سازشیں اور عوام

ظہیر اختر بیدری  اتوار 13 جنوری 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

سیاسی وڈیروں نے عوام میں وقت کے ساتھ بڑھنے والے سیاسی شعور کو کند کرنے اور اس کا رخ موڑنے کے لیے جو جو طریقے ایجاد کیے ہیں ان میں ایک خوف ناک طریقہ عوام میں قوم پرستی کو ہوا دینا ہے۔

انسانوں کو قومی دھارے سے نکال کر قوم پرستی کے سیلاب میں دھکیل دینا، ایک ایسی خطرناک شاطرانہ چال ہے جو وڈیروں کی طاقت کو تو بڑھا دیتی ہے لیکن عوام کی طاقت کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک کھیل ہے جو بڑی مہارت سے شروع کیا گیا تھا لیکن خود اپنی کرپشن کا سمندر اسے نگلتا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں طبقاتی استحصال میں اضافے کی وجہ سے دنیا کے عوام میں طبقاتی شعور بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کی اشرافیائی سیاسی پارٹیوں نے عوام میں شعورکی بیداری کو روکنے کے لیے جو حربے استعمال کیے ہیں ان میں اگرچہ بے شمار حربے ہیں لیکن قوم پرستی ان حربوں میں سب سے زیادہ خطرناک حربہ ہے۔ اس حوالے سے عوام کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا اور اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھایا گیا لیکن قسمت کی خرابی کہی جائے یا لالچ کی انتہا کہ خود اپنے ہی دام میں صیاد آگیا۔

پاکستان کا اصل مسئلہ غربت بھوک افلاس ہے اصولاً اخلاقاً اور سیاسی اخلاقیات کے مطابق ساری سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا مطالبہ اور ذمے داری یہ ہونی چاہیے تھی کہ ملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عوام کے بنیادی مسئلے کو پس پشت ڈال کر عوام کو تقسیم کرنے کی عوام دشمن سیاست کو اپنایا جا رہا ہے۔

غربت بھوک افلاس آج کا رونا نہیں ہے یہ قیام پاکستان کے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے اور پاکستان میں اقتدار کی مالک اشرافیہ رہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ غربت بھوک افلاس اشرافیہ کی دین ہے۔ ملک کی عدلیہ اور ذمے دار طاقتوں نے جب ظلم نا انصافی اور لوٹ مار کو سر سے اونچا دیکھ کر اسے روکنے کا فیصلہ کیا تو عوام دشمن اشرافیہ نے آسمان سر پر اٹھالیا ہے اور اس ’’مصیبت‘‘ کو روکنے کے لیے جو طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں ان میں سب سے بڑا ہتھکنڈہ ہمیشہ کی طرح غریب اور سادہ لوح عوام کا استعمال ہے۔

ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی سیاسی پارٹیاں موجود نہیں جو عوامی مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ اس کمزوری کی وجہ اشرافیہ دھڑلے سے عوامی مفادات کو داؤ پر لگا رہی ہے ملک کا انتظامی سیٹ اپ ایسا بناکر رکھا گیا ہے کہ کسی طاقت کا عوامی مفاد میں کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

بظاہر یہ ساری برائیاں اشرافیہ کی نظر آتی ہیں لیکن اس کی اسپانسر ہماری وہی اشرافیہ ہے جو اس ملک کو روز اول سے تباہ کرتی چلی آرہی ہے ۔ عوام کو روٹی پیٹ بھر نصیب نہیں ، کپڑا تن پر نصیب نہیں ، بچوں کو تعلیم حاصل نہیں، اپنی مرضی کی غذا نہیں کھا سکتے، اپنی مرضی کا کپڑا نہیں پہن سکتے، عوام کی اس حالت زار کو پس پشت ڈال کر بے رحم اشرافیہ اقتدارکی جنگ میں مصروف ہے اور اس جنگ کا ایندھن عوام کو بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا عوام کو اس سازش سے آگہی حاصل ہے؟

71 سال تک بلاشرکت غیرے اقتدارکی عیاشیاں کرنے کے بعد اب جب ایک مڈل کلاسر پارٹی مڈل کلاسر رہنما اقتدار میں آیا ہے تو اس  اشرافیہ پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اس مڈل کلاسر کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا دیا گیا ہے۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے استعمال کرکے ضمیر فروشوں کو خریدا جا رہا ہے، بڑے بڑے مقررین دن رات اقتدار سے محروم اشرافیہ کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 10 سے 30 سال تک اقتدارمیں رہنے والے، صرف 5 ماہ اقتدار میں رہنے والی جماعت کو کیوں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں؟ دوسری جمہوری حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ پانچ سال اقتدار میں رہے۔ ایک مڈل کلاسر حکومت کو پانچ سال اقتدار میں رہنے کے لیے تیار نہیں ایسا کیوں؟

احتساب کرنے والی طاقتوں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بے لاگ بلاامتیاز انصاف کرکے ملک کو اس سیاسی کوڑھ سے نجات دلائیں، جس نے ملک کے بائیس کروڑ عوام کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے۔ بلاشبہ ہماری معیشت آج انتہائی بدترین حالت میں ہے حکومت آئی ایم ایف کے علاوہ کئی بیرونی ملکوں کے کھربوں روپوں کی قرض دار ہے، اگر اس قرض کی موجودہ حکومت ذمے دار ہوتی تو ہم یقینا اس کی مذمت کرتے لیکن اس حکومت کو آئے ابھی 5 ماہ ہو رہے ہیں۔

اشرافیہ کی غلط کاریاں اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری موجودہ حکومت میں بھی نہ سارے فرشتے نہ غریب طبقات کے لوگ اس مڈل کلاس حکومت میں بھی ارب پتی ہیں اورکرپشن کے الزامات زدہ حضرات ہیں۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے صرف 5 ماہ ہو رہے ہیں لیکن اس حکومت نے بھی کوئی ایسے کام انجام نہیں دیے جسے کارنامہ کہا جائے اور اگر اس کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو بلاتخصیص ہم نااہل کو نااہل بددیانت کو بددیانت کہیں گے۔

بہ ظاہر یہ ساری خرابیاں یہ ساری برائیاں سیاست دانوں کی نظر آرہی ہیں اور ہیں بھی لیکن ان خرابیوں نااہلیوں اور نااہل حکمرانوں کی اصل ذمے داری عوام پر آتی ہے۔ اگر ہمارے عوام باشعور اور اچھے برے کو سمجھنے والے ہوتے تو کسی اشرافیائی سیاستدان کو نہ عوام کے ذہنوں پر شب خون مارنے کی ہمت ہوتی نہ کوئی انھیں استعمال کرسکتا۔

بلاشبہ آج ملک کو انتہائی خطرناک سازشوں کا سامنا ہے لیکن ان سازشوں کو کوئی آسمان سے آکر ختم نہیں کرے گا۔ ان سازشوں کو سمجھنا بھی عوام کی ذمے داری ہے اور انھیں ختم کرنا بھی عوام ہی کی ذمے داری ہے۔ بلاشبہ عدلیہ سمیت بعض حکومتی اداروں کی بھی یہی خواہش ہے کہ ملک سے سیاسی گند کا خاتمہ ہو لیکن عوام کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس سیاسی گند کو ختم کرنے میں عدلیہ کا ساتھ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔