استاد فتح محمد نظر نسکندی

شبیر احمد ارمان  جمعرات 17 جنوری 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

نا قدری کے زمانے میں جینا ہے بہت مشکل، سقراطوں کو زہرکا پیالہ پینا اچھا لگتا ہے۔کسی گمنام شاعرکے افکار سے متاثر فرزند لیاری بلوچی، سندھی اور پشتو فلمی دنیا کے سینئر اداکار، موسیقار، اسکرپٹ رائٹر، شاعر،ادیب،دانشور،کالم نگار، سماجی کارکن اور فٹبالر استاد فتح محمد نظر نسکندی 85سال کی عمر میں 31دسمبر 2018ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑگئے، مرحوم نے پسماندگان میں بیٹا غلام رسول اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں، جو سب شادی شدہ ہیں ۔

استاد فتح محمد نظر نسکندی 19دسمبر 1933ء میں لیاری کراچی کے علاقے گل محمد لین میں فنون لطیفہ کے ماحول میں آنکھ کھولی ۔ تقسیم ہند سے قبل ان کے والد موسیقار استاد نظر محمد ڈرامہ نگار آغا کاشمیری کے ڈراموں میں اپنے فن کا مظا ہرہ کیا کرتے تھے ایک دفعہ ان کے ڈرامے کو انڈیا میں تھیٹرکرنے کا موقع ملا وہاں کی موسیقی سے متاثر ہوکر فلمی موسیقار ماسٹر لال کی شاگردی اختیار کرلی ۔ بعدازاں یہاں واپس آکر اپنے نام سے منسوب نظر آرٹ سرکل کی بنیاد رکھی جس کے بینر تلے وہ تھیٹرکرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو فن موسیقی کی تربیت بھی دیتے تھے ۔

1942ء میں ایس ایم لیاری اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ، 1952ء میں میٹرک ، 1954ء میں ایس ایم آرٹس کالج سے انٹرمیڈیٹ اور 1956ء میں اسی کالج سے گریجویشن کیا۔ انھوں نے بارہ سال کی عمر میں اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ انھوں نے آرٹ سرکل کے بہت سے تھیٹر ڈراموں میں کردار ادا کیے جن میں آغا حشرکاشمیری کے لکھے ہوا تھیٹر ڈرامے میں نادر الدولہ کے بیٹے کا کردار بھی ادا کیا تھا ۔ 1969ء میں ان کا اپنا لکھا ہوا ڈرامہ ( یہ سرزمین ہماری ہے) عبداللہ ہارون کالج کھڈہ لیاری میں پیش کیا گیا تھا، ان کا لکھا گیا تھیٹریکل اردوڈرامہ ( اسیر حرص) متعدد بار اسٹیج کیا گیا تھا ،1970ء میں ان کا لکھا گیا اردو اسٹیج ڈرامہ (لاوارث لڑکی ) کیٹرک ہال صدر کراچی میں پیش کیا گیا تھا، ایک سال بعد اسی ڈرامے کو گل محمد کلیم نے سندھی زبان میں عبداللہ ہارون کالج لیاری میںپیش کیا، جہاں ایسٹرن اسٹوڈیوکے مالک سعید ہارون بھی بطور مہمان خصوصی موجود تھے جہنوں نے نسکندی سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔

ایسٹرن اسٹوڈیو میں اردو زبان میں فلم ’’ ھمل و ماگنج‘‘ کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ سعید ہارون کے کہنے پر انور اقبال نے فتح محمد نظر نسکندی سے رابطہ کیا اور اسے اس فلم کے لیے بطور موسیقار اورکہانی نویس منتخب کیا ۔ جب کہانی اردو زبان میں مکمل لکھی گئی تو انور اقبال نے فتح نسکندی سے کہا کہ چونکہ ھمل و ماگنج کی پوری ٹیم بلوچوں پر مشتمل ہے جن کا کہنا ہے کہ اسے بلوچی زبان میں فلمائی جائے ، لہذا اسے اب بلوچی زبان میں لکھیں ہم اس فلم کو اب اردو زبان کی بجائے بلوچی زبان میں بنائیں گے ۔

جس پر فتح نسکندی نے کہا کہ میری بلوچی لکھائی کمزور ہے بہتر ہے کہ بلوچی اسکرپٹ کے لیے کسی بلوچ ادیب سے رابطہ کیا جائے۔ بعد ازاں اس بلوچی اسکرپٹ کا اردو ترجمہ سید ظہور شاہ ہاشمی نے کیا ۔اس طرح دنیائے فلم کی پہلی بلوچی فلم کی بنیاد پڑی ۔ 1974ء میںاس فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوا اور 1975ء کو مکمل ہوئی اس فلم کی کاسٹ میں انور اقبال ، انیتا گل ، نادرشاہ عادل ، بوبی ، محمود لاسی ، اے آر بلوچ ، نوشابہ ، شکیل لاسی ، نور محمد لاشاری ، محمد صدیق ، ساقی ، بانو اور مداری شامل تھے ۔کہانی و موسیقی فتح محمد نسکندی ، ہدایت کار ایم اسلم بلوچ اور انور اقبال تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے ’’ آگ اورآنسو ‘‘ کے ہیرو انور اقبال کا چرچہ تھا ۔لیکن دنیائے فلم انڈسٹری کی تاریخ میں یہ پہلی بلوچی فلم ھمل و ماگنج اپنی ریلیز سے قبل ہی متنازعہ بن گئی تھی جسے عوامی دباؤ کے تحت ریلیز نہیںکیا جاسکا جو ایک الگ طویل داستان ہے ۔

اس فلم کے رک جانے سے استاد فتح محمد نظر نسکندی کی موسیقی کی سفر نہیں رکا انھوں نے 1976ء میں ایک پشتو فلم چمنئی خان ، 1977ء میں سندھی فلم گھاتوگھر نہ آیا کی موسیقی ترتیب دی اس فلم نے بہترین سندھی فلم کا نگار ایوارڈ حاصل کیا ۔1980ء میں سندھی فلم مورکھ اور 1982ء میں سندھی فلم قربانی کی موسیقی دی انھوں نے بلوچی ، سندھی ،پشتو اور اردو زبان میں فلمی گانے کمپوزکیے۔انھوں نے جن گلوکاروں سے گانے گوائے ، ان میں مہ ناز، حمیرا چنا،کشورسلطانہ، گلنار بیگم ، محمد یوسف ، موسیٰ حسین ، خیال محمد ، ولی محمد بلوچ ، عزیز بلوچ ، استاد ستار بلوچ اور عشرت جہاں کے نام شامل ہیں ۔

استاد فتح محمد نظر نسکندی نے 1989ء میں دو اردو فلموں ’’ پیارکا ساگر‘‘ اور ’’ پھول اورکانٹے‘‘ کے اسکرپٹ لکھے لیکن یہ دونوں فلمیں مکمل نہ ہوسکیں ۔ فتح نسکندی نے دو بلوچی ویڈیو فلمیں شیرک ء ہوٹل اور کروک زندگ انت لکھیں اور ان کی موسیقی ترتیب دی۔

انھوں نے 1977ء سے مختلف اخبارات اور رسائل میں مضامین بھی لکھے وہ اسکول کی فٹبال ٹیم کے کپتان بھی رہے، بعد ازاں ویسٹ پاکستان گورنمنٹ پریس کی ٹیم میں بھی شامل رہے اور 1960ء میں اس ٹیم کے ساتھ بحیثیت نائب کپتان کے انڈیا میں بھی کھیلنے گئے۔ وہ کے ایم سی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھی کھیلتے رہے اور اس فٹبال ٹیم کے ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں کے دورے بھی کیے، ہینو پاک فٹبال ٹیم کے منیجر بھی رہے ، 1974ء میں انھوں نے ینگ عثمانیہ فٹبال کلب قائم کی جو آج بھی قائم ہے ۔ 2015ء میں ان کی لکھی گئی بلوچی زبان میں کتاب ’’نظرء ِگند‘‘ شایع ہوئی جو موسیقی کے اصولوں اور ابجد پر مشتمل ہے علاوہ ازیں ان کی مزید دوکتابیں سازو زیمل (بلوچی) اور انسان اور آدمی (اردو) زبان میں کمپوزنگ کے آخری مراحل طے کررہی تھیں کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی ۔

نومبر 2017ء میں راقم نے استاد فتح محمد نظر نسکندی کا انٹر ویوکیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پہلی بلوچی فلم ’’ھمل و ماگنج‘‘ چلتی تو آج ہزاروں بلوچ نوجوان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوتے اور بلوچی فن وثقافت کی درست ترجمانی ہوتی مگر اختلافی خیالات کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ ‘‘

آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں بلوچی فن و ثقافت کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے اور کوئی جوابی فلم و ڈرامہ دکھانے والا نہیں، اس پر غوروفکرکی ضرورت ہے ۔ 1958ء میں بلوچی ادب کلب لیاری نے پہلا بلوچی ڈرامہ شہناز اسٹیج کیا گیا تھا جو کامیاب ہوا تھا اسی طرح انجمن اصلاح القوم کے زیر اہتمام بلوچی ڈرامے اسٹیج کیے گئے تھے ،1960ء میں ایک بلوچی ڈرامہ جوکہ نشاط سینما میں اسٹیج ہونا تھا کو اسٹیج ہونے سے روکا گیا تھا ، آج کل بلوچی ویڈیو فلموں کا رجحان ہے مگر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے فن کی خدمت نہیں کی جاسکتی ۔استاد فتح محمد نظر نسکندی پیرانہ سالی میں بھی اپنی قوم کے لیے بہت کچھ کرنے کا جوانوں جیسا جذبہ رکھتے تھے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔