سردارعثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کی صلح سے سازشی ٹولہ پریشان

رضوان آصف  بدھ 16 جنوری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 لاہور: عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تو سب سے بڑا سوال پنجاب کی وزارت اعلی کے حوالے سے ذہنوں میں تھا کیونکہ یہ تو واضح تھا کہ عمران خان ہی وزیر اعظم ہوں گے لیکن ملک کے سب سے بڑے اور اہم ترین صوبے میں،جہاں مسلسل 10 سال تک شہباز شریف جیسے فعال اور متحرک وزیر اعلی نے کام کیا ہو وہاں تحریک انصاف کے وزیر اعلی کا انتخاب ہر ایک کیلئے دلچسپی اور سسپنس کاباعث تھا۔

25  جولائی کی شب انتخابات کے عمومی نتائج سامنے آنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سب سے بڑا اور ہارٹ فیورٹ نام عبدالعلیم خان کا سامنے آیا بالخصوص جب جہانگیر ترین کے ہمراہ عبدالعلیم خان نے پنجاب میں حکومت سازی کیلئے نمبر گیم پوری کرنے کے مشن کا آغاز کیا تو تمام سیاسی و عوامی حلقوں کو یقین ہو چلا تھا کہ پنجاب کے آئندہ وزیر اعلی عبدالعلیم خان ہوں گے،اس تاثر کو فوقیت اور مضبوطی اس لئے بھی ملی کیونکہ تحریک انصاف کی دھڑے بندی میں علیم خان کے مخالف گروپ کے رہنما شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور نے بھی ان کی وزارت اعلی کیلئے حمایت کا اعلان کردیا تھا۔

تین، چار روز تک عبدالعلیم خان کا’’اکلوتا‘‘ نام ہی ہر جانب چھایا رہا لیکن پھر اچانک’’غیر مرئی‘‘ کھیل شروع کرتے ہوئے نیب کو علیم خان کے خلاف متحرک کردیا گیا،گزشتہ ڈیڑھ دو برس میں نیب کی جانب سے کسی سیاستدان کے خلاف کارروائی کی رفتار کا جائزہ لیں تو نیب نے اتنی سپیڈ تو نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے خلاف نہیں پکڑی جتنا کہ جولائی اور اگست 2018 کے دوران عبدالعلیم خان کے خلاف دکھائی دی، یوں معلوم ہوتا تھا کہ نیب کو ماسوائے عبدالعلیم خان کو طلب کرنے کے، مزید کسی کیس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، عبدالعلیم خان کا یہ موقف کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ کچھ’’اپنوں‘‘ اور ’’غیروں‘‘ نے وزارت اعلی کی دوڑ سے باہر کرنے کیلئے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اس وقت نیب نوٹسز کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کا نام بھی علیم خان کا راستہ روکے جانے والوں میں سامنے آیا تو وہیں پارٹی کے اندر شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اسد عمر، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، نعیم الحق، شیریں مزاری سمیت مخصوص گروپ نے بھی جلتی پر خوب تیل ڈالا۔ دلچسپ امر یہ کہ جیسے ہی عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سردار عثمان بزدار کے نام کا اعلان کیا تو نیب کی عبدالعلیم خان کے خلاف تمام پھرتیوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ پنجاب میں 10برس تک میاں شہباز شریف کی مضبوط حکومت قائم رہی ہے۔ شریف برادران کے خلاف عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ بہت منتقم مزاج ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

عبدالعلیم خان کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے تقریباً 8 برس سے زائد وقت ہو چکا ہے،اس دوران انہوں نے لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے مقابلہ میں تحریک انصاف کو تنظیمی طور پر مضبوط حریف کے طور پر سامنے لانے میں غیر معمولی کام کیا اور اس کے بعد این اے 122 کے تاریخ ساز ضمنی الیکشن میں عبدالعلیم خان نے مسلم لیگ(ن) کو ناکوں چنے چبوا دیئے، یہ ضمنی الیکشن ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی معرکہ قرار پا چکا ہے اور اس الیکشن میں ن لیگ اس قدر خوفزدہ ہو گئی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف کو پوری حکومتی طاقت اور وسائل کے ساتھ این اے 122 کے سیاسی اکھاڑے میں اترنا پڑا لیکن اس سب کے باوجود عبدالعلیم خان وہ الیکشن جیت گئے تھے لیکن ووٹوں کی منتقلی کی جادوئی چھڑی سے سردار ایاز صادق کو 1600 ووٹوں سے فاتح قرار دلایا گیا۔

عبدالعلیم خان کی ان تمام ’’گستاخیوں‘‘ کے بعد جس قدر ن لیگ کو ان پر غصہ تھا اگر علیم خان کے خلاف شکایات میں ایک فیصد بھی سچائی ہوتی تو شریف برادران نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور اینٹی کرپشن کے ذریعے علیم خان کو نشان عبرت بنا دیتے لیکن دس برس میں ن لیگ ماسوائے بیان بازی کے علیم خان کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکی۔ سردار عثمان بزدار وزیر اعلی بنے تو اینٹی علیم خان گروپ نے انہیں ڈرانا شروع کردیا کہ کسی بھی وقت عبدالعلیم خان آپ کیلئے ’’خطرہ‘‘ بن سکتا ہے، اینٹی گروپ نے عثمان بزدار کے کانوں میں منافقت اور سازش کا بھرپور زہر اگلا جس کی وجہ سے چار ماہ تک سردار عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے اور خلیج حائل رہی۔

عمران خان ہمیشہ سے عبدالعلیم خان کے ورکنگ سٹائل کو پسند کرتے ہیں اسی لئے پنجاب میں امور حکومت میں علیم خان کا گزشتہ چار ماہ کے دوران اہم کردار رہا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ عمران خان نے سردار عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کو بلا کر ان سے کہا ہے کہ پنجاب میں ملکر چلیں اور تحریک انصاف کی حکومت کو کامیاب بنائیں، عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو بھی کہا کہ وہ سنی سنائی باتوں پر کان مت دھریں اور علیم خان کے ساتھ ملکر کام کریں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے عثمان بزدار اور علیم خان ایک ساتھ دیکھے جا رہے ہیں اور اجلاسوں میں بھی ان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی چمک دمک دیکھی جا سکتی ہے۔ سردار عثمان بزدار کو اب یہ خوف دل سے نکال دینا چاہیے کہ کوئی ان کی جگہ وزیر اعلی آ سکتا ہے، عمران خان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اب یقین کیا جا سکتا ہے کہ جب تک تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت ہے وزیر اعلی کے عہدے پر تبدیلی نہیں آئے گی لہٰذا اب خوف اور عدم تحفظ کے خول سے باہر نکل کر سردار عثمان بزدار کو بھرپور طریقہ سے کام کرنا چاہیے، عبدالعلیم خان کی صورت میں انہیں بہترین ساتھی میسر ہے اور اب نئے تعلقات بننے کے بعد ایکدوسرے پر اعتماد اور یقین کو بڑھا کر دونوں شخصیات عمران خان اور عوام کیلئے بہت فائدہ مند نتائج فراہم کر سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔