ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سے سب کی نااہلی کا پول کھل گیا

فیاض ولانہ  منگل 16 جولائی 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

اسلام آباد: ہفتہ رفتہ اس حوالے سے ہنگامہ خیزرہا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کا ایک مسودہ منظر عام پر آنے کی وجہ سے ہر حساس طبع پاکستانی مذکورہ رپورٹ میں چھپے ایک ایک لفظ سے منہ چھپانے پر مجبور نظر آیا کیونکہ اس مسودے نے ہمارے حساس ترین اوراہم ترین اداروں سمیت ہم سب کو نااہل اوردانستہ ونادانستہ غفلت کا مرتکب قرار دیا۔

المختصر یہ رپورٹ ندامت ہے اور تاقیامت دردمند پاکستانیوں کیلئے باعث ندامت ہی رہے گی۔ یہ رپورٹ کیسے منظر عام پر آئی، کس نے کن مقاصد کے حصول کیلئے اسے پبلک کرنا ضروری جانا۔ اس بحث سے قطع نظر اب وقت ہے تو اس بات کا فیصلہ کرنے کا کہ ہم آئندہ ایسے واقعات کے سد باب کیلئے کیا ٹھوس اقدامات کررہے ہیں۔ ہم ندامت کے چھینٹوں کو اپنے دامن سے اتار کر کبھی بھی بے داغ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ البتہ بہتر منصوبہ بندی سے اس بدنما ماضی کو اپنا مستقبل بننے سے ضرور بچا سکتے ہیں اور اس کیلئے ہمیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی اس بات پہ دھیان دینا ہوگا کہ امن و امان سے متعلق تمام اداروں کو ایک ہنگامی قومی فرض سمجھتے ہوئے انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کو مزید مضبوط اور فعال بنانا ہوگا۔

وزیر اعظم نوازشریف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ملک میں توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے وہ ممکن حد تک دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ چین کے دورے پر گئے تو چینی سرمایہ کاروں سے توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے مدد مانگی۔ نو سوانہتر میگا واٹ نیلم جہلم پاورپراجکٹ کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کے احکامات جاری کئے، خود پراجیکٹ کا دورہ کیا، چین سے چار سو چھیالیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی فراہمی یقینی بنائی۔ منگلا ڈیم کے قریب بہتے پانی سے قائم کئے گئے نجی شعبے کے پہلے چوراسی میگا واٹ کے پن بجلی گھر کا افتتاح کیا۔ نندی پور پاور پراجکٹ کو سابق حکمرانوں کی غفلت اور نسیان کے کباڑ خانے سے جھاڑ پھونک کر تکمیل کی راہوں پر گامزن کردیا۔ بجلی کی پیداوار اور ضرورت میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کیلئے وزیر اعظم نے ایف آئی اے کے اندر بجلی و گیس چوروں سے نمٹنے کیلئے خصوصی یونٹ قائم کرکے ایک انتہائی ماہر افسر حسین اصغر کو اس کا سربراہ مقررکردیا۔

جنہوں نے کام شروع کرتے ہی ایک روز لاہور میں ایک بڑے بجلی چور کو پکڑا تو اگلے روز فیصل آباد سے ایک بڑے گیس چور کو پکڑ کر عوام کے سامنے پیش کردیا۔وزیر اعظم کو معلوم ہوا کہ سیکرٹری پانی وبجلی انوار احمد خان اور چیئرمین واپڈا سید راغب عباس شاہ ان کی واضح ہدایت کے باوجود روایتی سستی اور غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو انھوں نے بلاتوقف دونوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔بجلی کی ڈسٹری بیوشن کی ذمہ دار کمپنیوں لیسکو، آئیسکو، فیسکو وغیرہ کے بارے میں معلوم ہواکہ ان کے بورڈ آف دائریکٹرز کے ممبران کی نامزدگیاں گذشتہ دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور وہ حکومتی اعلانات اور ہدایات کے باوجود نہ صرف سحری اور افطاری میں لوڈشیڈنگ کئے جانے کا موجب بن رہے ہیں بلکہ ان کی ہداہات سے بعض من پسند صنعتی صارفین کو بغیر کسی شیڈول کے اضافی بجلی فراہم کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم نے ان ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تحلیل کرکے ازسر نو تشکیل کیلئے ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔ ادھر بھارت نے دریائے چناب میں آنے والے پانی کے راستے میں ڈھوڈہ کے مقام پر آٹھ سو پچاس میگا واٹ کا پاور پراجیکٹ شروع کرکے مزید ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے، ہماری وزارت خارجہ نے بھارت سے احتجاج کرنے کیلئے وزارت پانی وبجلی سے اس بابت تفصیلات مانگ لی ہیں جبکہ وزارت پانی و بجلی نے انڈس واٹر کمیشن کے کورٹ میں گیند پھینکتے ہوئے بات آگے بڑھا دی ہے مگر ضرورت اس امرکی ہے کہ انڈس واٹر کمیشن کے ایک عرصہ تک سیاہ سفید کے مالک بنے بیٹھے رہے سابق کمشنر سید جماعت علی شاہ کو کینیڈا سے بلواکر پوچھ گچھ کی جائے کہ وہ ایک مدت تک بہارت کے ساتھ پانی کے تنازعات پر بات چیت کرتے رہے مگر ان ساری ملاقاتوں اور مزکرات کا پاکستان کو تو فائدہ نہ ہوا البتہ بہارت کو کافی فائدہ پہنچایا گیا ہے تو اس کی تفصیلات سے پارلیمنٹ اور قوم کو آگاہ کردیا جائے، اس سے پہلے کہ کسی غیر ملکی چینل سے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کی طرز کی کوئی رپورٹ نشر ہونے کے بعد ہم سب ایک دوسرے سے شرمندگی کے باعث پھر منہ چھپاتے پھریں۔

صدر آصف علی زرداری کے غیر ملکی نجی دورے کو سیاسی مبصرین ان قیاس آرائیوں سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں کہ اب شائد وہ صدارت کی باقی ماندہ مدت بیرون ملک ہی گزاریں، اس بات میں اتنی سچائی نظر نہیں آتی مگر یہ حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سوئس لیٹرز کا معاملہ دوبارہ کھولنے کی کوشش سے صدر زرداری بہر حال ناراض ضرور ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حلف والے دن دونوں رہنمائوں کی چند منٹ کی ایک رسمی سی ملاقات کے علاوہ گزشتہ اڑتالیس دنوں کے دوران کوئی باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی ایسی صورت میں سوالات اٹھانے والے اپنے تئیں حق بجانب ہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی نجی دورے پر لندن گئے ہوئے ہیں اور حکومت کی تجویز کردہ قومی کانفرنس التوا کا شکار ہوئے جارہی ہے۔ شنید ہے کہ حکومت کو عمران خان کی یہ تجویز بھلی معلوم ہونے لگی ہے کہ تمام سیاسی پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کو بلانے کے علاوہ ملک کی پانچ سے چھ اہم ترین شخصیات کا بھی ایک تفصیلی اجلاس منعقد کیا جائے جس میں اہم ترین اور حساس ترین داخلی و خارجی قومی معاملات کو زیر بحث لانے کے بعد دہشتگردی و انتہاء پسندی کے خاتمے اور ڈرون حملے رکوانے کیلئے ایک متفقہ و مشترکہ قومی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔