سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 13 جنوری 2019
عض لفظوں میں جوآخر میں ’ی‘ آتی ہے، وہ ان کے پیشے کو ظاہر کرتی ہے

عض لفظوں میں جوآخر میں ’ی‘ آتی ہے، وہ ان کے پیشے کو ظاہر کرتی ہے

رام لعل
میں تو اپنے ڈبے میں واپس آگیا۔ ملک وزیر چند نے بہت ہی گھبرائے ہوئے لہجے میں کھڑکی میں سے مجھے پکارا:

’’رام لعل ذرا باہر آنا۔۔۔!‘‘

باہر جا کر میں نے دیکھا۔ انہیں سکھوں اور ہندوؤں کے ایک گروہ نے گھیر رکھا ہے۔ ملک صاحب نے کہا:’’یہ لوگ کہتے ہیں، میں مسلمان ہوں۔۔۔!‘‘

مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹ لیا اور کئی لوگ بہ یک زبان ہوکر بولے:

’’ہاں ہاں! تم دونوں مسلمان ہو! پاکستان جانے کا راستہ نہیں ملا تو دلی کی طرف بھاگ رہے ہو!‘‘

ہم دونوں نے شلوار قمیص پہن رکھی تھیں۔ ملک وزیر چند کے بڑے بڑے گل مچھے تھے۔ ہمارے سروں کے بال عین بیچ میں سے تقسیم ہوتے تھے اور بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ ہماری بھوری بھوری آنکھیں ان لوگوں کی آنکھوں کی رنگت سے بالکل جدا تھیں۔ میں سمجھ گیا، وہی کہانی پھر دُہرانی پڑے گی۔ ہمارا تعلق مغربی پنجاب سے ہیِ، وہاں کی آب وہوا اور بودوباش کی وجہ سے ہمارے لہجے مختلف ہیں اور پھر اچانک میری زبان سے یہ بھی نکل گیا ’’قرآن ساں (قرآن کی قسم) ہم ہندو ہیں۔۔۔!‘‘

’’دیکھا دیکھا! سالے مسلے ہیں، قرآن کی قسم کھاتے ہیں، میں نہ کہتا تھا۔‘‘

میں نے انہیں سمجھایا:

’’یہ ہمارا روایہ ہے۔ اسی علاقے کا، ہم وہاں قرآن ہی کی قسم کھاتے تھے، لیکن ہم مسلمان نہیں ہیں ہمارا یقین کرو۔‘‘

انہیں تب تک یقین نہیں ہوا۔ جب انہوں نے ہماری شلورایں کھلوا کر اطمینان نہیں کر لیا، لیکن یہ واقعی ہم دونوں کے لیے بے حد باعث شرم تھا۔ ملک صاحب مجھ سے عمر میں کافی بڑھے تھے اور لاہور میں ’سرپرست‘ ہونے کے ناتے سے میرے والد کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں انہیں چاچا جی کہہ کر ہی بلاتا تھا، لیکن فسادیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوجانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

خود نوشت ’کوچۂ قاتل‘ (پیش کش راشد اشرف) سے ماخوذ

۔۔۔

کتابوں والے سیاست داں
جمیل الدین عالی

تصنیف وتالیف تو ان قائدین کا کوئی بڑا شوق ہی نہیں لگتی، مجھے سہو تسامح ہورہا ہے مگر بڑی پارٹیوں کے سربراہ قائدین میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ مجھے کسی سربراہ کی تصنیفات یاد نہیں آرہیں، ڈاکٹر طاہر القادری سیاسی سربراہی سے پہلے بھی (خاصے کثیر التصانیف مصنف تھے، وہ صف علما ومصنفین میں آتے ہیں) یوں ان میں مسلسل اور کافی پڑھنے والوں کی کمی نہیں۔ میاں ممتاز دولتانہ کا کتب خانہ تو مشہور عالم تھا اور ان کی چند لمحہ گفتگو ہی سامنے والے کو ان کی فضیلت اور حافظے سے مرعوب کیے بغیر نہ رہتی۔ کراچی کے معاصرین میں جناب شیرباز خان مزاری کا کتب خانہ تو مدتوں تک ایک نادر اور بہت بڑا ذخیرہ کتب کہلاتا رہا۔ پروفیسر غفور غیر سربراہ سہی سیاسی کتابیں لکھتے چلے جاتے ہیں۔ غیرمصنفین میں خالد اسحق ایڈووکیٹ (کراچی) کا کتب خانہ ایک حیرت کدہ کہلاتا تھا (میری بدنصیبی کہ میں اس سے استفادہ نہ کرسکا) میرے اور بھی بہت سے احباب کے مسلسل اصرار پر بھی انہوں نے میرے علم کی حد تک کوئی تصنیف نہ چھوڑی۔

(کالموں کی کتاب ’مہروماہ وطن‘ سے مستعار لیا گیا)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
’’فرار‘‘
رضوان طاہر مبین

’’او شیدے۔۔۔!

کوٹھری اچھی طرح بند کرنا۔۔۔

یہ بڑا استاد ہے، کسی بھی ترکیب سے بھاگ لے گا۔۔۔!‘‘

اُس نے چَھڑی ہلاتے ہوئے ’چھوٹے‘ کو ہدایت کی۔

’’ہاں صاحب، بے فکر رہو،

اِسے میں نے زنجیر بھی ڈال دی ہے۔۔۔!‘‘

’چھوٹے‘ نے گردن اکڑا کر جواب دیا۔

’’بس، یہ زنجیر کسی بھی صورت میں نہیں کھولنا!‘‘

وہ مطمئن ہو کر بولا۔

اگلی صبح ’چھوٹا‘ ہانپتا ہوا آیا:

’’صاحب! ’ملزم‘ فرار۔۔۔!‘‘

وہ فوراً ’ملزم‘ کی کوٹھری کی طرف دوڑا۔

کسی کھڑکی دروازے کا تالا نہ ٹوٹا تھا۔۔۔

ہاتھوں کی زنجیر بھی سلامت تھی۔۔۔

بس، اُس کی نبض ڈوب چکی تھی۔۔۔!

۔۔۔

کتابی اصول پسندی نہیں!
حاجی عبدالجبار خان، اورنگی ٹائون

دفتر کا آڈٹ کرتے ہوئے جب عملے کی سروس بکسز چیک کرنا شروع کیں تو ایک ’’محافظ‘‘ کی فائل سے پتا چلا کہ اس نے اسلحہ چلانے کی کوئی تربیت نہیں لی، یہ بہت خطرناک صورت حال تھی، میں نے اس کے خلاف کارروائی کی سفارش کردی۔ پتا چلا کہ بینک مینجر نے کسی بااثر گروہ کے دبائو پر اسے بھرتی کیا تھا۔ بینک کے سینئر افسران نے مجھے کہا کہ آپ شریف آدمی ہیں، اس چکر میں نہ پڑیں، اصول پسندی کے چکر میں کہیں اور کوئی نقصان نہ کرا بیٹھیں۔

بات ان کی درست تھی، لیکن دوسری طرف حفاظت کا معاملہ تھا، میں نے بہت سوچ بچار کی آخرکار ’سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق‘ اُسے محافظ سے ہٹا کر قاصد بنوادیا۔ یوں ذہن سے ایک بوجھ بھی ہٹ گیا اور بغیر کسی ’نزاع‘ کے مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارے جیسے سماج میں اسی طرح درمیانی راستوں سے ہی ایسے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے چاہیئں، کیوں کہ کتابوں میں لکھی ہوئی اصول پسندی بعض اوقات عملی زندگی میں ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرتی ہے۔

۔۔۔

میری امی
پروفیسر سعدیہ ادریس

ماہ محرم میں جمعہ کے دن جب مساجد سے خطبے کی اذانیں بلند ہورہی تھیں عین اسی وقت ہماری امی نے جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ التفات و مہربانی کا شجر سایہ دار ہمارے سر سے اٹھ گیا۔ امی کی پوری زندگی ایک جہد مسلسل ہے، ابو سعودی عرب میں ملازمت کے بعد جو روپے بھیجتے، اسے وہ بڑی کفایت شعاری سے خرچ کرتیں، پھر ابو کی نوکری ختم ہونے کے بعد بھی انہوں نے انتہائی صبر و شکر سے گزارا کیا، ہر عید اور بقرعید پر اُسی طرح سب کی بھر پور دعوت کرتیں کہ آنے والوں کو ہمارے معاشی حالات کا اندازہ تک نہ ہوتا۔ ضعیفی اور بیماری کے باوجود ہر آنے جانے والے کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔

انہوں نے تقسیم ہند کے بعد نامساعد حالات کے باوجود میٹرک کیا اور آخری وقت تک یہ کہتی رہیں کہ حالات بہتر ہوتے تو ہم مزید تعلیم حاصل کرتے۔ اس زمانے کا میٹرک اس قدر اعلیٰ ہوتا کہ اردو، انگریزی تو کیا فارسی کی گلستان اور بوستان بھی نوک زبان ہوتی تھی۔ امی بہترین ریاضی جانتیں تھیں اپنے بچوں کو ریاضی کے پیچیدہ سوالات کھیل کھیل میں سمجھا دیا کرتیں۔ انہیں کتب بینی کا بہت شوق تھا ان کے بستر کے اطراف رسائل و جرائد کا انبار رہتا، وہ کہتیں تھیں کہ مطالعہ کے بغیر نیند نہیں آتی۔

کیا سلائی، کیا کڑھائی اور کیا بُنائی غرض یہ کہ ہر قسم کے ہنر میں ماہر تھیں، یہ بیٹیوں کے ساتھ اپنی پوتیوں کو بھی سکھا گئیں۔ انہیں باغ بانی اور پالتو جانوروں کا بھی شوق تھا۔

انہوں نے 88 سال کی عمر پائی اور زندگی کے تمام معاملات میں متحرک رہیں۔ آج کی بے پروا مائوں کو دیکھ کر سوچتے ہیں، ایک ہماری ماں تھیں اور ایک آج کل کی مائیں ہیں، آگے آپ خود ہی جواب دیجیے؟

۔۔۔
35دھڑلے نکال چکا ہوں۔۔۔
مرسلہ: سید اظہر علی
شروعات ضمیر جعفری کرتے وہ شوشہ چھوڑنا جانتے تھے اور کرنل محمد خان کو اس پر شگوفہ کھلانا آتا تھا۔ ضمیر جعفری کی چٹکی سے چبھن کے بہ جائے گدگدی ہوتی تھی۔ ایک دن انہوں نے مجھے ہشکارا کہ آج کرنل صاحب اپنی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘ میں سے اپنے فیورٹ الفاظ چن چن کر نکال رہے ہیں۔ آج صبح سویرے سے اسی عمل جرّاحی میں جٹے ہوئے ہیں۔ آپ ذرا گھما پھراکر چھیڑے گا۔ میں نے کرنل صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک کرم فرما نے مجھے مطلع کیا ہے کہ میں نے ’’بجنگ آمد‘‘ میں لفظ دھڑلّے 37 بار استعمال کیا ہے! صبح سے 35 دھڑلّے نکال چکا ہوں۔
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’شامِ شعریاراں‘‘ سے چنا گیا)

۔۔۔

ماجرا مذکر اور مونث لفظوں کا۔۔۔!
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میری چھوٹی بھتیجی تہمینہ نے ایک دن سوال کیا کہ چچا جان! درد لڑکی ہوتی ہے یا لڑکا؟
میں نے کہا، لڑکا۔ وہ بولی، کیوں؟
میں نے کہا درد اٹھتی نہیں اٹھتا ہے، اچھی ہوتی نہیں، اچھا ہوتا ہے۔
اس نے حجت کی کہ درد کو لڑکا کیوں کہتے ہیں؟
وہ شاید درد کو کہیں مونث بولتے سن آئی تھی۔ میں نے کہا اس لیے کہ شریر ہوتا ہے، تنگ کرتا ہے، لڑکیاں تو تکلیف نہیں پہنچاتیں، شرارت نہیں کرتی، وہ تو آرام پہنچاتی ہیں۔
وہ بولی تو تکلیف لڑکی ہے اور آرام لڑکا؟
اس پر میں ذرا چکرایا بات بنانے کو کہا کہ بھئی بعض لڑکیاں بھی تو شریر ہوتی ہیں، تو بس تکلیف ایک ایسی ہی شریر لڑکی ہے، مگر دیکھو۔۔۔ خوشی لڑکی ہے اور رنج لڑکا۔۔۔ اکثر اچھی اچھی چیزوں کو لڑکی ہی بنایا گیا ہے۔
اس پر وہ کچھ سوچ میں پڑگئی اور بولی تو ان چیزوں کو لڑکا اور لڑکی کون بناتا ہے؟
میں نے کہا کہ بولنے والوں نے بنایا ہے جیسے اللہ میاں نے کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی بنا کر بھیج دیا ہے۔
کہنے لگی وہ تو اس لیے بناتے ہیں کہ بڑے ہوں گے، تو ان کا بیاہ ہو جائے گا، تو کیا درد اور تکلیف کا بھی بیاہ ہو سکتا ہے؟
اس کی منطق میرے لیے خاصی ٹیرھی کھیر بن گئی تھی۔ پہلے تو میں فقط ہنس دیا، زرا مہلت لینے کے لیے کہ کوئی نکتہ سوجھے تو اس کو کچھ بتائوں۔ کچھ نہ کچھ تو مجھے کہنا تھا، میں نے کہا ہاں، ہو سکتا ہے، بلکہ ہوتا ہے۔ جسمانی درد کا دلی تکلیف کے ساتھ جوڑ لگتا ہی ہے، دونوں ایک ہی ذات کے ہیں!
تہمینہ پوچھنے لگی کیا پھر ان کے بچے بھی ہوتے ہیں؟
میں نے کہا ہاں ضرور ہوتے ہیں، آہیں، آنسو، کراہیں، سبکی، سسکی۔۔۔ انہی کے بچے تو ہیں۔ آنسو کو شریر لڑکا ہی بتاتے رہیں. آنسو ٹھہرتا نہیں، گھر سے نکل پڑتا ہے۔
وہ بولی ٹھہریے ٹھہریے۔۔۔ ایک آنسو کو چھوڑ کر یہ تو سب لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں۔ آہیں، کراہیں، توبہ، اف، سسکی۔۔۔
میں نے کہا کیا مضائقہ ہے، ان کے لیے کوئی جہیز وغیرہ کا تو انتظام کرنا نہیں پڑتا۔
اب اس نے پوچھا کہ انہیں پہنچاتے کیسے ہیں کون لڑکی ہے اور کون لڑکا؟
میں نے کہا ایسے ہی جیسے آدمیوں کو، یعنی نام سے اگر کسی کا نام شاہدہ ہے تو لڑکی ہے، اگر شاہد ہے تو وہ لڑکا۔ شاہد کی طرح زاہد، قاصد، مرشد، قائد۔۔۔ سب لڑکے شمار ہوں گے۔
یہاں میں نے خود ہی اپنے آپ کو پھندے میں پھنسا لیا۔ وہ جھٹ بولی کہ مگر قاعدہ تو لڑکا ہے، جب شاہدہ لڑکی ہے، تو قاعدہ اور فائدہ لڑکے کیسے ہو سکتے ہیں؟ شاہدہ تو آتی ہے اور قاعدہ تو پڑھایا جاتا ہے اورفائدہ بھی ہوتی نہیں، ہوتا ہے۔
میں کھسیانی ہنسی ہنسا اور بولا دیکھو یہ ذرا زیادتی ہوگئی، مگر سنو قاعدہ کی جمع قواعد کو مونث بنا دیا ہے۔ وہ فوراً بولی قواعد بن جاتے ہیں یا بن جاتی ہیں؟
ابھی تو آپ نے کہا قواعد کو قاعدہ کے بدلے میں لڑکی بنایا گیا ہے۔ میں نے سنجیدگی قائم رکھنے کے لیے کہا مطلب یہ ہے کہ سن کر یا پڑھ کر اس کی آواز سے محسوس ہو جاتا ہے لفظ مذکر ہے یا مونث۔
اس نے اپنی چلائی، کہنے لگی مجھے تو درد لڑکی لگتی ہے۔ میں نے پیچھا چھڑانے کو کہا، ہاں ہاں، تم یوں ہی بولا کرو اور لوگ بھی بولتے ہیں تم اکیلی نہیں ہو، مگر یاد رکھو کہ مذکر مونث کی کچھ واضح علامتیں بھی ہیں۔
مثلاً ’ی‘ پر ختم ہونے والے لفظ مونث ہوں گے اور الف پر ختم ہونے والے لفظ مذکر، جیسے امی ابا، نانا نانی، مرغی مرغا، کنگھا کنگھی، بکرا بکری، تمہاری چچی اور میں تمہارا چچا۔
تہمینہ پھر سوچ میں پڑ گئی کہ بے حد حجتی واقع ہوئی ہے بولی کہ بھائی کو بھائی کہنا تو غلط ہو گا، ’بھا‘ کہا کروں؟ اور آپا کو آپی۔۔۔ بھئی یہ بڑی گڑ بڑ کی بات ہے، دھوبن کو دھوبی کہوں اور دھوبی کو دھوبا؟
میں نے بات کا رخ بدلنے کے لیے کہا کہ دیکھو، بعض لفظوں میں جوآخر میں ’ی‘ آتی ہے، وہ ان کے پیشے کو ظاہر کرتی ہے، جیسے دھوبی، درزی، نائی، قسائی وغیرہ
تو بولی یہ سب آپ کیا کہتے ہیں مونث ہیں؟ اور ماما، آیا کیا کہتے ہیں مذکر؟ آیا، آئی یا ’آیا آیا؟‘
وہ پھندے پر پھندا ڈالتی جا رہی تھی اور مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا کہ ابھی تمہیں باتیں سمجھانا بہت مشکل ہے۔
(شان الحق حقی کے ایک دل چسپ مضمون سے لیا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔