نجی رہائشی منصوبے کامیاب، سرکاری ناکام

محمد سعید آرائیں  اتوار 13 جنوری 2019

ملک بھر سے بائیس کروڑکی آبادی کے لیے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں گھروں کی کمی کے باعث ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ملک میں غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بناکر دینے کا اعلان کیا تھا اور حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے پیپلز پارٹی کی طرح اپنی پارٹی کے منشور کو بھلایا نہیں اور ملک کے مختلف اضلاع میں درخواستیں وصول کرائیں اور عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں سرکاری اقدامات جاری ہیں۔ بے گھروں اورکرائے پر رہنے والوں کا دکھ وہی بہتر طور پر جان سکتا ہے جو خود ان مراحل سے گزرا ہو، اس لیے اپنا گھرکسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اور جن کے پاس اپنے گھر نہیں وہی گھروں کی قدر جانتے ہیں۔

50 سال قبل پیپلز پارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان ، مانگ رہا ہے ہر انسان کے نعرے پر کامیابی حاصل کی تھی مگر بعد میں تین تین باریاں لینے والوں نے اپنے محل پہ محل بنائے مگر بے گھروں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس لیے موجودہ نئی حکومت بے گھری کے اہم مسئلے کو ترجیح دے رہی ہے، جو ان کے لیے چیلنج اور مخالفین کے لیے مذاق بنا ہوا ہے۔ حکومت کی نیت اچھی ہے اور کوشش بھی ہو رہی ہے اور جلد ہی کچھ ہونے کے آثار نمایاں ہو جائیں گے۔

کرایہ داروں کے لیے مہینہ گزرتے دیر نہیں لگتی اور انھیں اپنی خوراک اور بیماری سے زیادہ کرائے کی فکر لاحق ہوتی ہے تاکہ مالک مکان کو الٹی میٹم کا موقعہ نہ ملے۔ کرائے کے گھروں کا حصول آسان نہیں ہوتا، یہ بھی اب شاندار کاروبار ہے۔ بڑے شہروں میں اس سلسلے میں اسٹیٹ ایجنسیاں قائم ہیں جو کرائے کا مکان دلانے کے لیے کراچی میں کرایہ دار سے کرائے کے برابر کمیشن لیا جاتا ہے جب کہ لاہور میں کرائے کا مکان لینے والوں سے کرائے کے برابر نصف کمیشن لیا جاتا ہے جب کہ کم ازکم چھ ماہ کے کرائے کے برابر ایڈوانس رقم بھی دینا پڑتی ہے اور اچھا مالک اور اچھا کرائے دار ہو تو ہر سال کرایہ بھی بڑھتا ہے اور سالوں بعد کرایہ دار کو اپنا ایڈوانس معمولی لگتا ہے کیونکہ جب اس نے یہ رقم دی تھی وہ اس وقت اس کے لیے بڑی مگر عشروں بعد معمولی بن جاتی ہے اور کرایہ کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوتا ہے۔

بڑے شہروں میں بڑی فیملی والوں کو کرائے کا گھر مشکل اور خوشامد سے ملتا ہے۔ اچھے مالک مکان بھی کرایہ داروں کو قسمت سے ملتے ہیں۔ فیملی کا ایسے پوچھا جاتا ہے کہ جیسے مالک مکان کرائے دار کو کھانا فراہم کرتا ہو۔ کھانا توکرایہ دار ہی اپنی فیملی کوکھلاتا ہے مگر پانی کم استعمال ہونے اور شور نہ ہونے کو وجوہ بنا کر چھوٹی فیملی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مالک مکان اور کرائے داروں کی باہمی ہم آہنگی نہ ہونے پر مالک ایک ماہ میں مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیتا ہے اور تنازعات عدالتوں میں برسوں زیر سماعت رہتے ہیں اور اس سلسلے میں جھگڑے بھی معمول بنے ہوئے ہیں۔

کرائے سے محفوظ رہنے کے لیے محدود آمدنی والے افراد کے لیے شہر سے دور بھی چھوٹا مکان خریدنا تو دورکی بات ہے کیونکہ مہنگائی کے دور میں چھوٹا موٹا پلاٹ خریدنا ہی ممکن نہیں۔ اس لیے حکومتی ادارے سرکاری زمینوں پر لوگوں کو آسان قسطوں پر رہائشی منصوبے بناتے ہیں جہاں مختلف سائزکے رہائشی اورکمرشل پلاٹوں پر نئی آبادیاں قائم کی جاتی ہیں اور پرائیویٹ بلڈروں کے مقابلے میں سرکاری رہائشی منصوبے سستے اور غریبوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں اور رہائشی منصوبہ اعلان ہوتے ہی درخواستوں کی لائن لگ جاتی ہے اور درخواستیں زیادہ ہونے پر قرعہ اندازی میں پلاٹ الاٹ کیے جاتے ہیں اور سالوں میں قسطوں کی صورت میں جو رقم ملتی ہے، اس سے ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں۔

سرکاری رہائشی پلاٹ چند بڑے شہروں ہی میں دیے جاتے ہیں جب کہ بڑے شہروں میں پرائیویٹ طور پر بڑے بلڈر اور چھوٹے شہروں میں چھوٹے بلڈر بھی اپنے اپنے رہائشی منصوبے پیش کرتے ہیں جو غریبوں کو پلاٹ فلیٹ یا گھر بناکر دینے کے خواب دکھاتے ہیں اور کم قسطوں پر اپنی شرائط پر بکنگ کرتے ہیں۔ نجی بلڈر لوگوں سے فراڈ کرکے غائب بھی ہو جاتے ہیں یا منصوبے پر کام شروع کرا کر بکنگ کرنے والوں سے آئے دن مزید رقم کا تقاضہ کرتے ہیں جو یکدم دینا ناممکن ہوتا ہے جس کا فائدہ بلڈر اٹھاتے ہیں اور پلاٹ یا گھر کینسل کرنے کی دھمکی دے کر مزید رقم بٹورتے ہیں اور نہ ملنے پر کینسل کر کے وہ کسی اور کو مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔

سرکاری رہائشی منصوبے نہ ہونے اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے لوگ نجی رہائشی منصوبوں میں بکنگ کراتے ہیں جہاں چند کے سوا اکثر دو نمبر ہوتے ہیں جو زمین لے کر بکنگ کرتے ہیں اور بہت کم بلڈر وقت پر قبضہ دیتے ہیں اور رقم بھی نہیں بڑھاتے اور قابل اعتماد ہونے کے باعث کامیاب ہیں جن میں بحریہ ٹاؤن نمایاں ہیں جو غریبوں کو نہیں بلکہ متوسط اور امیر طبقے کو جدید رہائشی منصوبے مقررہ وقت پر فراہم کرچکا ہے اور ملک کا سب سے بڑا بلڈر ہے۔

کراچی میں 13 سال قبل سرکاری طور پر تیسر ٹاؤن رہائشی منصوبہ اور چار سال قبل لاہور میں ایل ڈی اے سٹی شہروں سے باہر پیش کیے گئے تھے جن کے پلاٹوں کی رقم ایم ڈی اے کراچی اور ایل ڈی اے لاہور وصول کرچکے مگر پلاٹوں کا وجود نہیں۔ تیسرٹاؤن میں بڑے بڑے گڑھے اور ایل ڈی اے سٹی میں فصلیں کھڑی ہیں اور پلاننگ تک نہیں ہوئی صرف جھوٹے آسرے دیے جاتے ہیں۔ پرائیویٹ بلڈر اپنے منصوبے دیر سویر مکمل کر ہی لیتے ہیں۔ مگر سرکاری ادارے رقم وصول کرکے بھول جاتے ہیں اور حکومتیں بھی ان کی تکمیل کے لیے فنڈ نہیں دیتیں جس کی وجہ سے وہ مکمل نہیں ہوتے اور تعمیری رقم مہنگائی میں بڑھتی رہتی ہے جن پر تعمیرات آسان نہیں مگر دونوں جگہ اب تک پلاٹ ہی نہیں بنائے جا رہے جس سے غریب سخت پریشان ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔