دریچہ : ادب اور کردار

مبین مرزا  اتوار 13 جنوری 2019
ادب کا ویسے تو وقت یا زمانے سے براہِ راست کچھ ایسا سروکار نہیں ہوتا

ادب کا ویسے تو وقت یا زمانے سے براہِ راست کچھ ایسا سروکار نہیں ہوتا

ادب کا ویسے تو وقت یا زمانے سے براہِ راست کچھ ایسا سروکار نہیں ہوتا، بلکہ ایک زمانہ ہی کیا، کسی بھی شے سے ادب کا براہِ راست کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ماسوا اپنی معنویت کے جو وہ ہمارے دل پر نقش کرتا یا روح میں اُتارتا ہے۔ افراد ہوں یا اشیا یا پھر زمانے ہوں کہ زمینیں، ادب کا معاملہ جس سے بھی ہوتا ہے بالواسطہ اور ذیلی قسم کا ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضرور دیکھا گیا گیا ہے کہ ہر عہد اپنے خاص تہذیبی تناظر میں ادب کے لیے کچھ سوالات لے کر آتا ہے۔ ان سوالات کی تفتیش سے نہ صرف اُس عہد کے سیاق میں ادب اور تہذیب کے باہمی رشتے کی نوعیت واضح ہوتی ہے، بلکہ اس زمانے میں ادب کے سروکار اور اس کی معنویت کا تناظر بھی قائم ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جانا چاہیے کہ ہمارا عہد اپنے ادب کے لیے کسی سوال کی خواہش یا کسی نکتے کی جستجو رکھتا ہے۔ اگر رکھتا ہے تو وہ کس قسم کی ہے اور تہذیب و سماج سے اس کا تعلق کیا ہے؟

یہ بات ان دنوں میں اس لیے بھی ذہن میں آئی کہ ہم ایک سال کی مسافت گزار کر اب نئے سال کی دہلیز پر ہیں۔ گزشتہ سال (2018ء) ہمارے یہاں سیاسی، سماجی اور ثقافتی سطح پر ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ خاص طور سے اپنی سیاسی اُتھل پتھل کی وجہ سے یہ سال ہمارے اجتماعی اور تاریخی حافظے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے گا۔ ادیب شاعر لوگ کسی بھی سماج میں ضمیر، شعور اور آواز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ سوچتے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں اور جواب کی جستجو کرتے ہیں۔ اس عہد کے ادیب شاعر بھی ضرور یہ کام کررہے ہیں۔ یہ بات محض قیاس کی بنیاد پر نہیں کہی گئی ہے، بلکہ مشاہدے اور تجربے سے گزر کر اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں کئی ایسے مواقع میسر آئے کہ جب اس دور کے سنجیدہ اور فکری رجحان رکھنے والے ادیبوں شاعروں کے ساتھ معاصر ادب کو درپیش سوالوں پر غور کرنے کی صورت پیدا ہوئی۔ ان میں سے ایک موقعے پر کچھ اس نوع کا خیال بھی سامنے آیا:

ہمارے ادب میں اب کردار مفقود ہیں۔

یہ ایک لمبی چوڑی گفتگو کا خلاصہ تھا جس نے دلیل اور ردِدلیل کے ساتھ کئی بار گرماگرم بحث کا روپ دھارا۔ اس محفل میں اور کئی دوستوں کے ساتھ اسد محمد خاں صاحب بھی موجود تھے جو بلاشبہ اس دور میں افسانوی ادب کی ممتاز تر شخصیت ہیں، بلکہ گفتگو کا آغاز انھی کے دو معروف کرداروں، یعنی مئی دادا اور باسودے کی مریم کے حوالے سے ہوا تھا۔ بعد ازاں بابو گوپی ناتھ، موذیل، لاجونتی، داؤجی، نعیم، میاں امجد، سیّد بسم اللہ شاہ، بوجی، مجو بھائی، نمبردار، بگل والا تک کتنے ہی کرداروں کو حوالے اور دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ حتمی نتیجہ تو خیر طے نہیں ہوا (ویسے ادب میں ریاضی کی طرح کا حتمی نتیجہ درکار بھی نہیں ہوتا)، لیکن خلاصہ اس گفتگو کا یہی تھا کہ ادب میں ہمارے یہاں اب ایسے کردار نہیں ملتے جو اپنی ذات، وضع، رویے اور مزاج یا انداز کی وجہ سے قاری کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک رائے ہے، ایک ایسی رائے جو ہمیں ایک سوچ سے یا ایک سوال سے دوچار کرتی ہے۔

چناںچہ اب سوال یہ ہے کہ کیوں ختم ہوگئے ہمارے ادب سے ایسے کردار؟

بہ ظاہر سیدھے سادے سے اس سوال پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اس کا جواب آسانی سے اور براہِ راست نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ جواب کی جستجو میں کتنے ہی پہلو پیشِ نظر رکھنا اور کتنے ہی اسباب و مسائل کی تفتیش ضروری ہے۔ اب مثال کے طور پر دیکھیے۔ ادب اور ادیب اپنے زمانے اور اردگرد کی زندگی سے خام مواد حاصل کرتے ہیں۔ غور کیجیے، آپ کو اپنے اطراف میں اب ایسے کتنے کرداروں کا تجربہ ہوتا ہے، جیسے اس سے پہلے کے ادوار کے ادب نے آپ کے حافظے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے زمانے میں زندگی کا تجربہ اِس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اُسے تہ در تہ دیکھے بغیر اس کی معنویت اور انسانی احساس پر اُس کے اثرات کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔

پھر یہ کہ اگلے وقتوں میں فرد یا اُس کی ذات اپنے سارے رویوں اور امکانات کی کے ساتھ اکائی کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ اکائی بہت مستحکم ہوتی تھی، یہی وجہ ہے ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں اپنے وجود کا اثبات کرتی تھی۔ ادب کا سروکار اسی وجود کی تفتیش سے ہوتا تھا۔ اب یہ اکائی ٹوٹ چکی ہے۔ گویا اس دور میں فرد کی انفرادی شناخت کا بحران ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ افراد ہی نہیں خود تہذیبیں بھی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔ اس سے پہلے کے ادوار میں افراد اور سماج دونوں اپنے انفرادی نشانات کو خاص اہمیت کا حامل سمجھتے رہے ہیں۔ ان میں ادب اور فنونِ لطیفہ سے لے کر زبان، لباس اور غذا تک کو ثقافتی نشانات کے اظہار کا مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ صورتِ حال اس حد تک تبدیل ہوچکی ہے کہ گئے زمانے کے رجحانات کا وہ لوگ شاید درست طور پر قیاس بھی نہیں کرسکتے جنھوں نے اُس زمانے کو نہیں دیکھا ہے۔ آج کی دنیا تو تقریباً برعکس رجحانات کی مظہر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب سے عجم تک اور مشرق سے مغرب تک اپنے خاص نشانات کے ذریعے اپنی انفرادیت پر اصرار کا رویہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ چوکلیٹ، کولا، کافی اور برگر ساری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ آج انسانی تہذیبوں کے مابین میکانکی یکسانیت (جو دراصل شناخت کا مٹ جانا ہے) اس گلوبل ولیج کا ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔

دنیا، اس کے سماج اور تہذیبوں پر اہلِ سیاست (اہلِ اقتدار) کا تصرف ہے۔ وہی ان کی صورت گری کرتے ہیں، لیکن خیر، یہ کون سی نئی بات ہے؟ دنیا تو ہمیشہ سے اہلِ اقتدار کے ہاتھ میں رہی ہے، اور ان کے مقاصد یا اہداف بھی کم و بیش یکساں رہے ہیں۔ تاہم اہلِ سیاست و اقتدار میں بھی پہلے ایسے لوگ ہوتے تھے جن کے نزدیک اصول اور کردار مقدم خیال کیے جاتے تھے، جب کہ اس دور کی سیاست اور اقتدار کا دارومدار جن عناصر پر ہے اور اُن کے لیے جو عوامل اہمیت رکھتے ہیں، اُن کو بروے کار لانے کے لیے اصول و کردار کو سب سے پہلے بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔ اب چوںکہ سیاست ہی معاشرے کی صورت گری کرتی ہے، اس لیے جیسی وہ اپنی فطرت میں ہے، ویسے ہی سانچے میں معاشرے کو ڈھال دیتی ہے۔

یہ مادّیت کے غلبے کا دور ہے۔ انسانی زندگی کے تجربات، واقعات، معاملات اور مطالبات تک جس طرف نگاہ کیجیے، مادّیت ہی مادّیت کا منظرنامہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہی آج انسان کا حال و قال ہے، اور بہ ظاہر یہی کچھ انسانیت کا مستقبل۔ انسانی زندگی میں غیر مادّی بھی کچھ ہوتا ہے، اس کا تصور تک مٹتا جارہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ادب، بلکہ سارے فنونِ لطیفہ یا وہ مثبت کام جن کا انسان اور اس کی تہذیب سے تعلق قدری نوعیت کا ہوتا ہے، وہ تو سراسر غیرمادّی ہوتے ہیں۔ مادّی حاصل وصول کے لیے انھیں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے آج ادب کچھ غبارے بنانے جیسا کام ہوکر رہ گیا ہے، سلیم احمد کے بقول جس پر محلے والے ہنستے ہیں۔ اس لیے کہ یہ کارِ بے مصرف ہے۔ ایسے میں کیا ادب اور کیا ادب کے پیش کیے ہوئے کردار—؟

صرف یہی نہیں، اس فہرست میں ایسے ہی کچھ اور مسائل و حقائق کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اتنی بات تو سطورِ بالا میں کیے گئے ان چند اشارات سے بھی بہ آسانی واضح ہوجاتی ہے کہ آج اگر ادب میں کردار کے فقدان کا شکوہ کیا جارہا ہے تو وہ بے جا ہرگز نہیں ہے، لیکن یہ ایک ایسا سنجیدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے جس کے متنوع اسباب، محرکات اور مسائل ہیں۔ چلیے، یہ سب تو ٹھیک ہے۔ اب لگے ہاتھوں ایک بات پر اور بھی غور کیے لیتے ہیں۔ سرِدست جن عناصر پر بات کی گئی، وہ تو سب کے سب خارجی نوعیت کے ہیں، یا کم سے کم اُن کی بنیاد تو کہیں خارج میں ہے۔ کیا اس مسئلے کے پورے سیاق میں کوئی ایک بھی داخلی عنصر کارفرما نہیں ہے؟ یعنی سادہ سے الفاظ میں ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے ادب میں اب جو کردار نایاب یا ناپید ہوتے جاتے ہیں، تو کیا اس کی سر تا سر ذمے دار دنیا ہے، خود ادیب کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے؟ بس یہاں حدِّ ادب ہے۔ سو، عافیت تو خاموشی میں ہے، لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ ایسے سادہ سوال جب ایک بار منہ پھوڑ کر پوچھ لیے جائیں تو پھر اُن سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ ایسے ہی سوالوں میں سے ایک ہے جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ آدھا جواب تو خود سوال کے اندر موجود ہوتا ہے۔

اب ذرا ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں اور حالات و حقائق کا جائزہ لیں تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ جو ہم ادب میں کردار کا بحران یا فقدان دیکھ رہے ہیں، اس کا ایک بنیادی سبب دراصل یہ ہے کہ آج خود ادیب کردار کے بحران یا فقدان سے دوچار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی تہذیب اور کسی بھی عہد کے ادب میں ایسی phenominal تبدیلی اس وقت تک مکمل طور پر آہی نہیں سکتی، جب تک ادیب کا جوہرِ ذات وقت، حالات، تہذیب اور زمانے کے بدلتے ہوئے رویوں کے خلاف مزاحمت کرتا رہتا ہے، یعنی جب تک وہ non conformist رہتا ہے۔ ادیب کا وجود اور تہذیب و سماج میں اس کا کردار دراصل اُس کے جوہرِ ذات پر منحصر ہوتا ہے۔ جب تک یہ قائم رہتا ہے، ادیب اور اُس کا فن دونوں مستحکم رہتے ہیں۔ اس صلاحیت اور صلابت کی وجہ سے بڑے سے بڑے تہذیبی، سماجی اور سیاسی بحران کو ادیب نہ صرف خود جھیل جاتا ہے، بلکہ اپنے ذاتی کردار کی قوت کے بل پر وہ معاشرے کی ناؤ کو بھی کھیتے ہوئے پار لگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

آج ہم اپنے ادب میں کردار کا جو فقدان دیکھ رہے ہیں، وہ دراصل ہمارے ادیب کے کردار کے اسی بحران کا مظہر ہے۔ ظاہر ہے کہ اب اس سوال کا سامنا کیے بنا کوئی چارۂ کار نہیں کہ آخر ہمارے ادیب کی زندگی میں یہ بحران کیوں پیدا ہوا؟ اس لیے ہوا کہ دنیا اُسے لبھانے لگی۔ ادیب کے اندر ایک درویش ہونا چاہیے جو دنیا اور اس کی آسائشوں کو برپشم گردانتا ہو۔ اس کے جاہ و منصب کو پرِکاہ سے بڑھ کر نہ جانتا ہو۔ اس کا بے نیاز مزاج دنیا کے عیش و عشرت کو پاؤں کی دھول مانتا ہو، اور اس کی شہرتِ عام اور بقائے دوام کی اصلیت کو پہچانتا ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ طے ہے کہ ادیب خود نگر و خود بیں نہیں ہوسکتا۔ بات یہ نہیں کہ ادیب مجہول الاحوال یا نرگسیت کا شکار ہو۔ نہیں، یہ نرگسیت، انانیت یا خود پسندی ہرگز نہیں ہے۔ یہ خودنگری تو اس کے جوہرِ ذات کا داعیہ اور اس کے تحفظ کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے کام، اس کی تخلیق یا اس کے فن سے بڑھ کر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر اس کے لیے دنیا بڑی ہوجائے اور خود اُس کا اپنا فن چھوٹا پڑ جائے تو ادیب پھر ادیب نہیں رہتا، بھٹیارا، کنجڑا یا چمار بن جاتا ہے۔ تب وہ ادب تخلیق نہیں کرتا، جذبات سینکتا، ضمیر اینٹھتا اور احساسات گانٹھتا ہے— اور بس۔

مستثنیات ہر دور اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں، سو وہ اس دور میں بھی ہوں گے۔ اس گفتگو میں ہمیں ان سے کوئی بحث نہیں۔ تاہم یوں دیکھیے تو کیا ہمارے ادبی منظرنامے کا غالب نقشہ یہی کچھ نہیں دکھا رہا۔ افسوس، صد افسوس کہ ہم اس سوال کا جواب نفی میں نہیں دے سکتے، بس زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ سر جھکا لیں اور بس خاموش ہوجائیں۔ دیکھیے بات یہ ہے کہ ہم ادیب شاعر لوگ ایک طرف تو اعلیٰ اخلاق اور زندہ اقدار کی باتیں کرتے اور اہلِ سیاست کی فریب کاریوں اور ہوس پرستی کو قابلِ نفرت گردانتے ہیں، لیکن دوسری طرف وزیروں اور گورنروں کو اپنی تقریبات میں بھی بلاتے ہیں۔ ان کے ساتھ بنائی گئی تصویریں فیس بک پر ٹانکتے اور اس پر اتراتے ہیں۔ جاہ و منصب اور عشرت و عیش کا کوئی موقع ہاتھ آئے تو اس کے لیے مرمٹتے ہیں۔ کوچۂ یار سے نہیں کوچۂ زر سے بلاوے کے خواب دیکھتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح اگر ایک بار وہاں پہنچ جائیں تو ہزار رسوائیاں سمیٹ کر بھی وہاں سے رخصت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اہلِ اقتدار کے قدموں میں پالتو جانوروں کی طرح لوٹنے سے ہمیں مطلق عار نہیں۔ مفاد و منفعت کا معاملہ ہو تو پھر اُسی در پر سر کے بل جانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جہاں سے دھتکار کر نکالے گئے ہوں۔ ایک طرف سے دیکھیے تو ہماری زبان ولی کے لہجے میں کلام کرتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہ ہمارے دل کی دھڑکنوں میں ہوسِ زر گونجتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ہم صرف خود کو پارسا اور اپنے سارے بھائی بندوں کو دنیا طلب اور جاہ پسند جانتے ہیں۔ ہماری نظروں میں صرف اور صرف ہم بلند پایہ اور انسانیت کے شرف کے حامل ہیں، باقی سب ہیچ اور دنیا پرست ہیں۔ گھٹیا اور بے قیمت۔ یہ ہے وہ منظر جس کا ہم ناگزیر حصہ، لازمی جزو ہیں۔ سو یوں ہے ادب میں کردار کا فقدان۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ جو اس وقت ادب میں ہم کردار کی تلاش میں سرگرداں ہیں، یہ بھی صرف دنیا دکھاوا ہے یا پھر واقعی ہمارے داخل میں پیدا ہونے والے اس بحران کی جان لیوا خلش کے زیرِاثر ہے—؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔