توانائی کا بحران

سید اسد اللہ  منگل 16 جولائی 2013

یہ جان لیوا مسئلہ ایسا ہے کہ اس نے نہ صرف حکمرانوں کی کمر توڑ رکھی ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی زمین بوس بھی کر دیا۔ پچھلے 5 سالہ دور حکومت میں یہ بحران حل نہ ہو سکا بلکہ بربادی کا سامان کر گیا۔ اب نئے حکمراں آ گئے ہیں۔ انھوں نے تو آتے ہی آس توڑ دی یہ کہہ کر کہ موجودہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا حالیہ بیان سامنے آیا۔ انھوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو کر مسائل کا سارا ملبہ ہمارے کاندھوں پر ڈال دیا ہے، اب ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ چشم زدن میں تمام مسائل حل ہو جائیں، ان کے لیے وقت درکار ہو گا۔

پچھلی حکومت بھی یہی رونا رو رہی تھی کہ پچھلی حکومت سارے مسائل ہمارے گلے ڈال گئی ہے، ہمیں تمام مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے، کیا آپ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ ایک باپ جو اپنے خاندان کا سربراہ ہوتا ہے اور جب وہ اس جہاں سے کوچ کر جاتا ہے تو تمام مسائل وہ اپنے وارثوں کے ذمے نہیں کر جاتا۔ کیا اس کا خاندان یا اس کے وارث کبھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابا مرحوم اتنے مسائل چھوڑ کر گئے ہیں کہ شاید ہم ان کو حل نہ کر سکیں گے بلکہ یہ تمام مسائل ہماری اولاد کو منتقل ہو جائیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔

وہ باہمت طریقے سے مایوس ہوئے بغیر تمام مسائل کو قبول کرتے ہیں، ان مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور ان کو یکے بعد دیگرے حل کرتے چلے جاتے ہیں۔ نیک اور صالح اولاد اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتی ہے۔ کیا قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک بھی ختم ہو گیا؟ بے شک سارے ملک کا نظام درہم برہم ہو گیا لیکن کیا ان کے وارث (نائبین) نے ہمت ہار دی اور کبھی یہ کہا کہ یہ تو قائداعظم کی ہمت و استقامت تھی کہ انھوں نے ہمیں ایک آزاد ملک بنا کر دیا، اب ہم تو اس مملکت کو چلا نہیں سکتے یا ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتے۔ نہیں ایسا نہیں ہوا۔

انھوں نے اپنے حوصلے بلند رکھے، اپنا عزم پکا رکھا، امیدوں کو جگائے رکھا، انھوں نے قائد اعظم کے پرچم کو تھامے رکھا، انھوں نے اپنی ذمے داریوں کو سنبھالا دیا۔ انھوں نے قائداعظم کی تعلیمات، ان کے اصول و قانون اور پیمانہ حکمت عملی کو نہ چھوڑا، ان ہی کی رہنمائی میں مملکت کے کاروبار کو جاری رکھا۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے ایمانداری اور جذبے سے کام نہیں لیا اور بے راہ روی پر چل پڑے۔ یہ تو ان کی نااہلی یا کم عقلی و نااہلیت تھی۔بانیان پاکستان کی رحلت اور شہادت کے بعد مملکت کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں گئی ان کے منافقانہ انداز حکومت نے ملک کے حالات کو ایسے نازک دوراہے پر لا کھڑا کیا کہ فوج کو بار بار مداخلت کرنا پڑی اور ملک میں فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔ فوج پر بے جا تنقید کرنے سے آپ بری الذمہ نہیں ہوتے۔

فوج کے اندر ڈسپلن ہوتا ہے، کوئی فوجی ڈویژن یا کور یا بٹالین اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرتے حتیٰ کہ کمانڈر انچیف بھی کوئی فیصلہ اکیلا نہیں کرتا۔ تمام فوجی کمانڈرز اور اہلکار مل کر متفقہ فیصلے کرتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ فوجی اور سویلین ایک جیسے نہیں۔ ایک فوجی تیار کرنے کے لیے برسوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ 20-15 سال کے عرصے میں آفیسرز یا کمانڈرز پیدا ہوتے ہیں۔ بعض تو اس دشت کی سیاحی میں ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں یا زندگی ہار جاتے ہیں۔ سویلین حکومتوں میں تو جب چاہے اپنی مرضی کے افسر بنا لو، ڈائریکٹر بنا لو، چیئرمین بنا لو، مطلب یہ کہ اپنے گھر کی کھیتی ہے جو چاہو اگا لو، جو چاہو اکھاڑ دو۔ اگر سویلین حکومتیں صحیح خطوط پر ایمانداری، عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ کاروبار حکومت چلائیں تو وہ نہ صرف 5 سال مسند اقتدار پر رہ سکتے ہیں بلکہ عوام انھیں آیندہ 5 سال کے لیے بھی منتخب کر سکتے ہیں۔

مگر بات ہے سمجھنے کی۔ خالی ہوائی فائر کرنے سے اور عوام کو بے وقوف بنانے سے کام نہیں چلتا۔عنان حکومت سنبھالنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، پچھلی حکومت کی خرابیاں اور ہتھکنڈے گنوائے جاتے ہیں اور جب مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ہمیں تو مسائل ورثے میں ملے ہیں‘‘۔ نئے وزیر اعظم توانائی کے بحران کے حل کے لیے اس قدر کوشاں ہیں کہ اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ہی چین کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وہاں بڑے بڑے عہدیداروں، کاروباری شخصیات سے ملنے کے علاوہ چین کے صدر اور وزیر اعظم سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وزیر اعظم نے تو کہہ دیا کہ میرا دورہ بہت کامیاب رہا۔ انشاء اﷲ ہم چین کی اس مسئلے کو حل کرنے کی پیشکش کو دل سے قبول کرتے ہیں اور چینی ماہرین اس سلسلے میں جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔

مگر جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ’’سیکیورٹی‘‘ کا ہے۔ ہمارے ہاں تو حالت یہ ہے کہ دہشت گرد اپنوں کی جانیں تو لے ہی رہے ہیں غیر ملکیوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں۔ ابھی ابھی تازہ واقعہ دیامر کے پہاڑی علاقے میں سیاحوں پر حملہ کر کے 11 سیاحوں کو قتل کر دیا گیا۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی دشوار گزار پہاڑی ہے کہ اس کو صرف اور صرف ماہر کوہ پیما ہی سر کر سکتے ہیں، عام آدمی تو بغیر کسی گائیڈ کے وہاں جا بھی نہیں سکتا، پہاڑی پر پہنچنا آسان نہیں ہے۔ ابھی تو یہ معمہ حل ہونا ہے کہ حملہ آور وہاں کیسے پہنچ گئے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کسی ’’نامعلوم گائیڈ‘‘ کی مدعیت میں ہی وہ وہاں گئے ہوں گے، ورنہ اس حادثے کا رونما ہونا ممکن نہ تھا۔ وزیر اعظم نے چینیوں کو اس بات کی یقین دہانی کرا دی ہے کہ ان کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور چینی ماہرین دونوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور ’’توانائی بحران‘‘ کا مسئلہ حل ہو اور قوم کو جس تشویشناک صورت حال کا سامنا ہے اس سے چھٹکارہ ملے، اور ملک کے کونے کونے میں قمقمے روشن ہوں، صرف کراچی ہی نہیں تمام بڑے شہر، روشنیوں کے شہر بن جائیں۔ اس طرح وزیر اعظم کا دور حکومت بھی روشن ہو جائے گا، بشرطیکہ تمام کام پوری توجہ، خلوص نیت، ملی جذبے اور عوام کی خوشحالی کے لیے کیے جائیں۔

صرف اپنی شہرت اور نیک نامی کے لیے نہیں بلکہ قوم کی حالت بدلنے کی نیت سے۔ توانائی کے بحران نے ہمارے عوام اور ہماری معیشت کو ناتواں کر دیا، بلکہ اتنے کچوکے دیے کہ دونوں لہولہان ہیں۔ خدا کرے ہمارے وزیر اعظم بجلی لانے میں کامیاب ہو جائیں، ان کا نام روشن ہو جائے اور ساتھ ہی ساتھ ہر گلی، ہر محلہ، ہر گاؤں، ہر شہر بھی روشن ہو جائیں گے۔ بچوں کے مستقبل بھی روشن ہو جائیں گے کہ آیندہ سال وہ بجلی کی روشنی میں امتحانات دیں گے، اس سال تو توانائی کے بحران نے تو ان بے چاروں کا حال بھی مخدوش کر دیا تھا۔ رمضان المبارک کا مہینہ بھی آ چکا ہے۔ شاید رمضان المبارک کے نیک قدموں کے طفیل ہم کو اس توانائی بحران سے نجات مل جائے لیکن ابھی حکومت بھی یہی کہہ رہی ہے اور بجلی والے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ سحر اور افطار کے وقت اور تراویح کے دوران لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی (حالیہ مستقل جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔