حکومت اپنے لیے این آر او مانگ رہی ہے؟

مزمل سہروردی  جمعرات 17 جنوری 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ احتساب نہیں روکا جا سکتا۔ اپوزیشن این آر او کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان دباؤ میں کیوں آرہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیںعمران خان خود ہی ملک میں این آر او کے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں۔ اور کل کہہ دیں گے کہ این آر او کے لیے دباؤ ہی اتنا تھا، کہ اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔

تاہم دوست کی رائے میں ملک میں احتساب رک چکا ہے۔ احتساب کرنے والے اپوزیشن کا احتساب تقریبا مکمل کر چکے ہیں۔نواز شریف جیل میں ہیں۔ زرداری نیب میں جا چکے ہیں۔ اور ایک کمزورحکومت کا احتساب کرنے سے انھیں روک دیا گیا۔یہ حکومت ایک حکومتی رکن کا احتساب برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ اس لیے احتساب کو روک دیا گیاہے۔ اب اس کا ملبہ اپوزیشن پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کوئی سوال کر سکتا ہے کہ حکومت نے آج تک ملک میں احتساب کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کیا کیا ہے۔ کسی کے خلاف ایک کیس بھی بنایا ہے۔ کرپشن کا ایک اسکینڈل بھی سامنے لائے ہیں۔ کسی محکمہ سے کرپشن کی ایک کہانی بھی سامنے لائے ہیں۔ سی پیک کے سارے منصوبے ٹھیک قرار دے دیے ہیں۔

ایل این جی ڈیل ٹھیک قرار دے دی گئی ہے۔بہت شور تھا کہ لاہور کی میٹرو پر ستر ارب لگے ہیں۔ بیچارہ شہباز شریف چیخ چیخ کر یقین دلواتا رہا کہ نہیں بھائی تیس ارب لگے ہیں۔ اب خود ہی تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے ایک سوال کے جواب میں پنجاب اسمبلی کو بتایا ہے کہ لاہور میٹرو پر تیس ارب ہی خرچ ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا کریں۔ اورنج لائن پر بھی تحریک انصاف کا کیس ختم ہو گیا ہے۔ اب خود ہی اس کو اچھا منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ شہبا ز شریف کے غیر ملکی دوروں کا بھی حساب سامنے آگیا ہے۔ کہ بیچارے نے چالیس غیر ملکی دورے کیے لیکن سارے اپنی جیب سے۔ حکومتی خزانہ سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کی۔ لیکن پھر بھی وہ جیل میں ہیں۔

پی پی پی کے جعلی اکاؤنٹس کے کیس پر تو بہت شور ہے۔ مراد علی شاہ کے استعفیٰ کے مطالبہ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا کوئی حکومت سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر بھی تو منی لانڈرنگ کے الزام ہیں۔ ایم کیو ایم کی وفاقی قیادت بھی تو منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ منی لانڈ رنگ کی  جے آئی ٹی رپورٹس آپ کی اتحادی ایم کیو ایم کے خلاف بھی تو موجود ہیں۔ لیکن وہاں آپ اپنے اتحادیوں سے استعفیٰ نہیں مانگ رہے ہیں۔ آپ کے وفاقی وزیر منی لانڈرنگ میں مطلوب ہیں۔ آپ کی اتحادی جماعت کا دفتر منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ لیکن وہاں لب خاموش ہیں۔ بلکہ انھیں محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ آپ کو علم ہے کہ ایم کیو ایم نکل گئی تو کھیل ہی ختم۔ پہلے مینگل چلے گئے ہیں۔ اب ایم کیو ایم بھی چلی گئی تو کیا ہوگا۔ اس لیے پی پی پی کے جعلی اکاؤنٹس پر تو سیاست کی جا رہی ہے لیکن ایم کیو ایم پر مجرمانہ خاموشی رکھی جا رہی ہے۔

شہباز شریف کے احتساب پر تو بہت شور ہے لیکن اعظم سواتی پر خاموشی ہے۔ ان کا تو استعفیٰ بھی بادل نخواستہ ایک ماہ بعد منظور کیا گیا ہے۔ اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ احتساب رک چکا ہے۔

پرویز خٹک کا احتساب رک چکا ہے۔وزیر اعلیٰ کے پی کا احتساب رک چکا ہے۔ کے پی کے احتساب کمیشن کو بند کرنے کا احتساب رک چکا ہے۔ پشاور میٹرو کی لاگت میں کئی گنا اضافے کا احتساب رک چکا ہے۔ بلین ٹری کا احتساب رک چکا ہے۔وزیر اعظم کا اپنا احتساب رک چکا ہے۔ ایک وزیر برملا کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا احتساب ملک و قوم کی توہین ہے۔ آج کسی حکومتی عہدیدار پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بن رہا۔ اس لیے احتساب رک چکا ہے۔

این آر او کسی اپوزیشن کو نہیں بلکہ حکومت کو چاہیے۔ اگر ملک میں بے لاگ احتساب شروع ہو گیا تو حکومت اور حکمرانوں کی باری آجائے گی۔ اس لیے حکومت اپوزیشن پر ملبہ ڈال کر این آر او کرنا چاہتی ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ سنانا بہو کو اور کہنا بیٹی کو۔ حکومت بھی اپوزیشن کا نام لے لے کر اپنے لیے این آر او مانگ رہی ہے۔ حکومت دراصل اداروں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ احتسا ب کا کھیل روک دیا جائے تا کہ وہ آرام سے حکومت کر سکیں۔ حکومت کو پتہ ہے کہ اس احتساب کے کھیل کے نتیجے میں اس نے حکومت حاصل کر لی ہے۔ اب اس کھیل کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ احتساب کے اسکرپٹ نے مکمل ثمرات دے دیے ہیں۔ اب آگے نقصان کا خدشہ ہے۔ اس لیے اس کا بستر گول کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ مینگل جا چکے ہیں۔ ق لیگ کا موڈ بگڑ رہا ہے۔ ق لیگ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔ حکومت ہچکولے کھا رہی ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کو اندازہ ہو رہا ہے کہ کارکردگی بھی اچھی نہیں ہے۔ عوام بھی خلاف ہو رہے ہیں۔ کیا کریں۔ایسے میں یہ خبریں کہ احتساب میں اب حکومت کی باری ہے۔ بیلنس فارمولہ کے تحت اب نیب زدہ حکومتی وزراکی باری ہے لوگ نام لینے لگ گئے ہیں کہ پہلے کونسا وزیر پکڑا جائے گا۔ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ یہ حکومت ایک بھی وزیر کی گرفتاری کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے احتساب روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں صرف این آر او ہی حکومت کو بچا سکتا ہے۔

مجھے حکومت کی اس منطق کی سمجھ نہیں آتی کہ اسے اپوزیشن کے اکٹھے ہونے پر اتنی پریشانی کیوں ہے۔ کیا تحریک انصاف نے مختلف جماعتوںکے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائی ہوئی۔ کیا ایک اقتدار کے لیے کل تک وہ جن کو چور چور کہتے تھے انھوں نے ان سب کو اپنی کابینہ میں شامل نہیں کر لیا ہوا۔ کیا انھوں نے ایک اقتدار کے لیے ایم کیو ایم سمیت اپنے ہر دشمن کو گلے نہیں لگایا۔ایسے میں انھیں اپوزیشن کے اکٹھے ہونے کی بہت پریشانی ہے۔ جمہوریت میں مختلف الخیال اپوزیشن کے اکٹھے ہونے کی تو روایت موجود ہے۔ لیکن اقتدار کی ہوس میں مختلف الخیال جماعتوں کے مل کر حکومت بنانے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ صرف اقتدار کے لیے وزارتوں کی بندر بانٹ جمہوریت نہیں ہے۔ یہ کرپشن ہے۔ اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں الٹی روش چل نکلی ہے۔ یہاں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے ۔ این آر او کے متلاشی دوسروں کے نام پر این آر او حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب احتساب کی حکومت کی باری ہے اور وہ اپنی باری پر رونے لگ گئی ہے۔ اس لیے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔