پی ایس ایل کب ہو رہی ہے؟

سلیم خالق  اتوار 13 جنوری 2019
سپرلیگ ہمارے لیے بھی ورلڈکپ سے کم نہیں مگر ہمارا بورڈ ابھی تک خاموش بیٹھا ہے

سپرلیگ ہمارے لیے بھی ورلڈکپ سے کم نہیں مگر ہمارا بورڈ ابھی تک خاموش بیٹھا ہے

آپ خود بتائیں کیا ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے کرکٹ ٹورنامنٹ کے آغاز میں اب ایک ماہ ہی باقی رہ گیا،کہیں کوئی ایسی تشہیری مہم یا کچھ اور دیکھا جس سے ظاہر ہوکہ ایونٹ شروع ہونے والا ہے،آپ آئی سی سی کی مثال لیں ورلڈکپ میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت باقی تھا مگر منظم انداز میں پبلسٹی شروع ہوئی جس سے شائقین ایونٹ کے ساتھ منسلک ہوئے، سپرلیگ ہمارے لیے بھی ورلڈکپ سے کم نہیں مگر ہمارا بورڈ ابھی تک خاموش بیٹھا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ بیشتر فرنچائز بھی زیادہ سرگرم نظر نہیں آ رہیں، انھیں اسپانسرز کی تلاش میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

بیشتر نے اب تک بڑے معاہدے نہیں کیے، پی سی بی کے انداز بھی نرالے ہیں،نیشنل اسٹیڈیم میں فائنل سمیت 5 میچز ہونے ہیں مگر مجھے نہیں لگتا کہ ایونٹ سے قبل وہ مکمل تیار ہو سکے گا، اب بھی بہت زیادہ کام باقی ہے، اسی طرح پی ایس ایل سے چند روز قبل ہی ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید نے کراچی میں ایک ٹی ٹوئنٹی لیگ کی اجازت دے دی جس کے عوض بورڈ کو 15 لاکھ روپے ملے، سرکاری ٹی وی پاک جنوبی افریقہ ٹیسٹ سیریز نہیں دکھا رہا مگر لوکل میچز ٹیلی کاسٹ ہو رہے ہیں، بعض فرنچائزز نے ایونٹ کے انعقاد پر دبے لفظوں میں احتجاج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بورڈ کو این او سی دینے کی کیا ضرورت تھی، ان کے بعض اسپانسرز نے مذکورہ لیگ میں ہی اپنے بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کر لیا، ویسے ہم تو پی ایس ایل سے ایک ماہ قبل چھائی ہوئی خاموشی کی بات کر رہے ہیں بورڈ والے تو ٹورنامنٹ شروع ہونے کے بعد بھی زیادہ سرگرم دکھائی نہیں دیتے، آپ دیکھ لیجیے گا افتتاحی تقریب اور میچز کے بعد یو اے ای میں بیشتر وقت اسٹیڈیم خالی ہی رہے گا،آپ کو شائقین کو ایونٹ کی جانب متوجہ کرنے کیلیے نت نئے آئیڈیاز پر کام کرنا ہوتا ہے تاکہ ہائپ بن سکے۔

عوام کی دلچسپی دیکھ کر اسپانسرز بھی راغب ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا، پی ایس ایل ویسے ہی بُری طرح مسائل میں گھری ہوئی ہے، سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے انھیں حل کرنے پر توجہ نہیں دی جبکہ احسان مانی کی ترجیحات میں یہ لیگ نظر نہیں آتی، فرنچائزز نے فیس دینے میں ہی بورڈ کو خوب ٹف ٹائم دیا، گزشتہ دنوں میں نے مالی حسابات دیکھے تو انکشاف ہوا کہ ابتدائی دونوں سیزنز میں سب کو کروڑوں کا خسارہ ہوا، نجانے نجم سیٹھی کیسے فائدے فائدے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے، اگر ایسا ہی رہا تو آہستہ آہستہ سب کا حال سابقہ ملتان سلطانز جیسا ہونے لگے گا کیونکہ قارون کا خزانہ بھی ایک دن ختم ہو جاتا ہے، مجھے اگر کبھی ملاقات کا موقع ملا تو لاہور قلندرزکے حکام سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ وہ اتنے بھاری خسارے کے باوجود ہر سال پلیئرز ڈیولپمنٹ پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ دیگر فرنچائزز کیوں سال بھر خاموش رہتی ہیں،اگر سب ہی کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تو ان کو ہی اسپانسرز کی تلاش میں مدد ملے گی لیکن مجھے سب ایک پیج پر نہیں لگتے، پی ایس ایل کے فنانشل ماڈل میں بھی کئی بڑی خامیاں ہیں۔

مثال کے طور پر آپ نے 10کروڑ کی ٹیم خریدی اور کسی اور نے 5 کی مگر منافع سب کو یکساں ہی ملے گا، اس پر بھاری قیمت پر فرنچائز لینے والوں کو اعتراض ہے کہ انھوں نے زیادہ سرمایہ لگایا تو حصہ بھی زیادہ ملنا چاہیے، اسی طرح10  سال بعد ایک بار پھر ٹیموں کی ازسرنو فروخت ہو گی البتہ پہلی آفر کا انتخاب موجودہ فرنچائزز کو ہی ملے گا،شاید بہت سے مالکان کو یہ بھی لگتا ہوگاکہ کہیں اس وقت ٹیم ان کے ہاتھوں سے نکل نہ جائے لہذا کرائے کے گھر پر نئے ٹائلز اور رنگ و روغن کرانے کاکیا فائدہ، ٹیکس کے مسائل بھی حل نہیں ہو رہے، پنجاب سے باہر کی ٹیموں کو بھی وہاں کا صوبائی ٹیکس دینا پڑتا ہے، حال ہی میں پی سی بی نے میڈیا رائٹس بھاری قیمت پر فروخت کرنے کی ’’خوشخبری‘‘ سنائی مگر ساتھ ہی پروڈکشن اخراجات بڑھنے کا بھی اعلان کر دیا، یہ رقم فرنچائزز سے ہی لی جاتی ہے لہذا ان کی خوشی کافور ہو گئی۔

یہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو والا معاملہ ثابت ہوا،ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ جب کوئی آگے نہیں آ رہا تھا تو یہی 5 مالکان (ملتان سلطانز شامل نہیں) ٹیمیں خریدنے کیلیے سامنے آئے، البتہ اب تین سال ہو چکے، ہر برس کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے مگر بورڈ مسائل حل کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہا،اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پی ایس ایل تباہ ہو جائے گی، چیئرمین پی سی بی فرنچائزز اونرز سے ملاقاتیں کرتے ہیں مسائل حل کرنے کا یقین بھی دلاتے ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں ہے، ابھی تو ایونٹ میں کم وقت رہ گیا لہذا بنیادی معاملات دیکھیں اور پھر اس کے بعد ایک کمیٹی بنا کر تمام مسائل حل کریں،اس وقت سب سے زیادہ فائدے میں پی سی بی ہے جو بغیر بڑی سرمایہ کاری کے ایونٹ کرا دیتا ہے، منافع میں بھی حصہ مل جاتا ہے، ٹیموں کو بھی چاہیے کہ وہ جاگ جائیں، آپس میں لڑنے کے بجائے مل کر بورڈ سے بات کریں اور مسائل حل کرائیں، بدقسمتی سے ابھی کوئی ذاتی تشہیر میں گم توکوئی پی ایس ایل کے ذریعے اپنا سیاسی پروفائل بنا رہا ہے تو کسی کے کچھ اور مقاصد ہیں،صرف ایک فرنچائز ہی پورے سال کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔

ایسا نہیں چلے گاسب کو فعال ہونا پڑے گا، جب تک آپ کی صفوں میں اتحاد نہیں ہوگا بورڈ سے کوئی مطالبہ نہیں منوا سکتے، احسان مانی کو بھی چاہیے کہ پی ایس ایل کی ٹیم میں تبدیلیاں کرتے ہوئے قابل افراد کو آگے لائیں، بدقسمتی سے پی سی بی میں سوائے چیئرمین کے اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی، نئے آفیشلز کا تقرر ضرور ہوا لیکن بعض پرانے نااہل افراد بدستور کرسیوں سے چمٹے ہوئے ہیں، ان کی موجودگی میں آپ کیسے بہتری کے دعوے کر سکتے ہیں، پی ایس ایل بڑی مشکل سے برانڈ بنی، اس سال ملک میں زیادہ میچز بھی ہو رہے ہیں،مگر بورڈ اسے اہمیت نہیں دے رہا، ہر چند روز بعد کوئی نہ کوئی مسئلہ سامنے آجاتا ہے، اس بار تو ایونٹ کا انعقاد ہوجائے گا لیکن اگر سنجیدگی سے اہم ایشوز کو نہ دیکھا تو شاید آگے لیگ کی بقا کو خطرات لاحق ہو جائیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔