سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 20 جنوری 2019
ہاکی، کرکٹ، ٹینس، فٹ بال پر میں نے مضامین تو بہت لکھے ہیں، لیکن ان کھیلوں کی خوبی اور خرابی کو بالکل نہیں جانتا۔ فوٹو: فائل

ہاکی، کرکٹ، ٹینس، فٹ بال پر میں نے مضامین تو بہت لکھے ہیں، لیکن ان کھیلوں کی خوبی اور خرابی کو بالکل نہیں جانتا۔ فوٹو: فائل

گیند تو نے کیا خطا کی کہ پٹ رہی ہے۔۔۔

امتیاز بانو نظامی کے شوہر مسٹر احمد کھوکھر ٹینس کے بڑے لیڈر ہیں۔ آج کل لاہور میں ٹینس کا بہت بڑا میچ ہورہا ہے جس میں تمام دنیا کے نامی کھلاڑی حصہ لینے کے لیے آئے ہیں۔ پاکستان کے گورنر جنرل اور گورنر پنجاب بھی آج یہ میچ دیکھنے جائیں گے۔ مجھے بھی احمد کھوکھر صاحب نے ٹینس دیکھنے کے کارڈ بھیجے ہیں۔ پہلے میں توکلی شاہ نظامی کے مکان پر کھانا کھانے گیا۔ اس کے بعد ٹینس میچ دیکھنے گیا۔ میں نئے زمانے کے کسی کھیل سے واقف نہیں ہوں۔

ہاکی، کرکٹ، ٹینس، فٹ بال پر میں نے مضامین تو بہت لکھے ہیں، لیکن ان کھیلوں کی خوبی اور خرابی کو بالکل نہیں جانتا۔ آج مجھے گورنر جنرل کے قریب بیٹھنے کی جگہ دی گئی تھی۔ میرے قریب ایک فلاسفر دوست بیٹھے تھے۔

انھوں نے آہستہ سے کہا کھیل بہت خوب ہو رہا ہے اور کئی ملکوں کے کمالات ظاہر ہورہے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا میں تو گیند سے باتیں کر رہا ہوں اور اس سے پوچھتا ہوں کہ تو نے کیا خطا کی ہے جو تجھے یہ دونوں طرف والے مار رہے ہیں؟ ایک رخ والا تجھ پر اپنا دستہ مارتا ہے اور تجھے ان ہزاروں آدمیوں میں ایک بھی ایسا رحم دل نہیں ملتا جو تجھے مار کھانے سے بچائے۔ حالاں کہ ان لوگوں میں انگریز بھی ہیں، امریکی بھی ہیں اور یورپ اور ایشیا کے اور اسلامی ملکوں کے سب ہی بڑے بڑے آدمی موجود ہیں، مگر حیرت ہے کہ سب تیرے پٹنے اور مار کھانے سے خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ تو وہ گیند جواب دیتی ہے کہ میرے اندر خود بینی اور خود پسندی کی ہوا بھری ہوئی ہے۔ اس واسطے میں سب کی مار کھا رہی ہوں اور ان تماشا دیکھنے والوں کو بتا رہی ہوں کہ ہر وہ چیز اور ہر وہ وجود جس کے اندر خود بینی اور خودپسندی اور خود آرائی کی ہوا بھری ہوئی ہو وہ اسی طرح دنیا میں مار کھاتی ہے اور جگہ جگہ ٹھکرائی جاتی ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا۔

ان فلاسفر صاحب نے میری یہ بات سن کر کہا زندگی میں پہلی دفعہ یہ عجیب و غریب بات میں نے سنی۔ میں نے کہا آپ فلاسفر ہیں کائنات کی ہر چیز کو فلسفیانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کی کسرِ نفسی ہے جو میری بات کو ایک نئی بات خیال کرتے ہیں۔ میں تو اپنی ناواقفیت اور محدود علمیت کی پردہ پوشی کے لیے یہ باتیں بتا رہا ہوں۔ چوں کہ مجھے کھوکھر صاحب نے بڑی ممتاز جگہ بٹھایا ہے اگر وہ مجھ سے کھلاڑیوں کے فن کی نسبت سوال کر بیٹھیں تو مجھے ان کی بیوی امتیاز بانو نظامی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا کیوں کہ امتیاز بانو ہر ایک سے کہتی رہتی ہیں کہ میرے پیر تو نئی دنیا اور پرانی دنیا کی ہر چیز کو اور ہر علم و فن کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ یہاں تو آپ کے سامنے باتیں بنا کر اپنی ناواقفیت کو چھپا لیا، کھوکھر صاحب کے گھر جاکر کہوں گا واہ وا خوب کھیل ہوا۔ میں تم کو اہلِ حیدر آباد کی زبان میں ’’نواب ٹینس نواز جنگ‘‘ خطاب دیتا ہوں۔

( 1950 میں خواجہ حسن نظامی پاکستان آئے اور یہاں سے واپسی پر اپنے سفر اور قیام کا احوال رقم کیا۔ یہ سطور ان کے اسی سفر نامے سے منتخب کی گئی ہیں)

۔۔۔

چُل
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

چوں کہ محاورے کی رو سے حرکت میں برکت ہے اس لیے بہت سے وہ لوگ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا (مثلاً سرکاری ملازمین اور باس ٹائپ کے لوگ) اپنے ایک یا دونوں ہاتھوں کو مسلسل کسی نہ کسی فضول حرکت میں مصروف رکھ کر مفت میں برکتیں لوٹتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ برکت کے حصول کی غرض سے بیٹھے اپنی ٹانگیں ہلاتے رہتے ہیں، کچھ جسم کو کھجاتے ہیں، کچھ میز پر طلبہ بجاتے ہیں، ناخن چباتے ہیں وغیرہ۔ نفسیات کی زبان میں اس طرز عمل کو Impulsivity کہتے ہیں۔ اردو لغت میں ایسی بابرکت حرکات کے لیے ایک لفظ ملتا ہے: چُل۔ اسی سے لفظ بنا ’’چُلبل‘‘ یعنی بے کل، بے چین، نچلا نہ بیٹھنے والا۔ حضرت انشا کا محبوب بھی ایسا ہی تھا۔ اس میں کچھ اور پاکیزہ صفات بھی تھیں جن کا ذکر انہوں نے اپنے اس شعر میں کیا:

عشق نے مجھ پر اٹھایا اور تازہ اُشغُلا

لے گیا دل چین اک کچیلا چُلبُل

حضرت سودا نے ’’شیخ‘‘ کی چل پر یہ چوٹ کی تھی:

شیخ کو ذوق اچھلنے سے نہیں مجلس میں

اس بہانے سے مٹاتا ہے وہ اپنی چُل کو

کل جب ایک دیرینہ دوست سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اچانک لائن کٹ گئی، تو ہمیں نہ جانے کیوں بعض احباب کی چُلیں یاد آگئیں۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ جب ان پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے تو وہ اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے ہوا میں اٹھنے والی چیز کو نیچے بھی آنا ہوتا ہے، لہٰذا آپ ان کے قریب بیٹھے ہیں، تو ضرور برداشت کر کے تالی کی آواز پیدا کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا، تو جان لیجیے کہ ان کا ہاتھ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر گر کر اسے عارضی طور پر سہی، ناکارہ یا غیر فعال بنا سکتا ہے۔ اس لیے کہ زوردار قہقہے کے دوران فریق ثانی کی آنکھیں عموماً بند ہوتی ہیں۔ ہاتھ کہاں گرنے والا ہے اسے کچھ علم نہیں ہوتا۔

ہمارے ایک دوست اپنے اٹھنے والے ہاتھ کی نچلی منزل کا تعین پہلے سے خود کر لیتے ہیں یعنی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ران، لہٰذا ہم جب بھی ان کے پاس جاتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں، رانوں پر رکھ کر ’’ارد گرد‘‘ کے رقبے کا دفاع کر لیتے ہیں۔

بعض لوگ دوران گفتگو اپنے جسم کے کسی نہ کسی عضو (عموماً پیشانی، کھوا، ٹھوڑی، گُدی وغیرہ) کو ہلکے ہلکے سہلاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی کے ایک سینئر اداکار کی چل یہ ہے کہ وہ ڈائیلاگ کی ڈلیوری کے دوران اپنے دائیں نتھنے کو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے چھیڑتے رہتے ہیں۔

ٹی وی ہی کے ایک اینکر اور سینئر صحافی کی چُل ہے کہ وہ بات کر کے خاموش ہوتے ہیں، تو اپنے چشمے کی ایک کمانی کا سرا چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ دانش وَر ٹائپ کے لوگ کسی کی بات سن رہے ہوتے ہیں تو بار بار اپنے دونوں ہاتھ تمیم کے انداز میں پورے چہرے پر پھیر کر اور آنکھیں باہر نکال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ کو بولا ہوا ایک ایک لفظ ان کے ذہن میں پوری طرح سرایت کرتا جا رہا ہے۔ کسی کی بات سنتے وقت بعض لوگوں کی گردن کو قرار نہیں رہتا۔ وہ مسلسل اپنے نیچے یا دائیں بائیں حرکت میں رہتی ہے۔ اوپر نیچے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کے موقف سے متعلق ہے، جب کہ گردن کو دائیں بائیں ہلا کر وہ گویا آپ کے موقف کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم یہ اشاراتی زبان کا کوئی پیٹنٹ اصول نہیں ہے۔ حیدرآباد (دکن) کے احباب انکار میں گردن ہلاتے ہیں، تو آپ مایوس نہ ہوں ان کے انکار کا مطلب اقرار ہوتا ہے۔

( تصنیف’کتنے آدمی تھے؟‘ سے ماخوذ)

۔۔۔

بیزار ہونے کا عرصہ
مرسلہ: سید اظہر علی

نصف صدی کی طویل مدت بالعموم ایک دوسرے سے بیزار ہونے کے لیے بہت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اتنے عرصے میں گلاب کی خوش بو مانوسیت کے باعث باسی باسی سی لگتی ہے، مگر وہی بے ضرر سے کانٹے اب بہت چبھنے لگتے ہیں۔ امریکا میں ایک حالیہ سروے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ 50 فی صد جوڑوں کی طلاق شادی کے تین سال کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ بقیہ پچاس فی صد جوڑوں کی طلاق 40 سال بعد ہوتی ہے۔

اس لیے کہ اس اثنا میں وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں۔ پچاس سال دوستانہ تعلق کا وہی نتیجہ ہوجاتا ہے جس کی تصویر غالب نے مرزا تفتہ کے نام اپنے خط میں کھینچی ہے۔ لکھتے ہیں ’’جسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیار کرتی ہے میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔‘‘ یوں تو غالب کا ہر قول حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے تاہم مجھے اس میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کی اجازت ہو تو عرض کروں گا کہ تعلقات میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب دونوں فریق خود کو مظلوم زوجہ سمجھ کر اپنا سہاگ اجڑنے کی دعا کرنے لگیں!

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’شامِ شعریاراں‘‘ سے لیا گیا)

۔۔۔

جیل میں مرجائو تو مکھی اور نکل جائو تو۔۔۔
مرسلہ: واحد مسرت، مُکا چوک،لیاقت آباد

الہ آباد کا سینٹرل جیل نینی میں ہے، جہاں جانے کے لیے الہ آباد سے آگے جنی جنکشن پر اترنا ہوتا ہے، ہم لوگ صبح کو وہاں پہنچ کر آٹھ بجے کے قریب سینٹرل جیل میں داخل ہوئے، علی گڑھ جیل کے کپڑے اتار لیے گئے اور کہا گیا کہ یہاں کے کپڑے کچھ دیر میں ملیں گے، اس وقت تک کالے کپڑے پہنو، جن کی کیفیت یہ تھی کہ ان سے زیادہ کثیف غلیظ اور بدبو دار کپڑوں کا تصور انسانی ذہن میں نہیں آسکتا، لیکن قہر درویش بجان درویش وہی کپڑے پہننا پڑے۔ راقم حروف کی نگاہ دور بین نہیں ہے، اس لیے پڑھنے لکھے اوقات کو چھوڑ کر باقی ہر وقت عینک کی ضرورت رہتی ہے۔ چناں چہ علی گڑھ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بعد معائنہ عینک لگائے رہنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن الہ آباد والوں نے اس کو کسی طرح گوارا نہ کیا اور عینک کو داخل دفتر کرکے راقم کی بے دست وپائی کو ایک درجہ اور بڑھا دیا۔

تھوڑی دیر کے بعد جیلر صاحب نازل ہوئے اور میرے ساتھ کے تمام اخباروں اور کاغذوں کو اپنے سامنے جلوا کر خاکستر کر دیا اور دفتر میں حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔

دفتر میں مجھ کو غضب آلود اور قہر بار نگاہوں سے دیکھ کر ارشاد ہوا کہ اگر یہاں ٹھیک طور سے نہ رہو گے، تو بیمار بنا کر اسپتال بھیجے جائوگے اور وہاں مار کر خاک کر دیے جائو گے۔ اس خطاب پُرعتاب کا خاموشی کے سوا اور جواب ہی کیا ہو سکتا تھا، جیلر صاحب نے غالباً یہ تقریر محض دھمکانے کی نیت سے کی ہوگی، کیوں کہ بعد میں ان سے مجھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیدیوں کی نسبت جیل خانے میں یہ مشہور مثل بالکل صحیح ہے کہ ’’مر جائیں تو مکھی اور نہ نکل جائیں تو شیر!‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قیدی جیل میں مر جائے، تو وہاں اس واقعے کی اہمیت ایک مکھی کے مر جانے سے زیادہ نہ سمجھی جائے گی، لیکن اگر کوئی قیدی وہاں سے نکل بھاگنے میں کام یاب ہوجائے، تو یہ واقعہ اس قدر اہم شمار کیا جائے گا کہ جتنا ایک شیر کا کٹہرے سے نکل جانا!

(’’مشاہدات زنداں‘‘ از مولانا حسرت موہانی سے چُنا گیا)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
الزام
رضوان طاہر مبین
’’اُس پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام تھا۔۔۔‘‘
ثمر نے بتایا۔
’’دیکھنے میں تو وہ بہت شریف لگتا تھا۔‘‘ میں حیران ہوا۔
’’کہا جاتا ہے کہ اپنے کارندوں سے مار لگواتا تھا۔۔۔‘‘
’’اس کی شکایات کی گئیں، کہ یہ اشتعال پھیلاتا ہے،
تشدد پر اُکساتا ہے۔۔۔!‘‘ ثمر بولا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں متجسس ہوا۔
’’اس کے منہ پر ’چیپی‘ لگا دی گئی!
مگر کچھ دن بعد پھر شکایات ہوئیں کہ ’یہ مار لگاتا ہے۔۔۔!‘ اور وہ پھر ’مجرم‘ قرار پایا۔
’’اب کون سی مار لگائی اس نے۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’چُپ کی مار۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔