اشک بہاتا چلاگیا

نادر شاہ عادل  جمعرات 17 جنوری 2019

شوبزکی وفا ناشناس دنیا کے بارے میں اکثرکہا جاتا ہے کہ یہ نمائش سراب کی سی ہے جوکاغذی پھول جیسے چہروں کا عجیب دلفریب جمعہ بازار ہے۔ مگرکھیل، ادب اور ثقافت کے شب وروز بھی اہل ہنرکی زندگیوں کے طربیہ اوردرد انگیز منظر نامے پیش کرتے آئے ہیں ۔ شہر قائدکو جب بندہ نواز شہرکہا گیا تو اس وقت اس کا زمینی دامن بھی وسیع وکشادہ تھا اور اسی تناسب سے اس کے عالی ظرف  ہونے کے شواہد بھی مختلف النوع تھے،ایک سے بڑھ کر ایک باکمال فنکار، ادیب وشاعر، کھلاڑی، لوک سنگرزکراچی آئے اور جو نہیں آسکے ان کی مدھ بھری آوازیں لوگوں نے سنیں، عظیم سازندوں نے اہل شہرکو روح کی غذائیں پہنچائیں،گرامو فون ریکارڈز، البمز اور محفل موسیقی میں گائے ہوئے گیت اورکافیاں ریڈیو سے سنائی دیتی تھیں۔

ان دنوں ریڈیو پاکستان ، پاکستانی ثقافت کا اکیلا نگہبان تھا، زیڈ اے بخاری، رشیدگیلانی اور عبدالکریم بلوچ جیسے ماسٹر مائنڈزکی جوہرشناس نظریں ڈھونڈتی تھیں کہ کون سا فنکارکہاں چھپا ہوا ہے، اسی طرح دختر صحرا ریشماں، مائی بھاگی ملیں، ایک بے تابی رہتی کہ کیوں نہ ایسے فنکاروں کو ریڈیو پاکستان کی دہلیز تک لا کر پاکستان کے باذوق سامعین سے متعارف نہ کرایا جائے۔ یہ وقت پرنٹ میڈیا کے ارتقائی دورکا تھا، الیکٹرانک میڈیا کی گلو تراش چکا چوند نہ تھی، گلیمر نام کا کوئی زہر پینے کو آسانی  سے ملتا نہ تھا ، جو فنکار، اہل تخلیق اور ہنرکار تھے وہ اپنی صلاحیتوں کا حوالہ رکھتے  تھے، ان کے فن کی تھی خون جگر سے نمود۔ اپنے پیشے سے وابستگی ان کے ڈی این اے  سے جڑی ہوئی تھی، وہ متاع ہنر سستے داموں بیچتے نہیں تھے۔

ان کا  اوڑھنا بچھونا، ان کا فن ، ان کی ادبی تحقیق ، ان کا منفرد کھیل، روح میں اترنے والی رس بھری آواز اور ان کی موسیقی کے آلات تھے اور جو فوک سنگر یا ووکلسٹ تھے، ان کا قبیلہ ہی لاکھوںمیں ایک تھا۔ پٹھانے خان، مصری خان جمالی، خمیسو خان، سچو خان، الن فقیر، سلیمان شاہ ، محمد جمن، ابراہیم ، سینگھارعلی سلیم ، استاد منظور علی خان ، اعجاز حسین حضروی سمیت بے شمار فنکار اپنی انفرادیت منوا چکے، یہ باتیں پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں سے شروع ہوتی ہیں جب آتش جواں تھا۔

میں نے جن خوبصورت فنکاروں کوعالم شباب میں دیکھا، جن کے فن وکھیل سے محظوظ ہوا، جن سے ملا، جوکھلاڑی میدان میں شان سے اترے اور پھر غم روزگار میں الجھے،جوکلاکار و موسیقار شہرت کے بام عروج پر تھے، ان پر سماج کتنا مہربان تھا اور پھر بے قدری نے انھیں کس بیدردی سے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ، میں ان کا جستہ جستہ ذکر کروں گا۔ آج یہ لوگ ہم میں موجود نہیں مگر کبھی ان کا طوطی بولتا تھا، اور سٹیڈیمز میں شائقین کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ یہ کراچی کا سدا بہار و دلگداز منظر نامہ ہے۔

ریڈیوآن کیا تو ایک گلوکارکوئی کافی سنا رہا تھا۔ ’’سانول موڑ مہاراں‘‘ دروازۂ خاورکھلا نامی پروگرام تھا، محمد فائق اس کے نگراں تھے، طرز ادائیگی سے کوئی استاد گائیک لگ رہے تھے ،کیا کمال کی گلے بازی، سریلا پن اورکھرج میں دل کو چیرتی ہوئی پر سوز آواز تھی،کافی نے سماں باندھ دیا، مجھے بعد میں چچا صادق نے بتایا کہ یہ ملتان کے حسین بخش ڈاڈی تھے۔ دو ایسے ہی بے مثال اور منفرد ڈاڈے(شیدی) بلاول بیلجیم اور ادرو ڈاڈا کے نام سے لیاری میں مشہور ہوئے۔ بلاول بیلجیم ایشیا کے ممتاز بینجو نواز تھے،اپنا سر منڈل خود ایجاد کیا۔

ان جیسا دوسرا بینجو نواز پھر پیدا نہ ہوا ، بلاول نے میراں ناکہ میں اپنی رہائش گاہ پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ جناب زیڈ اے بخاری نے بینجوکی آواز پر پابندی لگادی تھی مگر مجھے ریڈیو لے جایا گیا،کنٹین میں بیٹھا تھا کہ کچھ سازندوں،ایک طبلہ نواز اورگائیک نے کہا کہ واجہ کیا لے کر آئے ہو، بخاری صاحب سب اٹھا کر باہر پھینک دیں گے، مگر رشید گیلانی مطمئن تھے۔ خیر بخاری صاحب آئے تو بینجو کو دیکھ کر سخت ناراض ہوئے، مگر جب ان سے کہا گیا کہ ’’سر ، ذرا سن تو لیں‘‘ ان دنوں مینڈولین پر انڈین گانوں کی دھنیں عام تھیں، سب نے ہی سوچا بلاول یہی کچھ کریں گے لیکن جب اس سیاہ فام بلاول بیلجیم نے راگ چھیڑا اور استاد اللہ دتہ نے میز پر بیٹھے بیٹھے طبلے جیسی سنگت کی تو حاضرین دنگ رہ گئے، بخاری صاحب بلاول کے ہوکے رہ گئے۔لحیم وشحیم بخاری صاحب نے ایک منحنی اور ضعیف ونزار بلاول بینجو نواز سے دوستی کرلی۔ یہ وہ آرٹسٹ تھا جس کے بینجو کی دھن سے ریڈیو نے اپنی کمرشل سروس کا آغاز کیا تھا۔صورتحال وہی ہوئی کہ

وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ تقریباً دس سال بعد لیاری میں شادی کی ایک تقریب ہوئی توبلاول اپنی میوزک پارٹی کے ساتھ موجود تھے، اس تقریب کی دلچسپ اور تعجب خیز بات طبلے پر سنگت کرنے والے کی شکل و صورت تھی، وہ99 فیصد بلاول کا ہمشکل تھا، یہ استاد ادریس خان عرف ادرو ڈاڈا تھے۔ باکمال طبلہ نواز اور کلاسیکی موسیقی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے، استاد شوکت علی خان کی شاگردی کی۔فریدہ خانم کے ساتھ سنگت کی، وہ سندھ کے مزارات پر عرس کے دوران کافی سناتے تھے،کئی مہینوں کے بعد لیاری میں آئے تو بدحال تھے، پیر میں ٹوٹی ہوئی چپلیں، منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت والا قصہ تھا، لیکن شائقین جانتے تھے کہ استاد آئے ہیں۔ یقین جانئے اسی خستہ تنی میں اس نے مہدی حسن کا  نغمہ سنایا ہمیں کوئی غم نہیں تھا، اور محفل لوٹ لی۔

’’میرا پیار جل رہا ہے، اے آسمان چھپ جا‘‘ کو اس نے اتنی درد انگیز گلے بازی کے ساتھ سنایا کہ لوگوں کے جیبوں سے نوٹوں کی جھڑی لگ گئی۔ پھر وہ غائب ہوگیا، بلوچی زبان کا مشہورو معروف گلوکار محمد جاڑک سب سے بڑا سنگر تھا ، مگر قسمت روٹھی تو گلی گلی گرم ساگودانہ بیچ کر بیوی بچوں کا پیٹ پالتا رہا۔ سائیں سلیمان شاہ اندرون سندھ سے لیاری آئے پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے ، ان کی موت بھی گمنامی میں ہوئی ۔فیض محمد بلوچ ملک کے بلند قامت لوک سنگر تھے۔

ماہ رنگیں پری لیلی تئی چم کجلاں کو رقص کرتے سناتے تو ہر شخص پر وجد طاری ہوتا، عمر کے آخری ایام میں شدید معاشی مصائب میں مبتلا رہے، کھارادر کے اللہ دینا اسپتال میں زیر علاج تھے کہ مجھے ان سے گفتگو کا موقع ملا،اس مرد قلندر نے روتے ہوئے فریاد کی کہ میرے میڈلز،گروپ فوٹوز اور اسناد کو بیچ دیں مجھے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی چاہیے۔اس کے بستر کے قریب ایک طرف اس کے تمغے ، میڈلزسجے ہوئے تھے، اس کا بیٹا تاج محمد تاجل اس کے سرہانے اداس کھڑا تھا۔ سید ظہور شاہ ہاشمی گوادر سے کراچی میں سکونت اختیار کی، بلوچی زبان کے شاعربے بدل، اولین ماہر لسانیات، ناول نگار۔ ان کی تیار کردہ ضخیم بلوچی لغت ’’سید گنج‘‘ ان کی عظیم لسانی تحقیق کا شہ کار ہے۔ وہ ناقدری زمانہ کا شکار ہوکر میوہ شاہ قبرستان میں ابدی نیند سو گئے۔اسی طرح احمد جگر، حضرت شاہ اپنی عوامی شاعری اور غربت کو لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔

آیئے ، فٹ بالر اور قومی ٹیم کے کپتان تراب علی کی طرف چلتے ہیں ، اپنے وقت کا دراز قد سینٹر ہاف کوہ گراں، جب ریٹائر ہوا تو بے بی ٹیکسی چلانے پر مجبور ہوا ۔ غفور مجنا ناقدری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سخت جان باکسر خان محمد اپنا بلیزر فروخت کرنے کے لیے بولٹن مارکیٹ چلا گیا۔ ایک اور اولمپئین باکسر عبدالعزیز بلوچ جونا مارکیٹ میں فٹ پاتھ پر چابیاں بناتا تھا ، بی بی سی کی طرف سے شفیع نقی جامعی کی ہدایت پر رشید شکور نے اس کا انٹرویو لیا تو وہ اشکبار ہوگیا۔ اولمپئن باکسر حسین شاہ کو اس کے ساتھی باکسرکریم بخش نے ٹوٹنے سے بچایا اگر اسکواش کے بے تاج بادشاہ جہانگیر خان ان کی مدد کو نہ آتے تو حسین شاہ کا انجام بھی مختلف نہ ہوتا۔

آج بھی ماضی کا مایہ ناز باکسر اورکوچ نذر محمد شایدکسی امداد کا منتظر ہو، میں نے اسے کافی عرصے سے نہیں دیکھا ، اگر زندہ ہو تو اسے سونے کے ترازو میں تولا جائے،کیونکہ میں نے ایسا شریف النفس، خود دار اور عاجز بندہ باکسنگ کے رنگ کے اندر اور باہر نہیں دیکھا۔ یہ ٹپ آف این آئس برگ ہے۔

دوستو،کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں

ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتاؤں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔