جانور اور پرندے

راؤ منظر حیات  اتوار 13 جنوری 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

لالہ مہیندرا رام، لاہور شہر کا ایک گمنام مگر دیو مالائی کردار ہے۔ اکیسویں صدی میں بھلا کون اسے یاد رکھے گا۔ انیسویں صدی کا ایک اعلیٰ انسان لالہ مہیندرا رام ایک صاحب ثروت انسان تھا۔ 1860ء کی دہائی میں لاہور شہر کیا ہوگا صرف چند ہزار لوگوں کا مسکن۔ ڈیڑھ سو برس پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یہ شہر برصغیر کے اہم اور خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہوگا۔

لالہ کوپرندے رکھنے کا اَزحد شوق تھا۔ اس جنون کو پورا کرنے کے لیے مہیندرا نے بہت بڑے بڑے پنجرے بنوا رکھے تھے۔ یہ پنجرے اتنے وسیع تھے کہ قیدمیں بھی پرندوں کوبڑے آرام سے گھومنے پھرنے کے لیے وسیع جگہ میسرتھی۔مہیندرا روزکئی گھنٹے اپنے نایاب پرندوں کی دیکھ بھال میں گزارتا تھا۔ویسے جن لوگوں کو فطرت سے  لگاؤ ہے، وہ جانتے ہیں کہ پرندے اور دیگر جانوروں کو تندرست وتوانارکھنے کے لیے اَزحدمحنت کی ضرورت ہے۔ان بے زبانوں کو اولاد کی طرح رکھنا پڑتا ہے۔

ویسے بے زبانوں کا لفظ مناسب نہیں کیونکہ ہر پرندہ اورجانور بولتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان اس زبان کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتا۔ یہ اُلجھاؤ بھی صرف چند برسوں کا ہے۔ مغربی دنیاان کی زبان کوسمجھنے کی بھرپورکوشش کررہی ہے۔تحقیق سے ثابت ہو رہاہے کہ جانوروں اورپرندوں کو بھرپورصوتی ادراک موجود ہے۔سائنس ان صوتی اثرات کو پڑھنے میں کامیابی کے بے حدنزدیک ہے۔

بات لالہ مہیندر ارام کی ہورہی تھی۔لالہ نے ذاتی وسائل سے برصغیرکے نایاب پرندے جمع کررکھے تھے۔ جیسے پہلے عرض کیاکہ اس نے خاص خیال رکھاتھاکہ تمام مکین قیدمیں ہونے کے باوجود اپنے قدرتی ماحول سے بے حد نزدیک رہیں۔ پرندوں کوچلنے پھرنے کے لیے ہرآسائش موجود تھی۔ معلوم نہیں کہ لالہ کے ذہن میں کیاتبدیلی آئی کہ 1872میں اس نے اپناذاتی چڑیاگھر،لاہورکی میونسپل کارپوریشن کے حوالے کردیا۔اس کے ساتھ ساتھ ملحقہ زمینی قطعہ بھی موجودتھا۔برصغیرکی تقسیم سے پہلے،اسے میونسپل کارپوریشن نے چڑیاگھرمیں تبدیل کردیا۔یہ موجودہ چڑیا گھرکی ابتدائی شکل تھی۔پچاس برس تک اس چڑیاگھرکے تمام معاملات میونسپل کارپوریشن کے ذمے تھے۔ 1923 میں اس کی دیکھ بھال کی ذمے داری ڈپٹی کمشنرکے ذمے کردی گئی۔

پاکستان بننے کے پندرہ برس بعد یعنی 1962 میں لائیو اسٹاک محکمہ کو یہ کام سونپ دیا گیا۔ تین دہائیاں پہلے یہ ذمے داری وائلڈلائف محکمہ کے حصہ میں آگئی۔ 1872 میں پرندوں کی ایک چھوٹی سی حفاظت گاہ آج ایک بھرپورذو  (Zoo)بن چکی ہے۔آج کسی کوبھی لالہ مہیندرارام کانام یادنہیں ہے۔بہت کم لوگوں کو ادراک ہے کہ یہ چڑیا گھر صرف ایک آدمی کی ذاتی محنت اورشوق کی بنیاد پر شروع ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح بہاولپورکے نواب صاحب نے 1941میں پچیس ایکڑ زمین،شہرکے قیمتی ترین حصے میں چڑیاگھرکے لیے مختص کردی۔اس کا اصل نام ’’شیرباغ‘‘ رکھا گیا۔ نواب صادق محمد خان عباسی کوشیروں کاشوق تھا۔ایک عرصے تک یہاں کثیرتعدادمیں شیرموجودتھے۔

دنیاکے کسی بڑے شہرمیں چلے جائیے۔سیاحت کے حوالے سے ان کے نمایاں مقامات کی فہرست دیکھ لیجیے۔ ان کے چڑیاگھر سرِفہرست ہونگے۔ لندن کے چڑیاگھرسے روس کے ماسکوزوتک،برلن کے چڑیاگھرسے لے کر نیویارک کے برونکس زو تک۔ہرملک کی انتظامیہ بڑے فخر سے بتائیگی کہ اس کے ملک میں پرندوں اورجانوروں کے لیے حددرجہ پُرآسائش چڑیاگھرموجودہیں۔جنکی دیکھ بھال پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔امیرلوگ ان چڑیاگھروں کی دیکھ بھال میں حددرجہ مدد کرتے ہیں۔آمدنی اوراپنی جائیدادکوکئی باراس کے لیے وقف کردیتے ہیں۔

سوچنے کامقام یہ ہے کہ بالٓاخریہ مہذب قومیں جوترقی کی اوج ثریاپرہیں۔ذہنی طورپراتنی فارغ البال ہیں کہ حددرجہ کثیرپیسے خرچ کرکے مختلف جانور پال رہی ہیں۔کیاان ملکوں کی انتظامیہ کادماغی خلل ہے کہ کم ازکم ایک صدی سے پرندوں، جانوروں اور انسانوں میں رابطہ قائم کررہی ہیں۔ کیا متمول ترین لوگوں کوکوئی ذہنی پریشانی ہے کہ تمام جائیداد چڑیا گھرمیں پرندوں اورجانوروں کی دیکھ بھال کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔نہیں،صاحب ایسی کوئی بات نہیں۔ ہرگز نہیں۔ اصل میں زندہ قوموں میں شعور موجودہے کہ قدرت، مظاہر قدرت اورانسانوں کے درمیان جوتوازن موجودہے اسے ہرنسل کے لیے کھول کرسامنے رکھ دیاجائے۔یہ چڑیاگھرصرف بچوں کے لیے باعثِ نظارہ نہیں ہیں،یہاں ہر مرد اور خواتین، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعدادمیں جاتے ہیں۔

گھنٹوں بلکہ کئی بارمتعدددن وہاں گزارتے ہیں۔محظوظ ہوتے ہیں۔ تحقیق کرتے ہیں۔اس تحقیق کی بنیادپرسوچنے کی نئی اور منفرد جہتیں ترتیب دیتے ہیں۔خداکی قدرت کے ساتھ ایک ملاپ قائم کرتے ہیں۔نئی نسلوں کوقدرت کے ساتھ زندہ رہنے کاڈھنگ سکھاتے ہیں۔یہ سب کچھ حددرجہ اہم ہے۔عمررفتہ کے ساتھ منسلک نسل کے لیے بھی اوراس سے بھی زیادہ نئی نسل کے لیے ۔یہ شعورکوباضابطہ طورپرمنتقل کرنے کی بے مثال کوشش ہے۔ہمارے ہاں بھی  چڑیاگھر موجود ہیں۔ بچے بھی انکودیکھتے ہیں حظ اٹھاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں مگر شائد ابھی تک جانوروں اور پرندوں کی حفاظت اور مظاہرقدرت کے ساتھ روابط کی سطح اتنی پختہ نہیں ہے جو مغرب میں موجودہے۔یہ ترتیب، تعلیم اورتربیت دونوں کی بلوغت سے ہی وجودمیں آسکتی ہے۔ویسے اس لحاظ سے مغرب توکیاہم افریقی ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں۔

بطورسیاح جس بھی ملک میں گیاہوں۔وہاں کے چڑیاگھراورجانوروں کومحفوظ رکھنے کی تمام جگہوں پرجاچکا ہوں۔کینیامیں ایک دلچسپ اَمردیکھنے میں آیا۔وہاں کی حکومت کواندازہ ہے کہ مغربی سیاح،ان کے چڑیاگھردیکھنے کے لیے دوردورسے آتے ہیں۔حکومتی سطح پرانتظامیہ نے زوتو کیا،جنگلوں میں بھی پرندوں اورجانوروں کی حفاظت کے غیرمعمولی انتظام کررکھے ہیں۔اس طرح کی سیاحت ان کے لیے اربوں ڈالرکا ذریعہ آمدن ہے۔حفاظت کی ایک وجہ اور بھی ہے۔دنیاکاسب سے خطرناک جانوریعنی انسان کے لالچ سے محفوظ رکھنے کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک تربیت یافتہ پولیس قائم کررکھی ہے۔جوبیش قیمت جانوروں کو Poachersسے بچاکررکھتی ہے۔

دراصل Poachers ایک سفاک انسانی مخلوق ہے جوقیمتی جانوروں کوغیرقانونی طریقے سے مارکراس کے باقیات انتہائی قیمتی داموں پر پوری دنیامیں فروخت کردیتے ہیں۔ہاتھیوں اورگینڈوں کا قتلِ عام ان کے سینگوں کے قیمتی ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ شیرجوکہ جنگل کابادشاہ کہلاتاہے۔ا

ن ظالم درندوں کے سامنے ایک چوہے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ مارنے کے بعد،اس کی ہڈیاں،گوشت اورناخن تک فروخت کردیتے ہیں۔اس کی کھال کے جوتے اوربیگ بنوادیتے ہیں۔ان اسمگلروں سے جانوروں کومحفوظ رکھنے کے لیے کینیانے حد درجہ مضبوط پولیس ترتیب دی ہے۔کیاآپ کے علم میں ہے کہ نایاب نسل کے جانورمارنے کی سزاکیاہے۔وہی جو حکومت کے باغی کی ہوتی ہے۔یعنی موت۔اس پیشہ ور حکومتی فورس کی اکثر جھڑپیں، غیرقانونی Poachers سے ہوتی رہتی ہیں۔ کینیامیں بتایاگیاکہ اگرکوئی گینڈاغیرقانونی طورپرماراجائے توسب سے پہلے اطلاع ملک کے صدرکودی جاتی ہے۔ باقاعدہ ایک بلندترین سطح کی انکوائری ہوتی ہے۔ جس میں حکومتی احکامات کورَدکرنے والوں کاتعین ہوتاہے اور پھر قرار واقعی سزادی جاتی ہے۔

بالکل یہی حالات ساؤتھ افریقہ کے ہیں۔ویسے سیاحت کوجوآرٹ کا درجہ ساؤتھ افریقہ میں دیاگیاہے،وہ حیرت انگیز حد تک دلکش ہے۔ جوہانسبرگ سے تین گھنٹے کی مسافت پربہت بڑی جھیلیں ہیں۔پانی کے  ان ذخائرکے کناروں پرلوگوں نے انتہائی خوبصورت ہوٹل قائم کررکھے ہیں۔انھیںHutsکانام دیا گیا ہے۔ تعجب یہ بھی تھاکہ اکثرہٹس برصغیرسے ہجرت کرنے والے لوگوں کی تھیں۔جس ہٹ میں جانے کااتفاق ہوا۔اس میں سیاحوں کے قیام کے لیے بہترین کمرے موجودتھے۔ہرکمرے کے اردگردوسیع وعریض قطعہ اراضی تھے۔ زیبرے، ہرن، مور اور دیگربے ضررجانور موجود تھے۔

کمروں کے عین درمیان ریسٹورنٹ اوربہترین بارتھیں۔ جس وقت میں اس ہٹ میں گیا۔مغربی سیاح کھچاکھچ موجود تھے۔ہٹ کے ساتھ متصل جھیل میں مالکان نے موٹربوٹ کھڑی کررکھی تھیں۔ آپ اس میں جاکر جھیل میں موجود سیکڑوں دریائی گھوڑوں کونزدیک سے دیکھ سکتے ہیں۔یہ تجربہ بھی نایاب تھا۔دریائی گھوڑے بالکل بچوں کی طرح آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ہمیں دیکھ کر پانی میں چھپ جاتے تھے۔ پھر چندمنٹ کے بعدایک آنکھ باہرنکال کردوبارہ دیکھتے تھے۔دیکھ کرپھرپانی میں غائب ہوجاتے تھے۔ افریقہ کی معیشت میں سیاحت کاحددرجہ عمل دخل ہے۔ جسکی اہمیت کو روز بروز مزید اُجاگر کیا جارہا ہے۔

پچھلے بیس برسوں میں جانوروں اورپرندوں کے متعلق آگاہی بہت بڑھی ہے۔ہماراملک بھی اس ذہنی تبدیلی کا حصہ ہے۔لوگ ان مظاہرکونہ صرف شوق سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت کے لیے بھرپورآواز اُٹھاتے ہیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے غیرمہذب گوشت خورشکاریوں سے کسی بھی طریقے سے ان پرندوں کوبچایاجائے۔

ویسے ذاتی طورپرمیں نے بیس سال سے شکارکرنابالکل چھوڑدیا ہے۔ میرے پاس بارہ بورکی انگریزی بندوق ہے جو اب صرف نمائشی حیثیت رکھتی ہے۔تجویز دیناچاہتا ہوں، تجویز کیا خواہش ہے کہ ہمارے ہربڑے شہرمیں چڑیاگھرقائم ہوں۔ تفریح،تحقیق اورسوچ کے بنددروازوں کوکھٹکٹھاکر وا کیا جائے۔ویسے اصل کام تویہ ہے کہ دنیاکے سب سے سفاک جانوریعنی انسان سے جنگلی جانوروں اور پرندوں کومحفوظ رکھاجائے۔انھیں انسانی ستم سے بچایا جائے۔ویسے سب سے ظالم جانورکے شرسے تمام قدرتی مظاہرپناہ مانگتے ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔