جے یو آئی (ف) کا ملک بھر میں ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان

شاہد حمید  بدھ 16 جنوری 2019
مولانا فضل الرحمن نے  اپنے طور پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے

مولانا فضل الرحمن نے اپنے طور پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے

پشاور: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کو یکجا کرنے کے حوالے سے اپنے طور پر کوششیں کیں تاہم ان کی یہ کوششیں رنگ نہ لاسکیں جس کی وجہ سے وہ دونوں جماعتوں سے مایوس ہوگئے ہیں۔ تاہم دونوں جماعتوں سے مایوسی کے باوجود انہوں نے اپنے طور پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جس کے لیے انہوں نے 27 جنوری کوڈی آئی خان کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، ملین مارچ کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے تاہم اب تک یہ بنیادی طور پر جے یوآئی ہی کے شو تھے جس میں متحدہ مجلس عمل میں شامل دیگر پارٹیاں شریک نہیں رہیں تاہم اب نہ صرف مولانا فضل الرحمٰن نے ملک کے مختلف شہروں میں ملین مارچ منعقد کرنے کا سلسلہ آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے تو ساتھ ہی ان میں ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی شریک کرنے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ جے یوآئی اور جماعت اسلامی کی جانب سے اپنے طور پر جلسوں اور مختلف تقاریب کے انعقاد سے ایم ایم اے کے ٹوٹنے کا تاثر پیدا ہو رہا تھا۔

ایم ایم اے کو متحرک کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جے یوآئی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے گی۔ تاہم قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے جمیعت علماء اسلام (ف) تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی جس کی وجہ پارٹی میں پایا جانے والا اختلاف ہے تاہم اکثریت کی رائے یہی ہے کہ جے یوآئی کو قبائلی اضلاع کے مذکورہ انتخابات سے باہر رہنے کی بجائے الیکشن کے لیے میدان میں اترنا چاہیے۔

مذکورہ گروپ کی رائے ہے کہ اگر جے یوآئی قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی تو اس سے نہ صرف ایم ایم اے کو دھچکہ لگے گا اور ایم ایم اے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا کیونکہ جماعت اسلامی تو ہر صورت ان اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لے گی، ساتھ ہی جے یوآئی کو یہ نقصان ہوگا کہ اس کا جو ووٹ بنک قبائلی اضلاع میں موجود ہے وہ دیگر پارٹیوں کی طرف منتقل ہو سکتا ہے جو جے یوآئی کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ہوگا جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ رائے بھی پیش کی گئی ہے کہ اگر جے یوآئی قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تو اسی سال صوبہ کے دیگر حصوں کی طرح ان قبائلی اضلاع میں کیونکر حصہ لے پائے گی؟

یقینی طور پر جے یوآئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مذکورہ اکثریتی گروپ کی جو رائے سامنے آئی ہے وہ زمینی حقائق کے مطابق ہے اس لیے ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی ایسی غلطی نہیں کریں گے کہ وہ میدان کسی اور کے لیے خالی چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہ وہی مولانا فضل الرحمٰن ہیں جو جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے باوجود2008 ء کے عام انتخابات کے بائیکاٹ پر بھی راضی نہیں ہوئے تھے تاہم انہوں نے معاملات کوترتیب سے چلانے کے لیے بال اپنی پارٹی کی قبائلی تنظیم کے کورٹ میں پھینک دی ہے تاکہ وہ سفارش کریں کہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے اور ان کی رائے کو شرف قبولیت بخشا جائے گا۔

جماعت اسلامی کی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں تنہا پرواز کی باتیں بھی اسی وجہ سے ہیں کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو خدشہ ہے کہ کہیں جے یوآئی مذکورہ انتخابات سے لاتعلقی ہی نہ اختیار کر لے اور اس لاتعلقی میں انھیں بھی شامل ہونے کا نہ کہاجائے،جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کی یہ خواہش رہی ہے کہ انھیں اپنے انتخابی نشان ترازو کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے تاکہ انھیں اپنی قوت بازو کا پتا چل سکے۔

تاہم اگر جے یوآئی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو اس صورت میں امکان یہی ہے کہ جماعت اسلامی اس کے ساتھ ہی میدان میں اترے گی تاہم اس کے لیے جماعت اسلامی صرف باجوڑ پر ہی اکتفاء نہیں کرے گی بلکہ دیگر قبائلی اضلاع میں بھی بھرپور حصہ مانگے گی اور اگر جے یوآئی ، ایم ایم اے کوبہتر انداز میں چلانا اور اسی پلیٹ فارم سے قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہاں ہے تو اس صورت میں اسے دل بڑا کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو کیک میں سے زیادہ حصہ دینا ہوگا تاکہ معاملات ٹریک پر رہیں۔

اور صرف مذہبی جماعتوں ہی میں قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے ہلچل نہیں بلکہ خیبرپختونخوا حکومت نے جس طریقے سے قبائلی اضلاع کو فوکس کر رکھا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی وزیر یا مشیر عازم قبائلی اضلاع ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی اصل کہانی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی کا حصول ہی نظر آتی ہے۔

چونکہ قبائلی اضلاع میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور تحریک انصاف جو اس وقت مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے وہ ہر صورت یہی چاہے گی کہ قبائلی اضلاع سے بھی انھیں ہی اکثریت ملے تاکہ ان کی پوزیشن مزید مستحکم بھی ہو سکے اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں ان کے لیے مسائل بھی نہ بنیں،گو کہ خیبرپخونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کو پہلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور قبائلی اضلاع سے اگر اپوزیشن اکثریتی نشستیں جیت بھی لے تو اس سے پی ٹی آئی کی حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم اس سے قطع نظر پی ٹی آئی کی یہی کوشش ہوگی کہ مستقبل کے 145 رکنی ایوان میں بھی اسے دوتہائی اکثریت حاصل رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔