خاندانی نظام اور امریکی بچے

شیخ جابر  منگل 16 جولائی 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

فرد خاندان کی اور خاندان معاشرے کی اکائی ہے۔ مضبوط معاشرے وہی ہوتے ہیں جن کے خاندان مضبوط ہوں۔ کوئی معاشرہ اقدار کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اقتدار کے فروغ، ترویج اور استحکام کے لیے خاندان اور خاندان کے لیے افراد ضروری ہیں۔ اب اسے کیا کیجیے کہ ترقی اور آزادی نے فرد کو معاشرے اور خاندان کے جھگڑوں سے آزاد کر دیا ہے۔ اب افراد تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعت کاری نے جہاں روایتی معاشروں اور معاشرتی اقدار کو ختم کیا وہیں معاشرتی رویوں اور احساس ذمے داری کا بھی خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ خاص کر بڑے صنعتی ممالک کا مطالعہ کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر کے رہ گیا ہے۔

ترقی کے نام پر بعض آسائشیں تو جمع کر لی گئیں لیکن انسان تنہا ہوتا چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کس چیز کی ضرورت ہے؟ مجھے ماں باپ، بیوی بچے، بہن بھائی، دوست احباب، ہمسائے، اعزا و اقارب، مولوی صاحب، استاد، کھیل کے میدان، ڈاکٹر، سبزی فروش، نانبائی، درزی، نائی وغیرہ یہ سب چاہیے ہیں۔ ان کا ساتھ، ان کی محبتیں، ان کی عداوتیں، ان کے اور ان سے گلے شکوے۔

ان کی رفاقتیں، ان کے عناد۔ میں ان سب کے ساتھ خوش ہوں یا کسی مصنوعی زندگی میں؟ ایک ایسی زندگی میں کہ جہاں نہ کوئی میرے آس پاس ہے نہ میرے ساتھ ہے۔ میں صرف اپنے لیے کماتا ہوں اور اپنے لیے جیتا ہوں۔ نہ کوئی میرے لیے مرتا ہے نہ ہی میں کسی پر مرتا ہوں۔ میری تمام تر محنت اور مشقت کا زیادہ تر حصہ گھوم پھر کے وہیں انھیں ’’ملٹی نیشنلز‘‘ تک واپس جا پہنچتا ہے کہ جن سے میں نے اپنی تمام تر زندگی کی محنت اور وقت کے عوض چند ٹکے اور چند آسائشات مستعار لی تھیں۔ وہ ہی میرے اصل مالک اور میری تمام تر محبت کا پھل پانے والے ہیں۔

نہ مجھے بچپن میں ماں باپ کا پیار اور مار ملی، نہ ہی میرے بڑھاپے میں میری اولاد میرے پاس یا میرے ساتھ ہو گی۔ میرا ایک بینک اکاؤنٹ ہے اور اس میں چند معقول ہندسے بھی ہیں لیکن میری محبت، الفت اور نفرت کا کوئی اکاؤنٹ ہی نہیں ہے۔ میرے ’’آفس کولیگ‘‘ تو ہیں، لیکن میرے دوست نہیں ہیں۔ دوستی کا جذبہ نہیں ہے۔ دوستی پر جان دینے والے نہیں ہیں۔ میرے مرنے پر میرے بینک اکاؤنٹ سے از خود کچھ ہندسے کم ہو جائیں گے، جیسا کہ زندگی بھر میرے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ دن رات مرکھپ کے شدید دباؤ اور تناؤ کے ماحول میں اکھڑے سانسوں کے ساتھ جیتے ہوئے میں جو چند ہندسے جمع کر پاتا تھا وہ کسی نہ کسی نام نہاد آسائش کی ترغیب کی نذر ہو جاتے رہے یہاں تک کہ بعض آسائشات تو مجھے برتنے اور دیکھنے کی فرصت بھی میسر نہ تھی، میں تو بس ہندسے کم زیادہ کے چکر میں لگا ہوا تھا، میں جب خالی ہاتھ اس دنیا سے اکیلا سدھاروں گا تو چند ہندسے کم ہو جائیں گے یا شاید ختم ہو جائیں گے اور میری تجہیز و تکفین کا میری پسند کے مطابق سامان ہو جائے گا۔ قبر پر تازہ پھول بھی پہنچا دیے جائیں گے۔ فاتحہ کے ریکارڈ بھی بجا دیے جائیں گے لیکن کیا وہاں کوئی ہاتھ اٹھانے والا ہو گا؟ کیا وہاں کوئی آنسو بہانے والا ہو گا؟

یہ کیسی ترقی ہے کہ جس نے انسانوں کو انسانوں سے دور کر دیا ہے۔ ہم کس دور میں آن پہنچے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے لیے ہی وقت نہیں ہے۔ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لیے ہی وقت نہیں ہے۔ اب تو وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ نہ ماں باپ ہی کا کچھ پتہ ہے نہ بیوی بچوں کا۔ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک اور واحد ’’سپرپاور‘‘ امریکا کے بعض اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ آج امریکا میں ہر تین میں سے ایک بچہ ایک ایسے گھر میں رہ رہا ہے جہاں باپ نہیں ہے۔ جی ہاں ہر تین میں سے ایک بچہ بغیر باپ کے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہاں کے اسکولوں میں جو تشدد، منشیات اور جنسیات کی لہر آئی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ یوں ہی اچانک تو نہیں ہو گیا ناں۔

اس کے کچھ تو عوامل ہوں گے ہی۔ ذرا تصور کیجیے بغیر باپ کے زندہ رہنے والا جسے پتہ ہے کہ میرا باپ ہے، اور بعض صورتوں میں تو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فلاں میرا باپ ہے، لیکن اس فلاں کو اپنی اولاد کے لیے وقت نہیں۔ ایسا بچہ کس احساس محرومی اور کن جھنجھلاہٹوں میں اپنا بچپن گزارتا ہے۔ روایتی تہذیبوں میں تو چچا، ماموں، پھوپھا، خالو کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں، وہ بچہ جو باپ کے ہوتے ہوئے بچپن ہی سے تنہا ہو گیا ہو، یتیم ہو گیا ہے اس کی نفسیات کیا بنتی ہو گی؟ جب کوئی بڑا ہی نہیں ہے تو وہ کس سے کیا سیکھے گا؟ کارٹون فلموں، ویڈیوگیمز وغیرہ سے تشدد، منشیات اور فاحشات کی جانب نہیں جائے گا تو کیا دینی شخصیت بنے گا؟ ظاہر ہے کوئی اس سے کیوں ہمدردی کرنے لگا؟ کس بنیاد پر؟ ہر فرد تنہا زندگی بسر کر رہا ہے۔ صرف اپنے لیے جی رہا ہے۔ اب یہ حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ اس کی کفالت کرے۔

امریکا کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بغیر باپ کے اکیلی ماؤں کی زندگی بہت ہی کسمپرسی میں بسر ہو رہی ہے۔ وہ خط غربت سے بھی کہیں نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 42 فی صد تنہا مائیں ’’فوڈ اسٹمپس‘‘ پر زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے۔ امریکا میں ’’فوڈ اسٹمپ‘‘ یا ’’سپلمنٹ نیوٹریشن اسٹمپس پروگرام‘‘ (ایس این اے پی) کیا ہے؟ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے بس یوں جان لیجیے کہ وہ افراد یا خاندان جنھیں کھانے کے لالے پڑ گئے ہوں، مرکزی حکومتی امدادی پروگرام کے ذریعے سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے یہاں سے امدادی غذائیں’’کوہان‘‘ یا ’’اسٹمپس‘‘ کے ذریعے خرید سکتے ہیں۔

اب ایسی زندگی بسر کرنے والی 42 فی صد تنہا ماؤں اور ان کی تنہا اولاد کی کیا نفسیات بنتی ہے یہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ ایک مقامی مطالعے کے مطابق ایک وہ بچی جس کی ایک سے زائد سگی بہنیں ہوں اور ایک وہ بچی جس کی سگی بہنوں کے علاوہ خالہ زاد، ماموں زاد، چچا زاد وغیرہ کئی بہنیں ہوں اور ایک تنہا زندگی گزارنے اور بڑھنے والی بچی کی نفسیات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جذبات، احساسات اور خوشیوں اور نفرتوں کی سطح بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اسی پر قیاس کر لیجیے باپ کے ہوتے ہوئے یتیموں کی سی زندگی کسمپرسی میں بسر کرنے والے بچے کی نفسیات کیا کیا نہ ستم ڈھائے گی اس ستم گر معاشرے پر۔

اسی کے مظاہر ہیں شاید، جو سامنے آ رہے ہیں وہاں کے اسکولوں اور بازاروں اور گلی کوچوں میں۔ اعداد و شمار کے مطابق آج امریکا کے ’’پبلک اسکولوں‘‘ دس لاکھ سے زائد طالب علموں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ کبھی کہیں ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک میں معصوم بچوں کے رہنے کے لیے جگہ نہ ہو۔ کوئی بتائے آخر ایسی ترقی کو کیا کیجیے گا؟ باپ کی شفقت سے بڑھ کر ایک معصوم کا کوئی اور بھی ’’انسانی حق‘‘ ہو سکتا ہے؟ آج انسانی حقوق کا کون سا ادارہ ہے جو امریکا کے معصوم بچوں کو ان کا یہ حق دلا سکتا ہے؟

ہر سال امریکا میں 30 لاکھ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں زیادتی کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی سب سے بڑی تعداد امریکا میں پائی جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں بالغ ہونے والی ہر چار میں سے ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہوتی ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے امریکی بچوں میں سے قریباً 20 فی صد بچے وہ ہوتے ہیں کہ جن کی عمر 8 برس سے بھی کم ہوتی ہے۔

جس معاشرے میں گھر نہ ہوں، بڑے نہ ہوں، ماں باپ نہ ہوں وہاں بچوں کے ساتھ جو بھی رویہ روا رکھا جائے کم ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ لیکن کیا کوئی حکومت حقیقی ماں باپ کا بدل ہو سکتی ہے؟ اگر حکومت کے پاس پیسہ ہے تو وہ بیمار بچے کے لیے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر دے گی لیکن کیا دنیا کی اچھی سے اچھی حکومت ’’ممتا‘‘ کا بدل مہیا کر سکتی ہے؟

’’پیو ریسرچ سینٹر‘‘ کے مطابق امریکا میں تمام بالغوں کا محض 51 فی صد شادی شدہ ہیں۔ 1960میں یہ تعداد 52 فی صد تھی۔ آج 1000 افراد میں سے صرف 6.8 فی صد ہی شادی کے بندھن میں بندھ کر خاندان کی ابتداء کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب اعداد و شمار بہت ہولناک ہیں۔

فرد خاندان کی اور خاندان معاشرے کی اکائی ہے۔ جب خاندان ہی نہ رہیں تو افراد اور تہذیبیں ٹوٹ کر بکھر نے لگتی ہیں۔ خاندان کی شکستگی کا شور معصوم بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کی آہوں اور سسکیوں کو ابھرنے نہیں دیتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔