لیاری کے مسئلہ پر وفاق اور صوبے کی الگ الگ حکمت عملی

جی ایم جمالی  منگل 16 جولائی 2013
 اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین لیاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اختلافات جنم لے سکتے ہیں فوٹو: فائل

اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین لیاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اختلافات جنم لے سکتے ہیں فوٹو: فائل

کراچی: کراچی کے علاقہ لیاری سے نقل مکانی کرنے والے کچھی برادری کے لوگوں کا معاملہ آج کل زیر بحث ہے ۔

لیاری میں حالات کافی عرصے سے خراب ہیں لیکن الیکشن کے بعد یہاں حالات نے نیا رخ اختیار کیا ہے یا حالات کو نیا رخ دیا گیا ہے ؟ یہ سوال بھی مختلف حلقوں میں کیا جارہا ہے ۔ اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین لیاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اختلافات جنم لے سکتے ہیں اور یہاں کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں ۔ حکومت سندھ نے حالات کو بھانپتے ہی لیاری کی صورت حال پر خصوصی توجہ دینا شروع کی اور اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر ساؤتھ جمال مصطفی قاضی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں ڈی آئی جی ساؤتھ امیر شیخ ، رینجرز کا نمائندہ اور علاقے کی ممتاز شخصیات شامل تھیں ۔

اس کمیٹی نے وہاں بلوچ اور کچھی برادری کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں ۔ ان ملاقاتوں میں ان لوگوں نے بتایا کہ بلوچ اور کچھی صدیوں سے اس علاقے میں ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ کوئی دوسری قوت انہیں لڑانا چاہتی ہے اور اب وقت کی نزاکت کے تحت لیاری کے لوگوں کو متحد ہوکر حکمت عملی بنانا ہوگی ۔ لوگوں نے کمیٹی کے ارکان کو شرپسند عناصر کی نشاندہی بھی کی اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ حکومت سندھ نے اس کمیٹی کو قیام امن کے لیے تمام اختیارات بھی دیئے اور کمیٹی نے اس ضمن میںاقدامات بھی شروع کردیئے تھے لیکن پھراچانک لیاری میں حالات خراب کردیئے گئے اور بے گناہ لوگوں کو اغواء کرکے قتل کرنے کی وارداتیں بڑھ گئیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے وزیر قانون سندھ ڈاکٹر سکندر میندھرو کی سربراہی میں لیاری کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی ، جس نے بدین اور بھنبھور میں نقل مکانی کرنے والے افراد سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ اپنے گھروںکو واپس چلے جائیں ۔ نقل مکانی کرنے والے افراد سے ملاقاتوں میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ لیاری کے حالات خراب کرنے میں کسی تیسری قوت کا ہاتھ ہے ۔ حکومت سندھ نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی نہ صرف تیار کرلی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شروع کردیا لیکن اس وقت صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی جب وزیراعظم میاں نواز شریف کی ہدایت پر وفاقی سیکرٹری داخلہ چوہدری قمرزمان نے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو کے ہمراہ کراچی کے علاقے لیاری کا دورہ کیا ۔

انہوں نے قبل ازیں چیف سیکرٹری سندھ ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ سندھ اور ڈی جی رینجرز سے ملاقات کی ۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، لیاری میں قیام امن کے لیے کام کرنے والے اداروں کے حکام اور سیاسی لوگوں سے ملاقاتیں نہیں کیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس بات کا شکوہ بھی کیا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے بھیجی گئی ٹیم نے ان سے ملاقات نہیں کی اور ٹیم نے اپنی جو رپورٹ تیار کی ، وہ بھی انہیں دی نہیں گئی ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ لیاری کے مسئلے پر سندھ حکومت اور وفاقی حکومت نے الگ الگ راستے اختیار کرلیے ہیں ۔

سندھ حکومت کی تمام ٹیمیں لیاری کے حالات کی ذمہ داری لیاری سے باہر کی قوت پر ڈال رہی ہیں ، جو ان کے خیال میں لیاری سے پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ ختم کرانا چاہتی ہے۔ جبکہ وزیراعظم کی ٹیم نے لیاری کے حالات کی ذمہ داری گینگ وار پر ڈالی ہے حالانکہ لیاری کی سیاسی قوتیں کہتی ہیں کہ لیاری میں کوئی گینگ وار نہیں ہے اور اگر تیسری قوت کی مداخلت ختم ہوجائے تو لیاری میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ سندھ حکومت کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ لیاری کی کچھی برادری کے لوگوںکو مصنوعی نقل مکانی پر اکسایا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت لیاری کے معاملات میں مبینہ دخل اندازی کر رہی ہے ۔ وفاقی حکومت کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کراچی کی بدامنی کو کنٹرول کرنے کے لیے اگر سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ، تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں ۔ آئینی طورپر امن و امان کے قیام کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔

وفاقی سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ صوبائی حکومتوںکو معلومات فراہم کریں اور جہاں ضرورت ہو ، ان کی معاونت کریں ۔ وفاقی حکومت اگر اپنی آئینی حدود میں رہے تو وہ امن وامان کے قیام کے حوالے سے از خود کوئی اقدام نہیں کرسکتی ہے بلکہ وہ صوبائی حکومتوں کو اقدامات کے لیے مشورہ دے سکتی ہے ۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مؤثر رابطے اور اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی پابند ہے لیکن سندھ حکومت میں یہ احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی میں امن و امان کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ساتھ مشاورت نہیں کر رہی ہے ۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تأثر کو ختم کرے اور ہم آہنگی کی فضاء میں کراچی میں قیام امن کے لیے سندھ حکومت کی مدد کرے ۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان کسی قسم کے اختلاف یا کشیدگی کی صورت میں دہشت گردوں اور بدامنی پھیلانے والوں کو فائدہ ہوگا ۔

کراچی میں گزشتہ تین عشروں سے حالات خراب ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بعض سکیورٹی اداروں ، سیاسی جماعتوں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کراچی کے مسئلے کی صحیح تشخیص میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا ۔ پہلے دن سے ہی معاملات کو الجھایا گیا تاکہ بدامنی کے پس پردہ مقاصد بے نقاب نہ ہوسکیں اور بدامنی کے ذمہ دار لوگ گرفت سے محفوظ رہیں ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پہلے بھی دو مرتبہ مرکز اور سندھ میں حکومتیںرہیں لیکن وہ بھی یہاں امن قائم نہیں کرسکے۔ کراچی کے لوگ اب بدامنی سے تھک چکے ہیں ۔ کراچی کروٹ لے چکا ہے۔ اب کراچی میں بدامنی کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جاسکتی ۔ اس بات کا احساس پاکستان کے طاقت ور حلقوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی حلقوںکو بھی ہورہا ہے ۔ وفاقی حکومت کو بھی اس کا احساس کرنا چاہیے ۔ اس بات میںکوئی حرج نہیں ہے کہ وفاقی حکومت کراچی میں قیام امن کی اپنی کوششوں سے نہ صرف سندھ حکومت کو آگاہ کرے بلکہ اسے اعتماد میں لیتے ہوئے اس کے ذریعے سارے اقدامات کرائے کیونکہ اس سے جلد اور پائیدار امن قائم ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔