عمران پر تنقید ضرور کریں مگر پاکستان کو معاف ہی رکھیں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 18 جنوری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دُنیا میں کوئی ایسی حکومت یا کوئی ایسا حکمران بھی ہے جس سے ملک کے سارے عوام خوش اور مطمئن ہوں؟ عوام حکومتوں اور حکمرانوں کے فیصلوں، پالیسیوں اور اقدامات سے یقینا ناراض ہوتے ہیں۔ تنقید اور تنقیص بھی سامنے آتی ہے۔ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف جلسے جلوس بھی نکلتے ہیں۔ اخبارات میں حکمرانوں کی غلط روش کے خلاف سخت ناقدانہ کالم اور تجزئیے بھی شایع ہوتے ہیں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں حکومت کی پالیسیوں کے لتّے بھی لیے جاتے ہیں۔ جمہوری معاشرے کے مروّجہ ضوابط کے مطابق حکومتی چلن کے بارے میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ مخالفانہ میڈیا یلغار میں کہیںناانصافی سے کام لیا گیا ہے تو حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے متعلقہ میڈیا کو اپنا نقطہ نظر بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ شایع بھی ہوجاتا ہے اور نشر بھی ۔ مگر مہذب جمہوری معاشروں میں حکومت یا حکمران کو نہ تو دشنام دیا جاتا ہے اور نہ ہی نقادوں کی طرف سے حکمرانوں کی مخالفت میں ملک کی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے۔ بدقسمتی سے مگر ہمارے ہاں بعض اوقات حکمرانوں اور حکومت کی مخالفت کرتے ہُوئے ملک پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ خیال رکھا جانا چاہیے کہ حکمران تو چلے جاتے ہیں، کوئی حکومت ختم ہو کر نئی آ جاتی ہے لیکن ملک کا وجود تو وہیں رہتا ہے۔ اسے ہدف کیوں بنایا جائے؟ اس تمہید کی وجہ یہ ہے کہ ابھی ابھی میری نظر سے ایک انگریزی مضمون گزرا ہے۔ پڑھ کر دِلی رنج ہُوا ہے۔ عنوان دیکھا جائے تو اس میں کوئی قابلِ اعتراض عنصر نظر نہیں آتا مگر اسے پڑھا جائے تو دکھ ہوتا ہے۔ بظاہر تو اس مضمون یا کالم یا آرٹیکل میں عمران خان کی حکومت، اُن کی پالیسیوں ، اُن کے وزیروں مشیروں اور اُن کے فیصلوں کا پھلکا اُڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ مضمون کے اسلوبِ تحریر کو Satire (فکاہیہ یا طنزیہ) بھی کہا جا سکتا ہے لیکن طنز اور ہجو (اور دل آزاری) میں فرق کا خیال رکھا جاناچاہیے تھا۔ بنیادی طور پر ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ اس مضمون میں عمران خان کو ہدف بنانے اور اُن کی حکومتی پالیسیوں کاٹھٹھہ اُڑانے کے نام پر پاکستان کو بھی ہدف بنا یا گیا ہے۔

فکاہیہ تحریر کا مطلب و معنی ہی یہ ہے کہ ظرافت اور خوش طبعی سے ، پُر لطف انداز میں مقابل پر چوٹ کرنا۔ یہ ایک عظیم فن ہے جسے بروئے کار لا کر ہماری کلاسیکی اُردو صحافت میں فکاہیہ کالم نگاروں نے بڑی شہرت بھی پائی اور احترام بھی۔ فکاہیہ کالموں اور مضامین میں مخالف پر چوٹ کرتے ہُوئے تہذیب اور تمیز کا دامن نہیں چھوٹنا چاہیے۔ فکاہت اور ہجو میں فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا بنیادی صحافت کی ضرورت ہے۔ مگر بعض لکھاریوں کا یہ دامن ہاتھ سے پھسلتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔ حکومت اور حکمران تو بوجوہ ہمارے لیے ناپسندیدہ ہو سکتے ہیں لیکن ہم اپنے وطن کی حرمت پر کمپرومائز یا سمجھوتہ نہیں کر سکتے ۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ کسی کو حکمران پر اگر غصہ ہے تو ملک پر یہ غصہ نہیں نکلنا چاہیے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہر محبِ وطن لکھاری کو یہ اخلاقیات پیشِ نگاہ رکھنی چاہیے۔ حکمران اور حکومت سے عناد کو ملک و ملّت سے معاندت کی شکل دینے سے پرہیز ہم سب پر لازم ہے۔ اگر کسی کو عمران خان کی حکومت پسند نہیں ہے تو اس کا یہ معنی کہاں سے نکل آیا کہ پاکستان بھی پسند نہیں ہے؟

وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کی مخالفت کرتے ہُوئے ایسے صاحبانِ قلم بھی اُٹھے ہیں جنہوںنے ملک کی مخالفت پر بھی کمر باندھ لی ہے۔ ایسے طرزِ فکر اور ایسی تحریروں کی ہر گز ہمت افزائی نہیں کی جا سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی صاحب کی ایسی تحریر حال ہی میں مشہور امریکی اخبار میں شایع ہُوئی ہے ۔موصوف کے اس آرٹیکل کا ذکر یہاں اُس کے عنوان سے بھی کیا جا سکتا ہے لیکن دانستہ اس سے اعراض کیا گیا ہے۔ پڑھ کر افسوس ہُوا ۔ مضمون نگار آجکل پیرس میں بطورِ خود ساختہ جلاوطن رہائش پذیر ہیں لیکن چند دن پہلے وہ واشنگٹن میں تھے۔

انھیں موجودہ پاکستانی حکومت اور حکام سے اختلاف کرنے ، اُن پر نکتہ چینی اور اُن کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن انھیں بہرحال یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کو بھی نقصان پہنچانے کی جسارت کریں۔ مذکورہ آرٹیکل سے چونکہ ہمارے ازلی دشمن، بھارت، کے بھی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے؛ چنانچہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بھارتی میڈیا نے بھی خوشی خوشی یہی آرٹیکل اُٹھایا اور تعارفی مرچ مصالہ لگا کر اسے ’’بطورِ قندِ مکرر‘‘ شایع اور نشر کر دیا ہے۔ بھارت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اُن کے کام کی ’’چیز‘‘ وہ عنصر ہے جو اس آرٹیکل میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔

پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف لفظی بارُود۔ مناسب تو یہ تھا کہ پاکستان کی طرف سے اس کا مناسب جواب سامنے آتا لیکن کئی دن گزر چکے ہیں لیکن ہنوز خاموشی ہے۔ اسے کیا نام دیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ رواں لمحوں میں جو قوتیں پاکستان اور عمران خان کی حکومت سے بوجوہ عناد رکھتی ہیں ، وہ پاکستان میں شکوک و شبہات پھیلانا اپنا کارگر ہتھیار سمجھتی ہیں۔ اس حربے اور ہتھکنڈے سے دراصل اس تاثر کو فروغ دینا ہے کہ پاکستان ایک استبدادی ملک ہے اور خانصاحب کی حکومت جابرانہ ہے۔معروف برطانوی جریدے(دی اکانومسٹ) نے بھی 12جنوری2019ء کی اشاعت میں اپنے ایک آرٹیکل میں پاکستان کے خلاف یہی معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ غیروں کی بات تو الگ رہی لیکن افسوس ایسے پاکستانی لکھاریوں پر ہوتا ہے جو حکومت پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان مخالفت بھی کر جاتے ہیں۔ بہتر ہے آپ عمران خان کی مخالفت کریں لیکن پاکستان کو معاف فرمادیں ۔ پلیز!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔