس چلتا تو انھ اس قابل بھی نہیں چھوڑتے ۔ ہمارے ساتھ کچھ بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس کے لیے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی کوئی امید نہیں تھی یا یہ کہ یہ سب غیر متوقع ہوگیاہے یا ہمارے ساتھ انہونی ہوگئی ہے یہ تو پہلے ہی روز ظاہر ہوگیا تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے کیونکہ جس راستے پر آپ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی منزل کا سب کو پتہ ہوتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ مسافر انجانا بنے چلتا رہے ۔ جس روز قرار داد مقاصد نے جنم لیا تھا، اسی روز سے منزل صاف دکھائی دینا شروع ہوگئی تھی ، ظاہر ہے عقل کو استعمال کیے بغیر سب کاموں کا انجام ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ہے۔

آپ سب باتیں چھوڑیں، چلیں اٹھیں اور دنیا کی تاریخ بار بار پڑھ لیں ، چلیں ایک بار اور پڑھ لیں اب ذرا آپ ہی بتادیں کہ جن قوموں یا لوگوں نے عقل کو استعمال کیے بغیر جوکام کیے ان سب کا کیا انجام ہوا، اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہورہاہے غلط نہیں ہو رہا، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے اپنے آغاز میں ہی عقل کا قتل کردیا تھا کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے سارے اقدامات اور فیصلے عقل کے خلاف تھے ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ خدائی چوب دار، نفرتوں کے دیوتا ، اذیتوں کے پجاری، سماج کے اندھے کانے بہرے ٹھیکیدار اورقاتل جو سقراط کے خون کے پیاسے تھے جو عقل ، علم ، دانائی اور سچائی کے دشمن تھے کیا وہ آج بھی اپنی محرومیوں کا انتقام لینے کے لیے ہماری گلیوں میں نہیں پھرتے ہیں کہ جہاں کوئی سقراط نظر آجائے تو اسے زہر کا پیالہ پلا دیں ۔

ہم سب ایسی کشتی میں سوار ہیں جو اس قدر بوسیدہ ہوچکی ہے کہ جب ہم ایک سوراخ بند کرتے ہیں تو دوسری جگہ سے پانی اندر آنے لگ جاتا ہے جب اسے بند کرنے کی طرف بھاگتے ہیں تو دوسری جگہ سوراخ ہوچکا ہوتا ہے۔ ہم سوراخ بند کرتے کرتے اس قدر نڈھال ہوچکے ہیں، اس قدر ہانپ رہے ہیں کہ اگر ہم نے فوراً جنگی بنیادوں پر کشتی اور کشتی میں سوار22 کروڑ لوگوں کو مضبوط ، توانا ، خوش حال ، بااختیار ، آزاد نہیں کیا تو پھرکیا ہونے والا ہے کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ سب کو نتیجے کا اچھی طرح سے علم ہے ۔

ملک کے حکمرانوں ، سیاست دانوں ، انتہا پسندوں اور ملک کی اشرافیہ ایک بات اچھی طرح سے سن لوکہ بس اب بہت ہوچکا ، لوگوں کو آزاد ہونے دو ، لوگوںکو سوچنے دو ، انھیں اپنی مرضی کے مطابق ملک تشکیل کرنے دو ۔ بہت ڈرامہ بازی ہوچکی ، بہت لوٹ مار ہو چکی بہت بد معاشی ہوچکی لوگوں کو جینے دو ، خوش ہونے دو، یہ ملک صرف تمہاری حکمرانی، بد معاشی ، لوٹ مار، کرپشن تمہارے پروٹوکول ، تمہارے محلات ، جاگیروں ، ملوں ، بینک بیلنس کے لیے نہیں حاصل کیا گیا تھا بس اپنی شعبد ہ بازی بند کردو ، لوگوں کی ذلت اور خواری کی انتہا ہوچکی ہے، بے شر می ہر حد پارکرچکی ہے، یہ ملک 18 کروڑ عوام کا ہے ، اسے ان کے حوالے کردو ورنہ بس عوام اٹھنے ہی والے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔