منی بجٹ اور وفاقی وزیر خزانہ کی خوش خبری

ایڈیٹوریل  اتوار 13 جنوری 2019
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ 23 جنوری کو تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدامات کے اعلانات کیے جائیں گے (فوٹو: فائل)

وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ 23 جنوری کو تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدامات کے اعلانات کیے جائیں گے (فوٹو: فائل)

ہفتے کو کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروں سے خطاب کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ 23 جنوری کو منی بجٹ میں ریونیو کے حصول کے لیے نہیں بلکہ تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدامات کے اعلانات کیے جائیں گے ساتھ ہی اسٹاک ایکس چینج کے لیے بھی خوشخبری کا اعلان ہوگا۔

سرمایہ کاری ہوگی تو معیشت بہترہوگی اور برآمدات بڑھیں گی۔ اس وقت ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوارکرنے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت تگ ودو میں مصروف ہے۔ وزیر اعظم متعدد ممالک کا دورہ کرکے قرض کی صورت میں ایک خطیر رقم قومی خزانے میں لے کر آئے ہیں، دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بھی کئی دور ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی حتمی صورتحال سامنے نہیں آئی ہے۔

ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے یقینا حکومت اقدامات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اسے تمام اسٹیک ہولڈرزکا تعاون بھی حاصل ہے، لیکن اس دوران  مہنگائی میں بھی کئی گنا اضافے کے باعث غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ تاجروں اور وزیرخزانہ کی ملاقات اور تقریب سے خطاب کے دوران وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے انتہائی مدبرانہ انداز میں ان چیلنجزکا ذکرکیا ہے جو ملکی معیشت کو درپیش ہیں اور ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان کی حکومت کا جو پلان ہے وہ بھی انھوں نے سامنے رکھا ہے۔

اسی تناظر میں وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ تاجر برادری کے مطالبات کو ضمنی بجٹ میں شامل کیا جائے گا، سعودی عرب سے معاشی پیکیج کی بھی بات ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری ہوگی تو معیشت ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے گی۔ پاکستان کی بچت دنیا کی کم ترین سطح پر  ہے، سرمایہ کاری اور بچت کو بڑھانا ہے۔کھپت کی بنیاد پر معیشت چلانے سے تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ بات تو سچ ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ہوگی تو معیشت کا پہیہ چلے گا۔

وزیر خزانہ کو ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے ایسی معاشی پالیسی کو اپنانا ہوگا جس سے ملکی معیشت کو ایک واضح روڈ میپ مل سکے۔ان کے بقول پرانے پاکستان کے قرضوں کی مالیت2000 سے3000ہزار ارب روپے ہے اور پی ٹی آئی حکومت نے ابتدائی5 ماہ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

دیکھنا تو یہ ہے کہ نئے پاکستان میں صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔ وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ فرٹیلائزر،گیس اور پٹرولیم سیکٹرکے لیے پلان بنا رہے ہیں۔ جی آئی ڈی سی عائد کرنے کا فیصلہ پیپلزپارٹی حکومت نے سارا پیسہ وفاق میں پہنچانے کے لیے کیا تھا۔ تاجر برادری کو ری فنڈ کی مدمیں50 فیصد نقد واپس کریںگے اور باقی بانڈ جاری کریں گے ، اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کم ہے۔

اب ود ہولڈنگ ٹیکس کا سال میں صرف 2 بارگوشوارہ دیناہوگا، ودہولڈنگ ٹیکس ہر ماہ بنانا پڑتا ہے، منی بجٹ میں کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگے گا، کاروبار میں ترقی کے لیے مستقل بنیادوں پرکام کر رہے ہیں، معیشت کی ترقی کے لیے ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے۔ وزیر خزانہ کے خیالات جاننے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خلوص نیت سے معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔ ایک جانب تو وزیر خزانہ کی مخلصانہ کوششیں ہیں تو دوسری جانب ذرایع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ  قومی معیشت کے حوالے سے اہم فیصلہ سازی میں حکومت کو کافی مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔

پی ٹی آئی کو پارٹی میں موجود گروہ بندیوں پر قابو پانا ہوگا ، بصورت دیگر وہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرسکے گی ۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو وزیرخزانہ کی گفتگوکافی امید افزاء ہے اور وہ مشکل وقت جلد گزر جانے اوراچھا وقت آنے کی نوید سنا رہے ہیں لیکن دوسری جانب منی بجٹ کے حوالے سے انھیں اپوزیشن کی شدید تنقیدکا بھی سامنا ہے۔

سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان کہتی ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عوام پر مہنگائی بم گرایا جارہا ہے، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔کاروبار دوست ہونے کے دعوے کرنے والے کاروبار دشمن ہیں ، حکومت سے معیشت چلائی نہیں جاتی ۔ مزید برآں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سرکار لوگوں سے جینے کا حق چھین رہی ہے ۔ پہلے مہنگائی کر کے لوگوں سے نوالہ چھینا گیا اب ادویات چھین لی ہیں۔پالیسی کے فقدان نے چند ماہ میں حکومت کو بے نقاب کردیا ہے ۔ سونامی اصل میں مہنگائی کا طوفان ہے۔

دوسری جانب  اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ معیشت کو بدترین خطرات لاحق ہیں، حکومتی نااہلی کا تعین کرنے کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے، حکومتی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے منی بجٹ لایا جا رہا ہے، آج گھروں میں بجلی ہے نہ گیس ، نااہل حکومت نے سیکڑوں ارب روپے کا نقصان کیا۔

نیشنل پریس کلب میں مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جتنا قرضہ اس حکومت نے لیا اس کی مثال نہیں ملتی ، پانچ ماہ پورے نہیں ہوئے، چھ ماہ میں منی بجٹ آرہا ہے ۔ ان کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ہم نے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی آج لوڈ شیڈنگ واپس آگئی ہے، حکومتی کارکردگی کے باعث معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔

اپوزیشن کا موقف اور مخالفت تو رہی ایک طرف عوام کے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافے کے سبب ان کی مشکلات میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں پچیس فی صد سے زائد تجاوزکر چکی ہیں اور ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فی صد اضافہ بھی ان کے لیے اضافی بوجھ ہے، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اورگیس کے نرخوں میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کا جینا مشکل اور دو وقت کی روٹی کا  حصول ناممکن بنا دیا ہے ۔ میڈیا انڈسٹری سمیت دیگر صنعتی اور مالیاتی شعبوں میں ڈاؤن سازی کا عمل  جاری ہے، جس کے باعث ملک میں بے روزگاری کی شرح دس فی صدکے قریب ہوچکی ہے، ہزاروں افراد کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں ۔

ملکی سطح پر عوام کو جو مشکلات درپیش آرہی ہیں اس کا حکمران طبقے کے لیے اندازہ لگانا ایک مشکل امر ہے۔ بقول وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر ’’میرا اور وزیراعظم کا دن میں پانچ مرتبہ رابطہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’غریب کے لیے کرو اللہ دے گا‘‘ غریب طبقے کواٹھائے بغیر ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ملک میں اس وقت مہنگائی 2017 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی نے تبدیلی کے نعرے پر انتخابات جیتے ہیں اور حکومت بنائی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی  بتائے گا کہ وہ کس حد تک اپنے دعوؤں اور وعدوں کو وفا کر پاتی ہے یا نہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ حکومت کو منی بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔