سینٹ ضمنی الیکشن؛ بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی کامیاب

ارشاد انصاری  بدھ 16 جنوری 2019
بلوچستان سے سردار اعظم خان موسیٰ کی وفات سے خالی ہونے والی سینٹ کی نشست بلوچستان عوامی پارٹی نے جیت لی

بلوچستان سے سردار اعظم خان موسیٰ کی وفات سے خالی ہونے والی سینٹ کی نشست بلوچستان عوامی پارٹی نے جیت لی

 اسلام آباد: بلوچستان سے سردار اعظم خان موسیٰ کی وفات سے خالی ہونے والی سینٹ کی نشست بلوچستان عوامی پارٹی نے جیت لی اس نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مشترکہ اُمیدوار منظور احمد کاکڑ تھے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار بی این پی کے غلام نبی مری میدان میں تھے۔65 کے ایوان میں63 ووٹ کاسٹ ہوئے (ن) لیگ کے نواب ثناء اﷲ زہری اور پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند نے ووٹ کاسٹ نہیں کئے۔

منظور احمد کاکڑ38 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ بی این پی کے غلام نبی مری کے حق میں23 ووٹ آئے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سردارحنیف موسیٰ خیل کو ایک ووٹ پڑا جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو65 کے ایوان میں 40 ارکان کی واضح اکثریت حاصل ہے نو منتخب سینیٹر منظور احمد کاکڑ کو پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے پورے کے پورے ووٹ ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت بھی بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور ان میں کسی قسم کا ختلاف نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقے منظور احمد کاکڑ کی کامیابی کو وزیراعلیٰ جام کمال کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

ان حلقوں کے مطابق سینٹ کی اس نشست پر ضمنی انتخاب کے دوران یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض پارلیمانی ارکان وزیراعلیٰ جام کمال سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور اندرونی طور پر سیون کا ایک گروپ تشکیل پا چکا ہے جو کہ سینٹ کے اس ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کے مشترکہ اُمیدوار کو ووٹ نہیں دے گا؟ اور یہ افواہیں گشت کر رہی تھیں کہ بی اے پی کو اپنا اُمیدوار کامیاب کرانے میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔

اگر اس ضمنی الیکشن میں بی اے پی اپنا اُمیدوار کامیاب نہ کرا سکی تو مستقبل قریب میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے؟ لیکن یہ تمام افواہیں اور قیاس آرائیاں منظور کاکڑ کی کامیابی سے دم توڑ گئیںجبکہ اس سے قبل وزیراعلیٰ جام کمال نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے نہ صرف پارٹی کے پارلیمانی گروپ بلکہ اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کئے اور انہیں ایک پیج پر رکھا یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنی اتحادی جماعت اے این پی کے مضبوط اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲ کو بھی بی اے پی کے اُمیدوار منظور احمد کاکڑ کے حق میں دستبردار کروا کر ایک سیاسی اسکور کیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس ضمنی انتخاب کے دوران بعض پارلیمانی جماعتوں نے سیاسی طور پر فائدہ حاصل کیا اور بعض نے سیاسی نقصان اُٹھایا ہے، خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی جو کہ مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہے اور بلوچستان میں وہ اقتدار میں اہم اتحادی جماعت تصور کی جاتی ہے۔

سینٹ کے ضمنی انتخاب میں عوامی نیشنل پارٹی نے ایک سنجیدہ اور مضبوط سیاسی اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲکو ٹکٹ جاری کیا جو ایک قدآور سیاسی شخصیت کے مالک ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی جماعتیں ڈاکٹر عنایت اﷲ جیسی قد آور سیاسی شخصیات کو عزت و احترام دیتے ہوئے بلا مقابلہ منتخب کرتیں اور ایک اچھا اور مثبت پیغام بلوچستان سے ملک بھر کیلئے جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی کشمکش کی صورتحال میں انہیں دستبردار کروادیا گیا۔ جبکہ اپوزیشن جماعت بی این پی مینگل نے سینٹ کے ضمنی الیکشن میں مرکز میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے تعاون اور حمایت نہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حمایت کے حوالے سے غور و خوص کیلئے ہنگامی سطح پر پارٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ بی این پی مینگل وفاق میں تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار ہو جائے یقیناً ایسی صورت میں ملک میں ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر ایک نئی بحث کا آغاز اُس وقت ہوا جب پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر نے ایک ٹوئٹ کیا جس میں اُنہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان جو کہ پارٹی کے مرکزی صدر بھی ہیں کی حکومتی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ جام کمال بحیثیت وزیراعلیٰ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن پارٹی کی طرف توجہ نہیں دے پا رہے اس لئے انہیں پارٹی عہدے سے الگ ہو کر یہ ذمہ داری کسی اور کو دے دینی چاہیے۔اُن کے اس ٹوئٹ پر پارٹی کارکنوں نے مثبت ردعمل دیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی بعض پارٹی کارکن اور عہدیداران اُلجھ بھی پڑے۔ اخبارات میں بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ تنقید اور جواب شکوہ نے پارٹی کی اندرونی کہانی کو کھول کر رکھ دیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک طرف پارٹی کے اندر معاملات سنگین ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی بعض ارکان کے اُن سے گلے شکوے بڑھتے جا رہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ سینٹ کے ضمنی الیکشن میں دیکھنے میں آیا گو کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے فوری طور پر حالات پر قابو تو پا لیا ہے لیکن بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال وقتی ہے کیونکہ سینٹ کے ضمنی الیکشن کے بعد تبدیل ہوتا سیاسی ماحول اور اپوزیشن جماعت بی این پی مینگل کے سیاسی فیصلے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔