تحریک انصاف کی حکومت پر اپوزیشن رہنماؤں کی شدید تنقید

ارشاد انصاری  بدھ 16 جنوری 2019
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے نئے چیلنجز نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے نئے چیلنجز نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

 اسلام آباد: نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے نئے چیلنجز نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

اب اسے مکافات عمل کہیں یا سیاسی شطرنج کی بچھائی جانیوالی چال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور قیادت دونوں کے لئے وہی صورتحال ڈیویلپ ہوتی دکھائی دے رہی ہے جو اس سے پہلے ان کی سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور ان کی قیادت کو درپیش تھی۔

ایک جانب حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کی ناکامی کا بیانیہ عوام میں تقویت پکڑ رہا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کی سینئر قیادت اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ کپتان کی ٹیم کے اہم ممبران کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور کپتان کی بہن علیمہ خان کا معاملہ عدالت کے اندر اور عوامی عدالت میں موضوع بحث ہے اور عدالت میں اس معاملہ بارے اہم پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ اگرچہ بعض سیاسی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو جاتا ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔

جس میں انکے پارٹی رہنماوں یا خود وزیراعظم کی بہن کے خلاف جاری تحقیقات کے حوالے سے اثر ورسوخ یادباؤ کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے، مگر ناقدین کی جانب سے اس پر بھی حاشیہ آرائی کی جا رہی ہے اورکپتان و اس کی ٹیم پر اقربا پروری، اداروں میں مداخلت جیسے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما لیاقت جتوئی کا نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود بیرون ملک جانے کے حوالے سے بھی حکومت پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔

سُپریم کورٹ کی جانب سے اومنی کیس میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت بند گلی میں جاتی دکھائی دے رہی ہے اور اگلے چھ ماہ حکومت کیلئے انتہائی اہم ہیں اگر ان چھ ماہ میں کچھ ڈلیور نہ کر سکی تواس کے نتائج اچھے نہیں ہوںگے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومت ناکام ہوتی ہے تو یہ پورے جمہوری سیٹ اپ کیلئے بھی کسی خطرے سے کم نہیں ہوگا اور شائد یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن احتیاط سے کام لے رہی ہے اور تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک و احتجاج سے اجتناب کئے ہوئے ہے اور پارلیمنٹ کے اندر لڑائی لڑنے کو ترجیح دے رہی ہے اور پارلیمنٹ میں حکومت کو شدید ٹف ٹائم دیا جا رہا ہے۔

اب فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملہ پر بھی حکومت ایک آزمائش سے دوچار ہے اور شائد یہی وہ صورتحال ہے جس کا ادراک کرنے کیلئے ناصحین کی جانب سے حکومت پر زوردیا جا رہا تھا کیونکہ حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپوزیشن کی حمایت کے بغیر آئین سازی کر سکے اب فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملہ پر اپوزیشن کو رام کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے سینئر رہنماوں کو ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کے حلقوں سے اس معاملہ میں حکومت کی حمایت نہ کرنے کی آوازیں آرہی ہیں اور ابھی تک ن لیگ کی جانب سے بھی حمایت کے واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک کی یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملہ پر مخالفت کے موقف پر قائم رہیں گی یا حکومت کی حمایت پر آمادہ ہونگی اور جس ڈیل کی باتیں وزیر ریلوے شیخ رشید کر رہے ہیں کیا اس میں کوئی صداقت ہے یا ن لیگ کے دور حکومت میں کی جانیوالی پیشگوئیوں کی مانند طوطا فال کی حیثیت رکھتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر وزیر اعظم عمران خان نے منگل کو ایک بار پھر اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کو دہرایا ہے اور اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات میں کہا کہ پارلیمنٹ کو کسی کی کرپشن چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اس ملاقات میں وزیراعظم نے اپوزیشن کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔ یہی نہیں بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہرسال پارلیمنٹ پر ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا واک آؤٹ ظاہرکرتا ہے انہیں صرف یہی کام آتا ہے، اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ دباؤ کے حربے ہیں تاکہ این آراو لیا جا سکے جس کے ردعمل میں قائد حزب اختلاف و مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے وزیراعظم کا اپوزیشن پر این آر او سے متعلق الزام مسترد کردیا ہے۔

قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی زیر صدارت اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس ہوا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے چیمبر میں ان کی زیر صدارت اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو، خورشید شاہ، نوید قمر اور شیری رحمان، ایم ایم اے کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود، مولانا واسع، اے این پی کے امیرحیدرہوتی جبکہ رانا تنویر، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، سینیٹر پرویز رشید شریک ہوئے۔ اس اہم اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال، فوجی عدالتوں میں توسیع، نیب کی کارروائیوں اور اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہوا، تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال سے بہت سے سوالات ضرور جنم لے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت کے بارے میںکھُل کر حمایت کرنے والے اب ٹریک بدل رہے ہیں بہت سے تو ٹریک بدل چکے ہیں اور جتنی شدت سے پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت کی حمایت میں بولا کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ اب کپتان اور اسکی ٹیم پر تنقیدکے تیر چلارہے ہیں اور پھر سے ملک میں صدارتی نظام،آئین کی معطلی، سندھ میں جوڑ توڑ، جمہوریت کی بساط لپیٹنے سمیت طرح طرح کی افواہوں پر مبنی بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔

حکومت کے بارے میں یہ بیانیہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ کپتان کی جانب سے کمزور اور امیچور ٹیم کا انتخاب ہے اورکپتان کی ٹیم آپسی اختلافات کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہم و قومی اور داخلی و خارجی معاملات پر کپتان کی ٹیم کے سینئر ممبران کے بیانات میں تضاد دیکھنے میں آتا ہے اور پھر کپتان کی ٹیم کی صلاحیتوں پر بھی اب سوال اٹھائے جا رہے ہیں اگرچہ پانچ ماہ قبل عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی سربراہی میں اقتدار سنبھالنے والی اس حکومت کو ماضی کی غلط کاریوں یا فیصلوں کا بوجھ بھی ورثہ میں ملا ہے اور یہ ترکہ صرف برے سیاسی نظام ، جمہوریت پر گرتے ہوئے اعتماد اور سول ملٹری تعلقات کی دگرگوں صورت حال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان میں سر فہرست معاشی مسائل ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ، دوست ملکوں کی مدد کے باوجود کم ہونے میں نہیں آرہا۔

نیا پاکستان تعمیر کرنے والی حکومت ایک کروڑ نوجوانوں کو روز گار اور پچاس لاکھ غریبوں کو گھر فراہم کرنا چاہتی ہے اور وزیر اعظم عمران خان ملک کو دنیا بھر میں عزت و احترام دلوانا چاہتے ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ خیرات پر چلنے والے ملک کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتے اس کے باوجود حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے عمران خان کو خالی خزانہ بھرنے اور معیشت کے انجماد کو توڑنے کیلئے دوست ملکوں سے مالی امداد مانگنا پڑی ہے۔

نئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عالمی مالیاتی ادارے سے پیکیج نہیں لے گی کیوں کہ اس طرح ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات سے براہ راست غریب آدمی متاثر ہوگا۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز منی بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ عندیہ دیاہے کہ حکومت فوری طور سے آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کا ارادہ نہیں رکھتی اور وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ اعلان اس بات کی عکاس کرتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی بصیر ت افروز اور دیانت دار قیادت میں پاکستانی حکومت نے دوست ملکوں سے مراعات اور مالی امداد لے کر معاشی بحران پر قابو پا لیا ہے اور وہ مستقبل میں بھی دراصل آئی ایم ایف کی بجائے متبادل ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس دعوے کے ساتھ ہی جب آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لینے کے آپشن کو مستقل طور سے رد کرنیکی بجائے، ہر تھوڑے وقفے کے بعد اسے مؤخر کرنے کی بات کی جاتی ہے تو شبہات اور بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ متعدد اقتصادی ماہرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس قسم کی بے یقینی ملکی معیشت کیلئے مناسب نہیں ہے کیوں کہ اس طرح نئی سرمایہ کاری اور معاشی تحرک کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔

سیاسی فرنٹ پر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے تاحیات قائد میاں نوازشریف اور انکے خاندان کے خلاف مقدمات بارے بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ نیا سال مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کیلئے خوش آئند ثابت ہو رہا ہے ایون فیلڈ کیس میں نیب کی جانب سے سُپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر اپیلیں بھی مسترد کردی گئی ہیں جو یقیناً میاں نوازشریف ، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کیلئے ایک بڑا ریلیف ہے، اس کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ 21 جنوری کو نیب کی اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ عدالت میں ایک ہی دن نیب اور نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت ہوگی۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پہلے ہی سماعت کے لیے مقرر ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔