مشترکہ مفادات کونسل

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 16 جولائی 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیراعظم نواز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کراچی آکر مزار قائد پر حاضری نہیں دی پھر مشترکہ مفادات کونسل کے متحرک ہونے کے بارے میں تنازعہ پیدا ہوگیا۔ بعض قانونی ماہرین نے رائے دی کہ نئی حکومت کے حلف اٹھانے کے فوراً بعد مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو ضروری تھی، حکومت نے یہ وضاحت کی کہ کونسل کی تشکیل 25 جون کو ہوگی مگر کونسل کا اجلاس نہیں ہوسکا۔ اس دفعہ میاں نواز شریف بحیثیت وزیراعظم کونسل کے چیئر پرسن ہیں جب کہ وزرائے اعلیٰ کونسل کے رکن ہیں، تین وفاقی وزرا اس کے رکن ہیں۔ آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم کے بعد اس کونسل کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ آئین میں صوبائی خود مختاری کے باب میں Federal Legislative List کے تحت اہم معاملات پر کونسل کو فیصلہ کرنا چاہیے۔

میاں نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی سیکیورٹی پالیسی تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، قومی توانائی پالیسی کی تیاری کا کام بھی جاری ہے۔ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے، دہشت گردی کا خاتمہ بھی امن و امان سے منسلک ہے۔ ملک کے تین صوبے پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کا دارالحکومت کراچی امن و امان کی بدترین صورتحال کا شکار ہے، ان تینوں صوبوں میں انتہا پسند اور قانون شکن ، مجرمانہ قوتوں کی سرگرمیوں کی بنا پر خطرناک صورتحال درپیش ہے۔ کراچی، بلوچستان اور پختونخوا کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز نے اپنی ریاستیں قائم کرلی ہیں۔ عسکری ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹوں میں اس بات کا اقرار کیا جارہا ہے کہ کراچی کے مضافاتی علاقے طالبان کے عملی قبضے میں ہیں۔ کراچی میں اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں نہیں ہیں مگر ہر قسم کا اسلحہ آسانی سے دستیاب ہے، یہ اسلحہ پختونخوا سے پنجاب ہوتا ہوا کراچی آتا ہے، چمن سے بھی کراچی کو اسلحے کی سپلائی کی جارہی ہے۔

بلوچستان میں فرنٹیئر کانسٹیبلری سیاسی کارکنوں کے اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کے واقعات میں ملوث ہے۔ سپریم کورٹ بلوچستان بدامنی کیس میں اس بارے میں ریمارکس دی چکی ہے۔ مذہبی انتہا پسند ہزارہ برادری کے لوگوں اور بستیوں کو حملوں کا نشانہ بناتے ہیں، اس سال کے شروع میں کوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں کے مواد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بارودی مواد لاہور کی کیمیکل مارکیٹ سے خریدا گیا تھا، خیبر پختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کا براہ راست تعلق قبائلی علاقوں اور سرحد پار افغانستان سے ہے، قبائلی علاقے وفاق کے کنٹرول میں ہیں۔ میاں نواز شریف اور پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کو ضروری سمجھتے ہیں۔پیپلزپارٹی کی حکومت شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بارے میں کوئی فیصلہ کیے بغیر ختم ہوگئی۔ پختونخوا میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے۔

ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کے سلسلے میں فوج کی خفیہ ایجنسی انٹر سروس انٹیلی جنس ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا، اس طرح انھوں نے وزارت داخلہ کے افسروں سے بھی طویل میٹنگ کی۔ یہ انتہا ئی قابل قدر کوشش ہے مگر وزیراعظم ان دفاتر کے دوروں میں صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو ساتھ لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت نے چند سال قبل لاہور اور ملتا ن میں مسلسل دھماکوں کے بعد انتہا پسندوں سے مفاہمت کرلی ہے اور جنھیں جنوبی پنجاب میں اپنی کمین گاہیں قائم کرنے کے مواقعے دیے گئے تھے یوں پنجاب دہشت گردی سے محفوظ ہوگیا تھا۔ گزشتہ ہفتے لاہورکی فوڈ اسٹریٹ میں بہت عرصے بعد دھماکا ہوا، اس لیے وزیراعظم کے ہمراہ باقی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا ہونا ضروری تھا کیونکہ ان صوبوں نے انتہا پسندوں کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کی تھی، اس لیے انھیں عسکری ایجنسی کے لائحہ عمل سے آگاہ ہونا ضروری تھا۔

اگر عسکری ایجنسیاں تعاون کریں تو کم از کم کراچی اور بلوچستان میں حالات خاصے بہتر ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح توانائی پالیسی کی تیاری میں صوبوں کی شمولیت ضروری ہے ۔ 18 ویں ترمیم کے تحت یہ بات طے ہوگئی ہے کہ قدرتی وسائل پر پہلا حق اس صوبہ کا ہے۔ سندھ میں سب سے زیادہ تیل اور گیس پیدا ہوتا ہے، سندھ میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ باقی ملک سے کم ہونا چاہیے، اس اصول کے تحت واپڈا کراچی کو 300 میگا واٹ بجلی فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے حقائق جاننے کے باوجود انتخابی مہم میں یہ نعرہ دیا کہ تمام ملک میں یکساں لوڈ شیڈنگ ہونی چاہیے اور پانی و بجلی کے وزیر میاںآصف نے بھی اس نعرے کو اپنا لیا۔ عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ آئین پر عملدرآمد کی سب سے بڑی اتھارٹی سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں یکساں لوڈ شیڈنگ کی ہدایت کی۔

سندھ میں پھر پانی کی قلت ہے۔ کوٹری میں دریائے سندھ ریت کے ٹیلوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کی پیروی کرتے ہوئے صوبے میں لوڈشیڈنگ پر اعتراض کررہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ بجلی پختونخوا میں تیاری ہوتی ہے مگر صوبہ میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ وزیراعظم چین گئے وہاں انھوں نے توانائی کے مختلف منصوبوں کا جائزہ لیا، ان منصوبوں میں تھرکول پروجیکٹ شامل ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے گزشتہ دور حکومت میں ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک کی نگرانی میں تھرکول پروجیکٹ کے ایک بلاک میں کوئلے کی برآمدگی کا کام شروع کراچکی ہے۔ جب وزیراعظم تھرکول پروجیکٹ پر چینی ماہرین سے بات چیت کررہے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ یا ان کے نامزد کردہ کسی بااختیار وزیر کا ہونا ضروری تھا تاکہ حکومت سندھ کا موقف سامنے آسکے۔

اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ حکومت سندھ تو خود تھرکول پروجیکٹ کو رواں کرنے کے حق میں ہے، سندھ کی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم نے چین کے دور ے میں کراچی میں میٹرو بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا، یہ کراچی کے عوام کے لیے خوش خبری ہے مگر یہ منصوبہ اس وقت پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جب حکومت سندھ کا تعاون حاصل ہو اور اس تعاون کو عملی شکل دینے کے لیے سی سی آئی مناسب ادارہ ہے۔ وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ سیلز ٹیکس صوبائی ٹیکس ہے۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور دوسری چھوٹی جماعتوں کی کمزور آوازوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی مالیاتی بل کو پارلیمنٹ نے منظور کرلیا اور صدر زرداری نے اس مالیاتی بل کی منظوری دے دی۔ یوں صوبے آمدنی کے موثر ذریعے سے محروم ہوگئے۔

وفاقی حکومت سیلابوں اور قدرتی آفات کی روک تھام اور وبائی بیماریوں مثلاً خسرہ اور پولیو وغیرہ کے خاتمے کے لیے سی سی آئی کے ذریعے صوبوں کے کردار کو موثر بنا سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن نے 11 مئی کے انتخابات میں صرف پنجاب میں اکثریت حاصل کی ہے، باقی صوبوں میں اس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم لیگ ماضی میں صوبائی خود مختاری کی سب سے بڑی چیمپیئن رہی ہے، اس بنا پر مسلم لیگی حکومت کی ذمے داری ہے کہ 18 ویں ترمیم پر مکمل طور پر عملدرآمد کرے۔ وزیراعظم نے حلف اٹھانے کے بعد مزار قائد پر حاضری نہ دے کر پروٹوکول کو نظر انداز کیا ہے، انھیں فوری طور پر کراچی آنا چاہیے، مشترکہ مفادات کونسل متحرک ہونا چاہیے، یوں وفاقیت پر عمل کرکے ہی ملک مضبوط ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔