بُک شیلف

پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے والد سردار محمد خان لغاری کا شمار ممتاز سیاستدانوں میں ہوتا تھا  فوٹو: فائل

پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے والد سردار محمد خان لغاری کا شمار ممتاز سیاستدانوں میں ہوتا تھا فوٹو: فائل

نواز شریف اور بینظیر
جیسا میں انھیں جانتا ہوں
مصنف: منیر احمد منیر
قیمت : 300 روپے،صفحات: 112
پبلشرز: ماہنامہ آتش فشاں،علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور

پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے والد سردار محمد خان لغاری کا شمار ممتاز سیاستدانوں میں ہوتا تھا اس لئے چاہیئے تو یہ تھا کہ فاروق لغاری شروع سے ہی سیاست کے میدان میں قدم رکھتے مگر وہ پہلے بیوروکریٹ بنے اس کے بعد سیاست میں آئے، ان کی سیاست کو صحیح اٹھان اس وقت ملی جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور وہ آمریت کے خلاف ڈٹ گئے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں انھیں صدر بنایا، مگر انھوں نے انھی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا، اس کے بعد نواز شریف سے بھی ان کے اختلافات رہے، تب انھوں نے استعفٰی دیدیا۔ سابق صدر نے اپنے اس طویل انٹرویو میں بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جیسے ’’نواز شریف نے ہی بڑے پیمانے پر رشوت کو سیاست میں انٹروڈیوس کیا۔

کمشنوں اور مال حرام کی راہ بے نظیر بھٹو کو نواز شریف نے ہی دکھائی۔ بے نظیر کو موقع ملا لیکن اس نے یہ مواد نواز شریف کے خلاف استعمال نہ کیا۔ زرداری اور بے نظیر بھٹو کے دوست اور نیو سٹی پراجیکٹ کے طاہر نیازی نے مجھے بتایا کہ وہ نواز کھوکھر کو ہر مہینے پچاس لاکھ روپے دیتا ہے ، اور بے نظیر اور زرداری کو چار چار کنال کے دوسو پلاٹ دیئے جن کی ویلیو اس وقت دو ارب روپے تھی۔ میرا بے نظیر سے اولین اختلاف اس وقت ہوا جب وہ میراج طیاروں کی خریداری اور قادر پور گیس کو اونے پونے بیچنے کے بڑے سودے کر رہی تھیں جس سے پاکستان کو چار پانچ ارب روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔‘‘ افغانستان، طالبان اور صوفی محمد کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ جابجا تصاویر کا استعمال کیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے انتہائی مفید کتاب ہے۔

سپوتنک
قیمت:60 روپے،صفحات:160

پاکستان کے دو ٹکڑے ہونا اور بنگلہ دیش کا وجود میں آنا ہماری تاریخ کا المناک باب ہے اس پر لکھاریوں نے اپنے اپنے انداز میں قلم کے جوہر دکھائے ہیں، سپوتنک نے بھی اس پر خاص نمبر شائع کیا ہے جس میں محمد جاوید پاشا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بڑے محققانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے، مصنف نے ان مضامین کی تیاری میں، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، شہاب نامہ، پاکستان کیوں ٹوٹا اور ایسی ہی مقبول کتب سے استفادہ کیا ہے، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس شمارے کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئیے۔ بالخصوص طلبہ اسے ضرور پڑھیں۔

تبصرہ نگار: محمد عثمان جامعی
مصورانِ خوش خیال
کراچی کے پانچ اہم مصوروں کے فن اور شخصیات کا تخلیقی تجزیہ
مصنف: خالد معین
زیراہتمام: دنیائے ادب، کراچی
صفحات: 207،قیمت:500 روپے

مصنف نے اس کتاب کی شروعات ایک ایسے جملے سے کی ہے کہ ’’مطلع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات‘‘، وہ کتاب کے پیش لفظ کا آغاز یوں کرتے ہیں ’’یہ ایک عام سی کتاب ہے‘‘، خالد معین صاحب کی کسرنفسی اپنی جگہ، لیکن یہ کہہ کر انھوں نے اپنی تصنیف سے ناانصافی کی ہے۔ یہ قطعاً عام سی کتاب نہیں ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے نہ صرف یہ ایک اہم اور قابل توجہ کاوش ہے بلکہ اس کتاب کے متن کو معتبر بنانے اور مستند معلومات کے ساتھ قارئین کے آگے رکھنے کے لیے جس محنت اور تحقیق سے کام لیا گیا ہے، اسے کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف یہ تصنیف اس لیے بھی اہم ہے کہ اردو میں فنِ مصوری اور مصوروں پر شاذ ہی کوئی کتاب لکھی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ ہمارے ہاں فن کی طبقاتی تقسیم ہے۔

چتر کاری کا فن ہمارے معاشرے میں طبقۂ اُمراء ہی کی دل چسپی کا سامان بنا ہوا ہے۔ شاعری اور موسیقی کی نرم رو لہروں نے تو لاکھ رکاوٹوں کے باوجود کسی نہ کسی طور گلی محلوں تک رسائی حاصل کر لی، اور تفہیم نہیں تو شوق اور لطف اندوزی کی حد تک ان فنون کا عام آدمی سے ایک تعلق ہے، مگر ٹھوس رنگ یہ اُڑان نہ بھر سکے، سو رنگ اور لکیروں کی دنیا ان بستیوں سے دور جہاں زندگی بستی ہے، ’’خواص‘‘ کے علاقوں میں بنی آرٹ گیلریوں میں مقید ہے۔ چناں چہ گراں قیمت تصویریں خریدنے کی سکت تو کجا، عام آدمی انھیں دیکھنے کی طلب نہیں رکھتا۔ ایسے میں ان ’’عامیوں‘‘ کی زبان میں مصوری اور مصوروں پر کچھ لکھنا کارِزیاں کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ مگر ممتاز شاعر اور سنیئر صحافی خالد معین صاحب نے مصوری سے متعلق ایک معیاری کتاب تصنیف کرکے اپنے لیے شاید ’’کار زیاں‘‘ کیا ہو لیکن اردوزبان میں اس موضوع پر تصانیف میں ایک خوب صورت اور قابل قدر اضافہ کیا ہے۔

اس کتاب کا موضوع کراچی سے تعلق رکھنے والے پانچ مصور وصی حیدر، فرخ شہاب، تنویر فاروقی، فوزیہ خان اور جی این قاضی، کا فن، زندگی اور شخصیت ہے۔ کتاب کے ذیلی عنوان کے مطابق یہ تصنیف ’’کراچی کے پانچ اہم مصوروں کے فن اور شخصیات کا تخلیقی تجزیہ‘‘ ہے۔

ان مصوروں سے مصنف کا قریبی تعلق ہے، چناں چہ وہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور بڑی حد تک ان کے فنی سفر سے واقف ہیں ۔ یوں اس کتاب میں شامل مضامین ان مصوروں کے خاکے کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں، ان کی تخلیقی مسافرت کی روداد بھی سُناتے ہیں، ان کی ذاتی زندگی کے نشیب وفراز بھی سامنے لاتے ہیں اور ان کے فن کی جہتوں سے بھی قاری کو روشناس کراتے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ مصنف کے فن مصوری کے رموز، اس کی تاریخ اور دبستانوں سے گہرے شغف کی خبر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کسی مصور کے فن پر وہی لکھاری قلم اُٹھا سکتا ہے جو رنگوں اور لکیروں سے تخلیق کردہ فن پاروں کی سمجھ رکھتا ہو۔ مصنف نے پانچوں مصوروں کو انٹرویو کرکے انھیں خودنوشت کے اسلوب میں کتاب کا حصہ بنایا ہے۔

کتاب موضوع بننے والے مصوروں کے چند فن پاروں سے بھی آراستہ ہے۔ یہ کتاب خاص طور پر فن مصوری سے دل چسپی رکھنے والے اردو قارئین کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گی اور خالد معین صاحب کی نثری کاوشوں میں ایک نمایاں اضافہ ثابت ہوگی۔

تبصرہ نگار :شہبازانورخان
پردیسی ( شاعری)
شاعر: ڈاکٹر خلیل طوقار خلیل
 صفحات: 223،   قیمت: 450 / روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز ، مزنگ روڈ ، لاہور

ڈاکٹر خلیل طوقار ترک دانش ور، استاد اور ادیب وشاعر ہیں جنہوں نے اردو زبان نہ صرف سیکھی بلکہ اس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی اور اردو زبان کی خدمت کے صلے میں حکومت پاکستان سے’’ ستارہ ء امتیاز‘‘ کا اعزاز پایا۔ خلیل طوقار کو پاکستان اور اردو زبان سے بے حد محبت ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’ میری شاعری کی اصل محرک اردو زبان ہے۔ وہ ایسے کہ میں سب کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اردو زبان ایک ایسی شیریں اور پر اثر زبان ہے کہ ایک غیر زبان پردیسی اس کی محبت میں شاعری شروع کرسکتا ہے۔

اس لیے میں جو لکھتا ہوں اردو زبان سے محبت کی وجہ سے لکھتا ہوں اور اردو زبان سے محبت کرنے والوں کی خدمت میں ایک تحفہ کے طور پر پیش کرتا ہوں‘‘۔ خلیل طوقار کی شاعری کا موضوع انسان اور انسانیت ہے وہ انسان دوستی، انصاف اور محبت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان کی شاعری کیا ہے ٹوٹتی مٹتی انسانی قدروں کا نوحہ ہے۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور پنجابی زبانوں میں بھی انہوں نے طبع آزمائی کی ہے۔کتاب میں زیادہ تر نظمیں شامل ہیں کہ یہ ذریعہ اظہار انہیں زیادہ مرغوب ہے لیکن انہوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں۔ جن میں ان کے پسندیدہ شعراٗ میرتقی میر، غالب، مومن اور علامہ اقبال ؒ کا رنگ نمایاں ہے۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر ضیاٗ الحسن کے نام ہے جب کہ پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید اور امجد اسلام امجد کی آراٗ اور تاثرات پر مبنی مضامین بھی شامل ہیں۔ جن میں’’ ایک پردیسی‘‘ شاعرکی شاعری کی بھرپور تحسین کی گئی ہے اور سانجھ پبلی کیشنز نے بھی اپنے روایتی خوبصورت انداز میں اس کتاب کو شائع کیا ہے۔

 سبز بستیوں کے غزال
 شاعر : علی اکبر ناطق
 صفحات: 96، قیمت: 250 روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ رو ڈ، لاہور

علی اکبر ناطق ایک خوبصورت شاعر اور نثر نگار ہیں ان کی نثر بھی اتنی ہی دلآویز ہے جتنی ان کی شاعری۔ ان کے شاعری کے تین مجموعے سامنے آچکے ہیں جو سب کے سب نظموں پر مشتمل ہیں یہ ان کا چوتھا مجموعہ ٗ شاعری ہے جو سراسر غزلوں پر مشتمل ہے۔

ان غزلوں میں ان کی نثر اور نظمیہ شاعری کی طرح اپنی مٹی کی بوباس پائی جاتی ہے۔ جو دھرتی سے جڑت اور گاوں اور دیہی ماحول، رسم و رواج، سرسبز رتوں کی خوشبو، سبزہ و ہریالی اور اس تہذیب و تمدن کے رنگ اور آہنگ کا فطری نتیجہ ہے۔ معروف شاعر افتخار عارف ’’ ریشم کی تاریں بنانے والا شاعر‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ ناطق کی غزل اپنے قصبے کی دیواروں اور کھیتوںکی سبز مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کی زبان کا خمیر اپنی دھرتی کی خوشبووں سے اٹھا ہے اس کا ایک ایک مصرع اس کے اٹوٹ سمبندھ کی گواہی دیتا ہے۔‘‘ اسی مجموعہ میں ارسلان احمد کا ایک مقالہ بھی شامل ہے جو انہوں نے ناطق کے شعری سفر بارے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ تحریرکیا ہے اور ان کی شاعری کا پوری طرح محاکمہ کیا ہے۔ یہ مضمون یا مقالہ ناطق کی شاعری کی تفہیم کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ناطق نے جس معیار، اسلوب اور آہنگ کی شاعری کی ہے وہ ہمارے نوجوان شاعروں کے لیے چونکا دینے کا درجہ رکھتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

روہانسے
 مصنف : سعدا للہ جان برق
 صفحات: 148، قیمت: 300 / روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ رو ڈ، لاہور

طنزو مزاح ایک مشکل فن ہے۔ بہت کم نثر نگار ایسے ہیں جو طنزو مزاح کا اسلوب اختیار کرتے اور پھر اس صنف ِ سخن میں اپنا آپ منوا پاتے ہیں۔ سعد اﷲ جان برق ایک سینئر ادیب، ڈرامہ نگار اور کالم نویس ہیں۔ وہ وسیع المطالعہ شخصیت ہیں، پشتوکے علاوہ اردو، فارسی سمیت دیگر زبانوں پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔

متعدد زبانوں پر عبور ہونے کی وجہ سے ان کی تحریروں میں ان زبانوں کی چاشنی اور ذائقہ فطری طورپر درآیا ہے اور ان کی تحریر میں تنوع اور شگفتگی پیدا ہوگئی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بیس مضامین پر مشتمل ہے ان مضامین کا پیرائیہ اظہار، اسلوب اور انداز شگفتہ، دلچسپ اور دلآویز ہے۔ جن میں طنزو مزاح کاعنصر بھی غالب ہے۔ البتہ مزاح کا لطف پیدا کرنے کے لیے وہ الفاظ کا جس فراخدلی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں وہ بعض مقامات پر محل ِ نظر دکھائی دیتا ہے اور محض لفظی آہنگ کے ذریعے مزاح پیدا کرنے کی کوشش معیار ی مزاح تخلیق کرنے کا سبب نہیں بن سکتی اور اس حقیقت کا ادراک شائد مصنف کو خود بھی ہے اسی لیے وہ خود تحریر کرتے ہیں کہ ’’ یہ کیا ہے، کیا نہیں ہے یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کیوںکہ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ میں اس میں رو رہا ہوں یا ہنستا ہوں۔ اسی لیے تو اس کا نام ’’ روہانسے ‘‘ رکھ دیا ہے‘‘ ۔کتاب پڑھ کر بندہ بور نہیں ہوتا یہی اس کتاب کی خوبی ہے۔

 نام کتاب:افسانے اور حقائق
 مصنف: سعد اﷲ جان برق
 صفحات: 229، قیمت : 450 / روپے
ناشر : سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ رو ڈ، لاہور

سعداﷲجان برق کی زیر تبصرہ کتاب بالکل مختلف اور منفرد نوعیت کی ہے کہ جس میں انسانی دماغ اور معاشرے میں عرصہ سے پیدا شدہ بہت سے عقائد ونظریات، مغالطوںاور مبالغوں، اور تاثرات و گمان کا پردہ چاک کرکے ان کی حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’ باعث تحریر ‘‘ کے زیر عنوان اپنے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں’’ گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں انسان نے جس تیز رفتاری اور حیرت ناک انداز میں ترقی اور جانکاری کی منازل طے کی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں نئے نئے انکشافات ہوئے ہیں اس نے عقائد و نظریات کے بہت سے قلعے مسمار کردیے اور اونچے اونچے سربہ فلک میناروں کو زمین بوس کردیا ہے جو پہلے مستند اور ناقابل ِ تردید حقائق تھے وہ توہمات ثابت ہوئے اور جو کچھ خواب و خیال دکھائی دیتا تھا اسے سچ بنا کر سامنے کھڑا کردیا ‘‘۔

سو انہوںنے ڈیڑھ درجن سے زائد موضوعات کا انتخاب کرکے ان کے بارے میں عمومی تاثرات کے تناظر میں ان کی ’’ اصلیت ‘‘ بیان کی ہے۔ ان موضوعات میں ’’ خالق ِ کائنات اور تخلیق‘‘، ’’جنات کا وجود ‘‘، ’’ آدم وابلیس ‘‘،’’ قانون ومجرم ‘‘۔ ’’ تصوف ،کرامات و تجلیات ‘‘۔’’ شجاعت اور بہادری ‘‘ ، ’’ عبادات یا عادات ‘‘ ۔’’ کیا عورت کمزور اور ناقص العقل ہے‘‘۔’’ تاریخ کی تاریکیاں ‘‘۔ ’’ جمہوریت یا گینگ ریپ ‘‘ اور ’’ عظمت رفتہ، باز آئد کہ آئد ‘‘ خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔اس کتاب کی صورت میں سعد اﷲجان برق کی فکر اور سوچ کا ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی ۔آج کے کنفیوژڈ اور ذہنی طورپر الجھاو میں مبتلا افراد کے لیے یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔

تبصرہ نگار: مرزا ظفر بیگ
ایک مصنف کی تین کتابیں
مولانا عبدالرحیم اشرف، حیات و خدمات
ترتیب و تدوین: ڈاکٹر زاہد اشرف
زیر اہتمام: مکتبہ المنبر
(عبدالرحیم اشرف ٹرسٹ، فیصل آباد)
صفحات: 432 ،قیمت : درج نہیں

حضرت مولانا عبدالرحیم اشرف کی حیات اور خدمات پر یہ مفصل کتاب فیصل آباد کے عبدالرحیم اشرف ٹرسٹ نے مکتبہ المنبر کے زیراہتمام شائع کی ہے اور بلاشبہ اس طرح ایک بہت بڑی خدمت انجام دی ہے جس کی گواہی آنے والا وقت ضرور دے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ساری زندگی اور اپنی تمام تر توانائیاں اﷲ تعالیٰ کی رضا، دین کی خدمت اور خدمت خلق کیلئے وقف کردیتے ہیں، حضرت مولانا عبدالرحیم اشرف ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کام کیے، بلکہ زندگی بھر کسی منصب کی خواہش بھی نہیں کی، اگر کبھی انہیں کوئی منصب پیش بھی کیا گیا تو انہوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔ حضرت مولانا عبدالرحیم اشرف کی سیرت و کردار سے سجی اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جناب جسٹس محمد افضل چیمہ مرحوم (سابق جج سپریم کورٹ و سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی) نے یہ سب لکھا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ حضرت کی دانشورانہ اڑان بہت اونچی تھی، بہت بڑے عالم دین، بے حد نام ور طبیب اور بہت زیادہ ڈائنامک و مستعد بھی تھے۔ ان میں ذہنی و قلبی خصوصیات کا منفرد اجتماع تھا ۔ یہ کتاب نہیں ہے بلکہ مولانا عبدالرحیم اشرف کی برسوں کی ریاضت، ان کے تحریری تجربات کا نچوڑ ہے جسے ایک کتاب میں شامل کرکے گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر مندرجات پر نظر ڈالیں تو بلاشبہہ یہ علم و حکمت کا ایسا بیش بہا خزانہ ہے جس کے قطرے قطرے اور ذرے سے طالبان علم خوب فیضیاب ہوں گے۔ ہم اس کتاب کو اردو ادب اور حلقۂ دین کے پیاسوں کے لیے ایک اہم خزانہ قرار دے سکتے ہیں جس پر مکتبہ المنبر مبارک باد کا مستحق ہے۔

تاریخ طب عہد بہ عہد
مصنف: ڈاکٹر زاہد اشرف (تمغۂ امتیاز)
زیراہتمام: اشرف اکادمی
صفحات:272، قیمت: درج نہیں

واضح رہے کہ اشرف اکادمی کے زیر اہتمام شائع کی جانے والی یہ کتاب تاریخ طب عہد بہ عہد ایک ایسی اہم اور مستند کتاب ہے جو ڈاکٹر زاہد اشرف کے اس پی ایچ ڈی کے مقالے پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر صاحب نے تاریخ طب کے حوالے سے تیار کیے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت بیش قیمت کام ہے جسے کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر اشرف اکادمی نے ایک نہایت اہم اور گراں قدر کام کیا ہے اور اس طرح اگر ایک طرف تاریخ طب کے طالبان کے لیے ایک بہت بڑی اور تحقیقی خدمت انجام دی ہے تو دوسری طرف اس موضوع سے تعلق رکھنے والے بے شمار طلبا و طالبات کی راہ نمائی کا بھی فریضہ سر انجام دینے کی کوشش کی ہے جس میں وہ واقعتاً کام یاب رہے ہیں ۔ چوں کہ یہ کتاب ایک اہم موضوع یعنی طب سے متعلق ہے، اس لیے جہاں یہ عام لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو گی وہیں صحت کے شعبے سے متعلق لوگ اور طالبان علم بھرپور انداز سے مستفید ہوں گے۔
دعائے محرومی
مصنف: ڈاکٹر زاہد اشرف (تمغۂ امتیاز)
زیراہتمام: مکتبہ المنبر
صفحات: 175، قیمت: درج نہیں
دعائے محرومی جناب ڈاکٹر زاہد اشرف کی تحریر کردہ ایک ایسی منفرد کتاب ہے جس کے بارے میں خود ہی ڈاکٹر صاحب موصوف نے لکھا ہے کہ اس کتاب کے پیرایۂ اظہار اور اسلوب بیان کو نہ نثر میں شمار کیا جاسکتا ہے اور نہ نظم میں بلکہ یہ ان کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے۔ یہ صنف اردو ادب کے حوالے سے ہرگز نئی نہیں ہے البتہ دعا و التجا کے حوالے سے شاید اس میں کچھ کچھ اچھوتا پن آپ کو دکھائی دے ۔ یہ کتاب کسی زمانے میں المنبر کے اوراق پر بدر شاہین کے نام سے اشاعت پذیر ہوتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ بدر شاہین جناب ڈاکٹر زاہد اشرف کے چند قلمی ناموں میں سے ایک ہے جس سے نہ صرف دعائے محرومی لکھی گئی، بلکہ کئی ایک دیگر عنوانات کے تحت بھی سیکڑوں صفحات تحریر کیے گئے جنھیں اگر جمع کیا جائے تو چند ایک کتب تیار ہو سکتی ہیں ۔ اگر ہم ان دعائوں یعنی دعائے محرومی کے مندرجات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں ڈھیروں ایسی دعائیں موجود ہیں جو نہایت رقیق القلبی کے ساتھ لکھی گئی ہیں اور سیدھی دلوں میں اتر جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔