صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ امریکی پالیسی ہے

سید بابر علی  اتوار 20 جنوری 2019
امریکا میں مقیم سماجی شخصیت اورامریکا کا ممتاز صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی محمد سعید شیخ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

امریکا میں مقیم سماجی شخصیت اورامریکا کا ممتاز صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی محمد سعید شیخ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

تعارف :

محمد سعید شیخ اپنی انسان دوستی، جذبۂ خدمت اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکا میں خاص مقام اور شہرت رکھتے ہیں۔ گذشتہ بیس سال کے دوران وہ امریکا ہی نہیں پاکستان میں بھی قدرتی آفات کے متاثرین کی مدد کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔

امریکی عوام کے لیے بلاامتیاز سماجی خدمات انجام دینے پر انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’پریزیڈینٹ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ  2018‘ بھی دیا گیا۔ سعید شیخ کو یہ ایوارڈ ایک پروقار تقریب میں صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے سابق امریکی صدر جارج بش جونیئر نے پیش کیا۔ صدارتی ایوارڈہرمشکل گھڑی میں رضاکارانہ طور پر غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے نمایاں افراد کو دیا جاتا ہے۔ ایوارڈتقریب میں جارج بش جونیئر نے سعید شیخ کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ایوارڈ کے ساتھ وصول ہونے والے تہنیتی خط میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے بھی سیعد شیخ کے امریکی عوام کے لیے کیے گئے فلاحی کاموں کو سراہتے ہوئے زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ان سے اظہارتشکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی عظیم خدمات سے مصیبت زدہ افراد کی امداد کرکے امریکی جذبۂ حب الوطنی کی حقیقی عکاسی کی ہے۔جس سے نہ صرف امریکی عوام کے تعاون اور اعتماد کے رشتوںکو استحکام ملا ہے بلکہ دورحاضر کے بعض عظیم چیلینجوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملی ہے۔

یاد رہے کہ محمد سعیدشیخ نے پاکستان میں سیلاب، تھر میں قحط کی صورت حال، بلوچستان میں زلزلے اور اوکلوہاما میں طوفان کے موقع پر35 تنظیموں کے اشتراک سے ایک مشترکہ امدادی فنڈ قائم کیا تھا، جس کے تحت 10ہزار سے زائد افراد کے لیے 3لاکھ ڈالر جمع کیے گئے تھے۔ محمد سعید شیخ اس وقت ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹیز ایسوسی ایشن کے صدر  کے عہدے پر فائز ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں گذشتہ دنوںپاکستان کا دورہ کیا۔ محمد سعید شیخ کے ساتھ کی گئی گفت گو کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے، کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

محمد سعید شیخ: حیدرآباد میری جائے پیدائش ہے، جہاں میں نے گریجویشن تک تعلیم مکمل کی۔ 1980 میں ایک بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم جے سی ای (جونیئر چیمبر انٹر نیشنل) سے وابستہ ہوا۔ اس تنظیم کا ایک مقصد نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگر کرنا ہے۔ یہ این جی او نوجوانوں کی تربیت اور ڈیولپمنٹ پاکستان اور بیرون ممالک مختلف ورک شاپ کا انعقاد کراتی ہے۔ 1982 مجھے سندھ کی نمائندگی کرنے کے لیے نیشنل یوتھ ڈیولپمنٹ بورڈ کی رکنیت دی گی، اس وقت میں اس این جی او میں سندھ کی نمائندگی کرنے والا پہلا پاکستانی تھا۔

1992میں مجھے جے سی آئی پاکستان چیپٹر کا صدر بنا دیا گیا۔بعد ازاں مجھے مزید تعلیم کے لیے امریکا جانے کا موقع ملا۔ امریکا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے پاکستان امریکا چیمبر آف کامرس میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لیے میں نے 2005 میں پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی، لاہور، فیصل آباد اور دیگر شہروں کے ایوان صنعت اور تجارت کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہمارے ساتھ ایک میمورینڈم آف انڈر اسٹینڈنگ سائن کیا۔ ہم نے امریکا میں پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ہیوسٹن میں ’جیم اینڈ جیولری‘ نمائش کے انعقاد کے لیے کافی کام کیا، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے اپنے مسائل کی وجہ سے وہ نمائش نہیں ہوسکی۔

ایکسپریس: ایک کام یاب کاروباری شخصیت کو کیسے محروم طبقات خصوصاً اپنے ہم وطنوں کی خدمت کا خیال آیا۔ فلاحی کاموں کی طرف مائل ہونے کی وجہ آپ کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ بنا یا کسی سے متاثر ہو کر یہ کام شروع کیا؟

محمد سعید شیخ: اسی کے عشرے میں سندھ کے طالب علموں کے پاس دو ہی راستے ہوتے تھے کہ یا تو وہ کسی سیاسی تنظیم کا حصہ بن جائیں یا کسی سماجی یا فلاحی کام کرنے والی تنظیم میں شامل ہوجائیں۔ دل میں کہیں فلاحی خدمت کا جذبہ موجود تھا تبھی غیر سرکاری تنظیم جونیئر چیمبر انٹرنیشنل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، یہ میری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ تھا، جس نے میرے اندر موجود انسانوں کی خدمت کے جذبے کو مہمیز کیا، مجھے اپنے پراجیکٹس پر محنت کی بدولت ترقی ملی کی، امریکی کانگریس نے میرے  فلاحی کاموں کو سراہا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ہم نے کراچی چیمبر آف کامرس کے لیے کوامریکا کے سب سے بڑے چیمبر آف کامرس سے منسلک کیا۔

ایکسپریس: ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی ایسوسی ایشن کے تحت آپ نے صحرائے تھر اور کراچی کے کچھ علاقوں میں واٹر فلٹر پلانٹ لگائے ہیں، کیا آپ کا دائرہ کار صرف سندھ تک ہی محدود ہے یا آپ اپنے فلاحی کاموں کو پاکستان کے دیگر شہروں تک وسعت دیں گے؟

محمد سعید شیخ : سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ ’ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی ایسوسی ایشن‘ کیا ہے۔ سسٹر سٹی ایسوسی ایشن کا تصور سب سے پہلے 1950میں امریکی صدر آئزن ہاور نے پیش کیا۔ سسٹر سٹی ایسوسی ایشن بنانے کا مقصد ایک ملک کی شہری حکومت کا کسی دوسرے ملک کی شہری حکومت کے ساتھ آفیشل تعلق قائم کرنا تھا، جس کے تحت دونوں شہروں کے درمیان تعلیم، صحت، تجارت، فلاحی کاموں اور ثقافت کو فروغ دیا جاسکے۔ اس وقت ہیوسٹن کے 18سسٹر سٹیز ہیں، جن میں سے پانچ شہروں کراچی، استنبول، باکو، ابوظبی اور بصرہ کا تعلق اسلامی ممالک سے ہے، جب کہ ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، بنگلادیشن اور افغانستان کے کسی بھی شہر کو سسٹر سٹی کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ کراچی کو سسٹر سٹی بنانے کے لیے ہمیں دو سال جدوجہد کرنی پڑی۔

کراچی کو سسٹر سٹی بنانے کے بعد ہم نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں امدادی کارروائیاں کیں، نارتھ ناظم آباد اور تھر میں واٹر فلٹریشن پلانٹ تعمیر کیے، جہاں تک پورے پاکستان میں کام کی بات ہے تو بنیادی طور پر یہ تعلق ایک شہر سے دوسرے شہر کے درمیان ہوتا ہے، چوںکہ کراچی سندھ کا حصہ ہے اور تھر میں پانی کی ضرورت تھی، اس لیے ہم نے انسانی ہم دردی کو مد نظر رکھتے ہوئے عطیات جمع کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیلپنگ ہینڈز کے ساتھ مل کر تھر میں پانی کے کنویں ، اور بنیادی ضروریات کے حوالے سے پراجیکٹ کیے۔

ایکسپریس: آپ گذشتہ دو دہائیوں سے امریکا میں امدادی اور فلاحی سرگرمیاں سر انجام دے رہے ہیں، کیا آپ سے کبھی رنگ و نسل کی پر امتیاز روا رکھا گیا؟

محمد سعید شیخ: دیکھیے جب بھی وہاں دہشت گردی یا انتہا پسندی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تب تھوڑا بہت خوف و ہراس پھیلتا ہے اور اکا دکا واقعات رونما بھی ہوتے ہیں، لیکن میں آج بھی یہی کہوں گا کہ دنیا میں امریکا سے اچھی ’مواقع کی سرزمین‘ کہیں اور نہیں۔ میں نے وہاں تعلیم حاصل کی، خود کو معاشی طور پر مستحکم کیا، میرے بچوں نے امریکا کے ممتاز تعلیمی اداروں سے سو فی صد اسکالر شپ پر بلاامتیاز تعلیم حاصل کی، انہیں کبھی قومیت، رنگ و نسل کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انفرادی طور پر تو سیاہ فام اور سفید فاموں کے درمیان واقعات پیش آتے رہتے ہیں، لیکن اس بنیاد پر کبھی کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں، کہ ایک امیگرینٹ ( تارک وطن) ہوتے ہوئے بھی مجھے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ایکسپریس: آپ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں، ایک امریکی شہری کی حیثیت سے آپ کس صدر کے دور حکومت کو سب سے بہترین سمجھتے ہیں؟

محمد سعید شیخ : اگر معاشی آسودگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے بل کلنٹن کا دور حکومت بہت اچھا تھا، اس دور میں امریکا معاشی خوش حالی کے عروج پر تھا، اس کے بعد آنے والے صدور جارج بش جونیئر اور باراک اوباما کا دور بھی امریکا کے لیے اچھا رہا، صدر اوباما کے دور میں تارکین وطن کو بہت سہولیات دی گئیں، اوباما اور کلنٹن کے دور حکومت میں اقلیتیں خود کو بہت محفوظ تصور کرتی تھی اور حکومتی پالیسیوں کو سراہتی بھی تھیں۔

ایکسپریس : موجودہ امریکی صدر کو مسلمانوں خصوصاً پاکستان کا سب سے بڑا مخالف گردانا جاتا ہے، لیکن اسی صدر کی جانب سے آپ کو اعلٰی امریکی ایوارڈ ’ لائف ٹائم اچیومنٹ صدارتی ایوارڈ 2018‘ سے نوازا گیا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

محمد سعید شیخ: میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا کہ امریکا میں نسلی امتیاز نہ ہونے کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں۔ میں نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں اسٹیٹ فنانسر کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، یہ ایک اعلٰی عہدہ ہے۔ ہم نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے لیے دو ملین ڈالر سے زاید فنڈز جمع کیے ، میں ڈیمو کریٹ ہوں، اور صدر ٹرمپ ری پبلیکن، اس کے باوجود صدر ٹرمپ کی جانب سے مجھے یہ ایوارڈ دیا گیا۔ میں یہ ایوارڈ حاصل کرنے والاپہلا پاکستانی اور پہلا مسلمان ہوں، اور یہ ایوار ڈ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر آپ ایمان داری سے اپنا کام سر انجام دیں تو پھر آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ایکسپریس: آپ اس ایوارڈ کو حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں، اور غالباً پہلے پاکستانی ہی ہیں جن کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی اچھے کلمات ادا کیے۔

محمد سعید شیخ : اس بارے میں بس یہی کہوں گا کہ امریکا کی خوب صورتی یہی ہے کہ وہاں کوئی تعصب نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستان کے حوالے سے جو بھی بات کرتے ہیں وہ امریکی پالیسی ہے۔ ان کے بیانات امریکا، وائٹ ہاؤس اور ان کے دورصدارت کی پالیسی کا حصہ ہیں اور ہر امریکی صدر ان پالیسیوں کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ ورنہ اگر صدر ٹرمپ تعصب اور مذہبی مخالفت کو مدنظر رکھتے تو شاید میری جگہ یہ ایوارڈ کسی امریکی یا عیسائی کو دیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ایکسپریس: آ پ پاکستان اور امریکا دونوں ممالک میں فلاحی کام کررہے ہیں، اس دوران سب سے زیادہ رکاوٹیں، مشکلات کہاں پیش آتی ہیں؟

محمد سعید شیخ: بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو وہاں ہماری کوششوں پر پانی پھیر دیتے ہیں اور امدادی کام اتنے موثر طریقے سے نہیں ہوپاتا جس طرح ہونا چاہیے۔ جب سندھ میں سیلاب آیا تو ہم نے وہاں سے امدادی سامان کا کنٹینر کراچی بھیجا، لیکن یہاں کسٹم سے تین ماہ تک اسے کلیئر ہی نہیں کیا گیا اور امدادی سامان مستحقین تک بروقت نہیں پہنچ سکا۔ آپ خود  اندازہ لگا لیں کہ کیا حالات ہیں۔ کہہ سُن کر تین ماہ بعد ہمارا کنٹینر بندرگاہ سے کلیئر ہوا اور پھر ہیلپنگ ہینڈز نے اس میں سے خراب ہوجانے والی اشیاء کو نکال کر سامان کی دوبارہ پیکنگ کی اور یوں وہ سامان مستحقین تک پہنچا۔ آپ کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں یہاں ادویات اور بڑے سرجیکل آلات نہیں بھیج سکتے۔ اس سارے کام میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا، ہم اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز جمع کرتے ہیں، اس کے علاوہ امریکا میں بڑی بڑی فلاحی تنظیمیں ہیں جنہوں کافی فنڈنگ ملتی ہے، لیکن اس طرح کے مسائل میں امدادی اور فلاحی کاموں میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔

ایکسپریس: آپ وہاں پاکستان امریکا چیمبر آف کامرس کے صدر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں، کیا وہاں پاکستانیوں کی کاروباری سرگرمیوں کے فضا سازگار ہے؟

محمد سعید شیخ: امریکا میں رہنے والے پاکستانی تو سکون اور اطمینان کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں اور انہیںکوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن پاکستان اور امریکا کی تجارتی سرگرمیوں میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔دیگر ملکوں کے ساتھ کاروباری مسابقت کی وجہ سے پاکستان کی امریکا برآمدات پر کافی فرق پڑا ہے۔ اَسّی اور نَوّے کی دہائی میں پاکستان امریکا تجارتی تعلقات بہت اچھے تھے، لیکن اب پاکستانی ایکسپورٹرز کو چین، ملائیشیا اور دیگر ممالک کی وجہ سخت مسابقت کا سامنا ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں، اور امریکا مخالف رجحانات بھی تجارتی تعلقات کی بہتری میں حائل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت پاکستانی قیادت سے نالاں ہے کہ جی اتنے ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود انہیں متوقع نتائج نہیں مل سکے۔

پاکستان آنے سے قبل ایک تھینکس گیونگ پارٹی میں میری ملاقات کانگریس کی رکن شیلاجیکسن لی سے ہوئی اور جب انہوں میرے پاکستان جانے کا پتا چلا تو انہوں نے مجھ سے کہا ’محمد! اپنے لوگوں، اپنی لیڈر شپ کو بتاؤ کہ ہم نے ان کے لیے کیا کیا ہے، اگر وہ ہماری رقم واپس نہیں کرسکتے تو کم از کم ہماری اس کاوش کو سراہیں تو سہی۔‘‘ حالاںکہ شیلا جیکسن پاکستان کی بہت بڑی حمایتی ہے ، وہ وہاں رہنے والے ہم پاکستانیوں کی بیک بون ہے۔ امریکا میں رہنے والے پاکستانی ڈیمو کریٹس کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔ جب پاکستانیوں کی حمایتی اور اہم عہدے پر فائز رکن کانگریس یہ بات کہہ رہی ہے تو پھر یقیناً کوئی بات ہے جس کی بنیاد پر اس نے یہ کہا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے عوام امریکا کے مخالف ہیں، یہاں امریکا کے خلاف کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں ہیں۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں پاکستان میں تعلیم و صحت جیسے شعبوں میں کن اقدامات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس سے عوام کو براہ راست فائدہ ہو۔

محمد سعید شیخ : تعلیم، صحت اور پانی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہمارے اس دورۂ پاکستان کے تین مقاصد ہیں، اول، ہم پاکستان اور امریکا تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہیں کیوں کہ پاک امریکا تعلقات کبھی بھی اتنے خراب نہیں رہے جتنے اس وقت ہیں، تعلقات کی بہتری میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لابنگ کرکے امریکی سینیٹرز، ارکان کانگریس، فوج اور وائٹ ہاؤس میں موجود اعلیٰ عہدے داروں کی پاکستان کے بارے میں قائم غلط تصور کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان موجود سردمہری کو ختم کرکے ، سیاسی، فوجی اور تجارتی تعلقات میں بہتری لائی جاسکے۔ دوم، ہم نے ہیوسٹن کراچی سسٹر ایسو سی ایشن کے پلیٹ فارم سے امریکا میں تجارتی وفود کو مدعو کیا ہے، ہم امریکا میں پاکستانی ثقافت کے فروغ کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

ہم گذشتہ ایک سال سے میئر کراچی کے ساتھ اس منصوبے پر کام کر رہے تھے، اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسی سال میئر کراچی ایک تجارتی وفد کے ساتھ امریکا کا دورہ کریں گے ، اس کی تاریخ کا اعلان بھی اسی ماہ ہوجائے گا۔ میئر کے دورۂ امریکا کے دوران کراچی بندرگاہ اور اور ہیوسٹن کی بندرگاہ کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے جائیں گے اور کراچی چیمبر آف کامرس کا ایک وفد اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ سوم، ہم اور تعلیم صحت کے شعبے میں شہری حکومت کے ساتھ مل کر آئی بی اے کو ایک اسٹوڈینٹ ایکسچینج پروگرام سے منسلک کر رہے ہیں، جس کے تحت دونوں ممالک کے طلبہ ایک ایک سمسٹر امریکا اور پاکستان میں تعلیم حاصل کریں گے۔ ہم جامعہ کراچی کے شعبہ جرنلزم میں بہتری کے لیے ہیوسٹین کراچی ایجوکیشنل کوریڈور کے نام سے ایک منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں ہم نے میئر کراچی سے شہری حکومت کے ماتحت اسپتالوں کے لیے ادویات کے کنٹینر بھجوانے کی بات کی ہے، تاکہ لوگوں کی طبی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ کراچی اور ہیوسٹن پورٹ کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے ایک معاہدہ بھی سائن کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔