سورما بمقابلہ اسٹیشن ماسٹر

عارف انیس ملک  منگل 16 جولائی 2013
arifanees@gmail.com

[email protected]

یہ 1999کے اواخر کا ایک سچا واقعہ ہے۔

اقوام متحدہ میں سربیا کے خلاف قرارداد پیش ہو چکی تھی اور امریکی اور نیٹو افواج سربیا کی غیر انسانی اور جلاد حکومت کے گرد گھیرا تنگ کر رہی تھیں۔ بھاری بھرکم جنگی ساز و سامان مطلوبہ جگہوں پر پہنچایا جا رہا تھا۔ اسی اثناء میں ایک امریکی کمانڈر کو اپنی رجمنٹ سمیت ایک مشن پر ایک ٹرین میں بھیجا گیا۔ ہدف یہ تھا کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر ٹرین میں موجود جدید ترین راڈار کو بحفاظت کوسوو کی سرحد تک پہنچا کر وہاں پر نصب کر دیا جائے تا کہ وہ سربیا کی فوجی تنصیبات پر بمباری کرنے والے امریکی اور نیٹو طیاروں کی رہنمائی کر سکیں۔ ٹرین رومانیہ کے طول و عرض سے چھکا چھک گزرتی ہوئی باراگان کے میدانی علاقے کے نزدیک ایک گاؤں پہنچی جہاں سے کچھ آگے ہی کوسوو کی سرحد کا آغاز ہونے والا تھا۔ منزل مقصود بس لب بام ہی تھی کہ ڈوٹی آور اس کے آڑے آ گیا۔

کیپالینٹا کے گاؤں کا چیف اسٹیشن ماسٹر ڈوٹی آور امریکی اور رومانوی فوجیوں سے کچھا کھچ بھری ٹرین دیکھ کر کچھ زیادہ متاثر نہ ہوا۔ ویسے تو وہ امریکیوں کا گزشتہ پچاس برس سے انتظار کر رہا تھا۔ جب وہ اپنے ماں باپ سمیت جرمنی میں ایک تہہ خانے میں چھپا ہوا تھا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک ہی کرن اس کے خاندان کو زندہ رکھے ہوئے تھی اور وہ تھی امریکی فوجیوں کی آمد‘ جو ایک روز اسے اور اس کے خاندان کو ان اذیت ناک شب و روز سے رہا کرانے والے تھے۔ تاہم بدقسمتی سے امریکی تو بطور نجات دہندہ نہ پہنچے البتہ روسی فوجیں ضرور نمودار ہو گئیں اور اس کے والدین کو پکڑ کر ساتھ لے گئیں۔ اس کے بعد اسے اپنے ماں باپ سے ملنے کا موقع کبھی نہ مل سکا۔ امریکی سورما جو ڈوٹی آور اور اس کے خاندان کو نازیوں‘ کمیونسٹوں‘ روسیوں اور دیگر شرپسندوں سے نجات دلوانے والے تھے‘ اس وقت تو لیٹ ہو گئے مگر اب تقریباً پچاس سال بعد وہ سورما اس کے سامنے تھے اور وہ اس معمولی سے گاؤں میں کچھ لمحات ضایع کیے بغیر فوری طور پر وہاں سے آگے نکلنا چاہ رہے تھے۔

تیکھے نقوش کا حامل امریکی فوجی کمانڈر اس وقت قدرے سکتے میں رہ گیا جب ملگجے سے بالوں اور قدرے یتیم صورت اسٹیشن ماسٹر ڈوٹی آرو نے کچھ زیادہ متاثر ہوئے بغیر اس کے ہاتھ سے راہداری کے کاغذات پکڑے اور پھر الٹتے پلٹتے ہوئے ایک جگہ پر انگلی رکھ کر کھردرے لہجے میں کہا ’’یہ ٹرین یہاں سے آگے نہیں جا سکتی کیونکہ اس کے کسٹم کے کاغذات میں سقم ہے اور جب تک یہ سقم دور نہیں کیا جاتا‘ میں تمہیں یہاں سے روانگی کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘۔

کچھ دیر ڈوٹی آرو کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے بڑی رعونت سے اس چھوٹے سے اسٹیشن ماسٹر کو اقوام متحدہ‘ نیٹو اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے حوالے دیے اور اسے بتایا کہ وہ کتنے بڑے کام میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ تاہم جب ڈوٹی آرو آنکھیں ملتے ہوئے اور جمائیاں لیتے ہوئے اسے بھول کر اپنے کام کاج میں مشغول ہو گیا تو کمانڈر کو یقین ہو گیا کہ ’’لوکل دھونس‘‘ سے کام نہیں چلے گا۔ اس پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اس نے اپنے اعلیٰ کمانڈروں کو فون کرنے شروع کر دیے۔

دوسری طرف ڈوٹی آرو بغیر کسی تاثر کے اپنے کام میں مشغول تھا۔ رومانیہ کے دیگر سرکاری اہلکاروں کی طرح وہ بھی حسب توفیق بخشیش اور ’’اوپر کی آمدنی‘‘ میں ایمان رکھتا تھا۔ ریلوے کے کچھ نچلے درجے کے اہلکار اس سے ملے ہوئے تھے اور ٹرینوں سے قیمتی اشیاء کی چوری کے وقت بھی وہ ایک آنکھ بند کر لیتا تھا۔ تاہم امریکی فوجیوں کی رعونت اور اکڑ دیکھ کر نہ جانے اس کا رومانوی خون کیوں جوش میں آ گیا تھا اور اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کسی کے رعب اور دھونس میں آئے بغیر رومانوی حکومت کی رٹ نافذ کر کے رہے گا۔

دوسری طرف امریکی فوجی کمانڈر کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ سب سے پہلے تو وہ رومانوی حکومت پر آگ بگولہ تھا جس نے پہلے پہلے ایک ناکارہ ٹرین اس کے سپرد کر دی تھی وہ حیران تھا کہ رومانوی حکام اسے اور اس کے فوجیوں کو دعوتیں دینے میں زیادہ مشتاق تھے جب کہ کوئی بھی کار آمد ٹرین ڈھونڈنے میں مدد نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ بالآخر اس کے پر زور احتجاج پر ایک قدرے چلتی پھرتی ٹرین تو اس کے حوالے کر دی گئی مگر صورتحال کی نزاکت کے باعث اور حملہ کرنے میں ایمر جنسی کی وجہ سے ترکی کے راستے سے پہنچنے والے راڈار کے کسٹم کے کاغذات تیار نہ ہو پائے تھے۔ تاہم حکومت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر اسے ’’فری پیسیج‘‘ دے دیا گیا تھا تا کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے سرحد تک پہنچ سکے تاہم ایک معمولی اسٹیشن ماسٹر ڈوٹی آرو اب اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا تھا۔ دوسری طرف وہ یہ بھی دیکھ کر حیران تھا کہ رومانیہ کے رہنے والے اس سے اور دوسرے امریکی فوجیوں سے یا تو انتہائی محبت کا سلوک کرتے اور ان کے راستے میں پلکیں بچھاتے تھے یا پھر وہ ان سے شدید نفرت کرتے تھے اور انھیں دیکھ کر ان کا منہ بن جایا کرتا تھا۔

جب ڈوٹی آرو نے راہداری کا پروانہ دینے سے سیدھا انکار کر دیا تو اس نے ٹرین کو دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑا کروا دیا۔ اسی کشمکش میں ایک دن گزرا اور پھر دوسرا بھی گزر گیا۔ قصبے کے میئر کو خیال آیا کہ امریکیوں کی موجودگی کے غیر معمولی واقعے سے فائدہ اٹھایا جائے چنانچہ اس نے ایک بہت بڑی دعوت کی ٹھان لی اور ایک میلے کی صورت میں تقریب کا اہتمام کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ امریکیوں کی وہاں موجودگی اس کے لیے غیر معمولی سیاسی فوائد کا باعث بن سکتی ہے۔ ویران اسٹیشن پر کھڑے تھک جانے والے امریکی سپاہی میئر کی دعوت کو ٹھکرا نہ سکے اور یوں جنگل میں منگل کا سماں ہو گیا۔ میئر کی دعوت میں قصبے کی ہر نوجوان لڑکی آنکھوں میں ستارے لیے شریک ہوئی کیونکہ ان کے خیال میں کسی بھی امریکی پرنس چارمنگ سے شادی کر کے وہ رومانیہ کی زندگی سے نجات حاصل کر سکتی تھیں۔

امریکی کمانڈر جونز ایک مرتبہ پھر اپنی تمام تر ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے۔ ڈوٹی آرو سے مکالمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکی فوجیوں کی ٹرین کو وہاں رکے ہوئے چار دن ہو چکے تھے ا ور ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ امریکی جنرلوں کی منت سماجت کرنے پر رومانیہ کے وزیر اعظم نے خود ڈوٹی آرو کو فون بجایا۔ مگر اسٹیشن ماسٹر کا جواب وہی تھا کہ کسٹم کے کاغذات کے بغیر ٹرین اس کے اسٹیشن سے نہیں گزر سکتی۔ اس نے واضح انداز میں امریکی کمانڈر کو بتا دیا کہ اگر امریکی صدر بل کلنٹن بھی واشنگٹن سے رومانیہ پرواز کر کے اس سے یہ مطالبہ منوانے آ جائے تو وہ کسٹم کے ان کاغذات کے بغیر ٹرین کو وہاں سے روانگی کے لیے کلیئرنس جاری نہیں کر سکتا‘ کمانڈر کے بے تحاشا اصرار پر اس نے اسے گھورتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔ یہ تم امریکی جہاں بھی جاتے ہو وہاں آگ لگا جاتے ہو۔ جہاں سے گزرتے ہو وہاں خون کی بارش ہوتی ہے‘ اپنے مفادات کے لیے ہر ضابطہ توڑ کر اپنے ہاتھ صاف کرکے نکل جاتے ہو اور پھر آسمان پر پھلجھڑیاں چھوڑ کر جشن مناتے ہو‘‘۔

ڈوٹی آرو کی کہانی کو ایک رومانی ہدایت کار نے مسکو نے ’’کیلیفورنیا ڈریم‘‘ کے نام سے ایک غیر معمولی فلم کے روپ میں ڈھالا۔ فلم کے اختتام پر ڈوٹی آرو ایک بلوے میں اپنے ڈپٹی کے ہاتھوں ہارا جاتا ہے اور بالاخر پانچ دن کے قیام کے بعد جب امریکی کمانڈر اور اپنے فوجیوں اور راڈار سمیت کوسووو کی سرحد پر پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ کوسووو اور سربیا کے درمیان جنگ بندی ہوئے دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے بار بار ڈوٹی آرو کی یاد آئی جو ایک کرپٹ اور معمولی درجے کا اسٹیشن ماسٹر تھا اور امریکی فوجی طاقت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوا۔ شاید نوکری پیشہ قوموں میں سورما تو کجا ایسے معمولی سے اسٹیشن ماسٹر بھی پیدا نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔