بجلی، گیس چوروں کے خلاف مہم

ایڈیٹوریل  منگل 16 جولائی 2013
مطلوبہ بجلی فراہمی کیلیے ناکافی وسائل اورانفرااسٹرکچرشائدحتمی تاریخ دینے میں رکاوٹ. فوٹو : فائل

مطلوبہ بجلی فراہمی کیلیے ناکافی وسائل اورانفرااسٹرکچرشائدحتمی تاریخ دینے میں رکاوٹ. فوٹو : فائل

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد میں گیس چوری کی مرتکب ایک فیکٹری کے دورے کے موقعے پر صحافیوں سے بات چیت اور صنعتکاروں سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ بجلی اور گیس چوروں کو نشان عبرت بنا دیں گے کیونکہ یہ لوگ ملک اور قوم کے دشمن ہیں۔ جو لوگ چوری میں پکڑے گئے ہیں‘ان کو چھوڑیں گے نہیں، ان کی ضمانتیں بھی نہیں ہونی چاہئیں، بجلی کا بحران بڑا سنگین مسئلہ ہے جو ایک ماہ کے اندر ختم نہیں کیا جا سکتا تاہم ایک جامع حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے جس سے لوڈ شیڈنگ بتدریج کم کی جا سکے گی۔

انھوں نے کہا کہ ہائیڈل، سولر سمیت شوگر ملز کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں گے اور5سال میں لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیں گے۔ وزیر اعظم نے وزارت قانون کو بجلی اور گیس چوروں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے فوری آرڈیننس کے اجرأ کے لیے قانونی مسودہ 24 گھنٹے میں تیار کر کے پیش کرنے کی ہدایت کی ہے جس کے تحت بجلی اور گیس چوروں کی 3سال تک ضمانت نہ ہو سکے اور جس فیکٹری یا تجارتی جگہ پر گیس چوری ہو اسے ایک سال کے لیے سیل کر دیا جائے۔اس قانون کو پارلیمنٹ سے بھی منظور کرایا جائے گا۔

ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ہدایت پر قائم کی گئی خصوصی ضلع ٹاسک فورس نے انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان میں بجلی و گیس چوری میں ملوث فیکٹریوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا اور ایک فیکٹری کو 11کروڑ 80لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا اور مالکان کے خلاف گیس چوری کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ روپے کے گیس بل کی نادہندگی پر ایک اور فیکٹری کا کنکشن بھی کاٹ دیا گیا ۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ دورہ فیصل آباد میں کہا کہ ملک توانائی بحران سے دوچار ہے لیکن گیس اور بجلی کے چور عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہے ہیں جنہیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ فیصل آباد میں گیس چوری کے6کیس پکڑے ہیں جن میں 40کروڑ روپے سالانہ کی گیس چوری کا تخمینہ ہے۔

ملک کے دیگر شہروں کی طرح بجلی کی طویل بندش اورغیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث کراچی سمیت اندرون سندھ کے کئی شہروں میں صورتحال سنگین ہوگئی ہے ، بجلی اور گیس چوری میں ملوث فیکٹریوں، صنعتی یونٹوں ، شہر کے انڈسٹریل و رہائشی علاقوں میں قائم کارخانوں ، تجارتی مراکز اور مارکیٹوں میں کنڈا سسٹم رائج ہے جس کے نتیجے میں بجلی کے غیر متوازن لوڈ اور وولٹیج مسائل کی وجہ سے بجلی کی فراہمی کا نظام بحران کا شکار ہے۔ سر دست بجلی اور گیس چوری کے خلاف کراچی اور اندرون سندھ کریک ڈائون شروع نہیں ہوا ہے تاہم اندروں سندھ بجلی چوری میں ملوث عناصر اور بڑے بڑے نجی کارخانوں، صنعتی اور زرعی یونٹوں، با اثر شخصیات کے بنگلوں اور نجی صارفین کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

گرفتاریاں ہوئیں ہیں اور جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں تاہم بجلی بحران کی روک تھام کے لیے منی پاکستان اور اندروں سندھ بڑے ایکشن کی سخت ضرورت ہے جس میں سندھ حکومت کو پنجاب کی طرز پر جامع لائحہ عمل اور راست اقدام کرنا پڑے گا اور اس نازک مرحلے میں جب کہ بجلی اور گیس چور مافیا ملکی اقتصادیات کو اربوں روپے کے خسارے سے دوچار کررہی ہے ، کئی جگہوں پر اندھا دھند بجلی چوری جاری ہے ، شہر کراچی میں کنڈا سسٹم بجلی محکمے کی غفلت کے باعث دھڑلے سے چل رہا ہے جب کہ بجلی محکمے کے خلاف صارفین کی جائز شکایات بھی بے شمار ہیں سندھ حکومت وفاق سے بھرپور تعاون کرے اور حالیہ اقدامات سے استفادہ کرے ، اس وقت وفاق کی مداخلت کے الزام یا بلاجواز تنازعہ سے گریز کرنا قومی مفاد میں ہے ۔توانائی بحران قومی مسئلہ ہے۔ کراچی میں بجلی کی فراہمی پنجاب کی بی نسبت صوبائی مسئلہ ہے اور ذمے داری کے ای ایس سی  کے سپرد ہے جس نے فعال کردار ادا کرنے کے لیے پاور جنریشن کی مد میں حکومت سے سبسڈی کے طور پر 10 ارب روپے کی اپیل کی ہے جب کہ حیدرآباد اور دیگر شہروں میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ منی پاکستان ملک گیر بجلی وگیس مافیا کے خلاف اقدامات میں ایک اہم فیکٹر کے طور پر شامل ہوجائے۔ پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ جس سطح پر پہنچ گئی ہے‘ اس کے خاتمے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی۔ جہاں بجلی اور گیس کی چوری روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے‘ وہاں لائن لاسز میں کمی‘ ٹرانسمیشن لائنوں کی مرمت بھی ضروری ہے‘ ایسا کرنے سے بجلی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے وہ علاقے جہاں بجلی کے بل وصول نہیں کیے جاتے‘ یا وہاں سے کسی انتظامی نااہلی سے بل وصول نہیں ہورہے، ان کے حوالے سے بھی سخت پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کچھ شہری بجلی اور گیس کے بل نہ دیں اور کچھ بل ادا کرتے رہیں‘ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ صوبہ خیبر پختونخواکی حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ کو جبری قرار دے رہی ہے‘ وہ بجلی کا مقررہ حصہ نہ ملنے کے معاملے کو عدالت میں لے جانے کی بات بھی کر رہی ہے‘ ادھر پیسکوکے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ صوبے کو وفاق سے بجلی کا پورا حصہ مل رہا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو معاملہ الجھا ہوا لگتا ہے، اس میں تکنیکی سے زیادہ سیاست نظر آرہی ہے ، تاہم معاملہ خواہ کچھ بھی ہو وفاق کو خیبر پختونخوا حکومت کی بات سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان کے موقف کو پوری توجہ سے سنا جانا چاہیے۔ اس صوبے کے اعتراضات کو دور کیا جانا چاہیے‘ خیبر پختونخوا کے عوام کو ہر صورت بجلی ملنی چاہیے۔ کسی بھی صوبے میں یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے صوبے میں جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے یا پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت کم لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ حقیقت جو بھی ہے وہ سب کے سامنے ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی بجلی چوروں کے خلاف وفاقی حکومت کی مہم میں پوری طرح شریک ہو‘ خیبر پختونخواکی حکومت کو ایسے علاقے جہاں بجلی استعمال ہو رہی ہے لیکن بل نہیں دیے جا رہے‘ وزارت پانی و بجلی کے موقف سے ہم آہنگ ہو کر ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی میکنزم تیار کرنا چاہیے تاکہ بجلی کے بل وصول کیے جاسکیں، بصورت دیگر انھیں اس سہولت سے محروم کردیا جانا چاہیے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کے تمام علاقے اور طبقے قومی خزانے میںٹیکس اور یوٹیلٹی بلز جمع کرائیں۔آخری بات یہ کہ یہ سارے اقدامات اپنی جگہ رہے لیکن اصل مسئلہ بجلی کی پیداوار بڑھانا ہے۔ لہٰذا بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر فوری کام کا آغاز کیا جانا چاہیے‘یہ امر خوش آئند ہے کہ نجی شعبے نے بجلی پیدا کرنے کا آغاز کر دیا۔اس سے یقینی طور پر صورت حال بہتر ہو گی۔پنجاب میں نندی پور پروجیکٹ بھی اگلے سال سے کام شروع کر دے گا۔خیبرپختونخوا ‘بلوچستان اور سندھ میں بھی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے نجی شعبے کو آگے آنا چاہیے۔بھارت سے بجلی خریدنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں‘ اس حوالے سے بھی عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ اس حوالے سے زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ، جو کرنا ہے ، اسے بروقت کرنا چاہیے ، محض باتیں کرنے یا چند فیکٹریوں پر چھاپے مارنے سے بجلی کی پیداوار نہیں بڑھ سکتی‘ اس مقصد کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔