عالمی گاؤں کی چودھراہٹ

مبین مرزا  اتوار 20 جنوری 2019
یہ ہے عالمی گاؤں میں مقتدر اقوام کی صورتِ حال اور ان کے بنتے، بگڑتے اور بدلتے ہوئے تعلقات کا تھوڑا سا نقشہ۔ فوٹو: فائل

یہ ہے عالمی گاؤں میں مقتدر اقوام کی صورتِ حال اور ان کے بنتے، بگڑتے اور بدلتے ہوئے تعلقات کا تھوڑا سا نقشہ۔ فوٹو: فائل

آج ہم آپ سب ایک عالمی گاؤں کے باسی ہیں۔

جی ہاں، عالمی گاؤں۔ ایک ایسی دنیا جس میں زمینی فاصلے اس حد تک سمٹ گئے ہیں کہ ملکوں، تہذیبوں اور ان کے معاشروں کے درمیان امتیازی نشانات یا حدِفاصل کا احساس دلاتی لکیریں اب اکثر اوقات دکھائی تک نہیں دیتیں۔ اُن کی موجودگی کا احساس بہ وقتِ ضرورت ہی ہوتا ہے۔ یہ احساس کون اور کس کو دلاتا ہے؟ صاف سی بات ہے، وہی قوتیں دلاتی ہیں جنھوں نے ان حدوں کے نظروں سے اوجھل ہونے کا سارا اہتمام کیا ہے، اور یہ احساس اُن لوگوں اور ملکوں کو دلایا جاتا ہے جو اس عالمی گاؤں میں اپنے امتیازات پر اصرار، یعنی اپنی حد سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چھے ارب سے زائد انسانوں کی اس دنیا میں جہاں اب سے پہلے رہنے والے بھانت بھانت کی بولیاں بولتے، رنگ برنگے لباس پہنتے اور طرح طرح کے کھانے کھاتے اور اپنے اپنے رنگ ڈھنگ سے جیتے تھے، ان لوگوں کو پہلے پہل جینز، کولا اور برگر نے ایک جیسا، یعنی عالمی گاؤں کا باسی بنانے کے کام کا آغاز کیا تھا۔ یہ کام جس رفتار سے چل رہا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا تھا کہ مزید پون صدی میں بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھا— لیکن پھر سائنس اور ٹیکنولوجی اس میدان میں کودے اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے فتح کا جھنڈا لہرایا اور میدان مار لیا۔ سوشل میڈیا آج لمحہ لمحہ اس جیت کی گواہی دے رہا ہے۔

اس عالمی گاؤں کی حقیقت دو طرح سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ ابتدا میں تو یہ مسئلہ واضح نہیں ہوا تھا، لیکن گذشتہ دس بارہ برسوں میں اس کے سارے خدوخال نمایاں ہوچکے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کام میں بھی سب سے اہم کردار ٹیکنولوجی کا رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سائنس اور ٹیکنولوجی کی یہ تہذیب (اگر اسے کسی عنوان تہذیب کہا جاسکتا ہے) خود اُن مقتدر اقوام کے منحرف گواہ کی حیثیت رکھتی ہے جنھوں نے اس کی تشکیل و تعمیر میں حصہ لیا اور اسے دنیا بھر میں پھیلایا ہے۔ چناںچہ اب صاف طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ یہی ٹیکنولوجی ان کے اصل مقاصد اور عزائم کو کھول کر ہمارے سامنے لارہی ہے۔ اسی لیے جس عالمی گاؤں میں ہم جی رہے ہیں وہ دو بنیادی رویوں کا حامل نظر آتا ہے۔

ایک یہ کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ باشندے کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے سے لے کر جینے مرنے تک ایک رنگ میں ہوں۔ دوسرے یہ کہ لوگوں میں اپنے رنگ و نسل، قومیت و زبان اور تہذیب و مذہب کا شعور اور وابستگی کا احساس شدت کے ساتھ اور عصبیت کی سطح پر نمایاں ہو۔ آپ کو یہ دیکھ کر یقینا تعجب ہوگا کہ عالم گیریت کے اس دور میں یہ دونوں رویے نہ صرف پائے جاتے ہیں، بلکہ پھیل رہے ہیں اور اس پھیلاؤ کی رفتار بھی خاصی تیز ہے۔ تعجب کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں رویوں میں تضاد کا رشتہ ہے۔ یعنی ہونا تو یہ چاہیے کہ یک رنگی لوگوں میں قربت، ہم آہنگی اور وابستگی کا احساس پیدا کرے، لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ دوری، تنگ نظری اور منافرت زیادہ قوت سے ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ ظاہر ہے، یہ عجیب بات ہے اور ایک عام آدمی کا ذہن اس پر کوفت کے ساتھ ساتھ الجھن کا شکار بھی ہوتا ہے کہ ان متضاد رویوں کا بہ یک وقت اس گلوبل ولیج کے انسانوں کی زندگی میں پایا جانا آخر کیا معنی رکھتا ہے اور ان دونوں میں سے کون سا رویہ اس عالمی گاؤں کے باسیوں کے طرزِاحساس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے؟

بظاہر یہ ایک پیچیدہ صورتِ حال نظر آتی ہے، لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو مسئلے کو سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں رویوں کے پس منظر میں کام کرنے والے عوامل، عناصر اور محرکات اب پوشیدہ نہیں رہے، بلکہ کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں رویے بیک وقت عالمی گاؤں کی انسانی آبادی اور اُس کے ذہن پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ تفصیلات اور باریک نکات اوّل تو اب کوئی رہے نہیں کہ ان تک پہنچنا دشوار ہو، لیکن اگر ہوں بھی سہی تو انھیں فی الحال رکھیے ایک طرف۔ اتنی بات تو آپ اور ہم سبھی بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں رویے بے شک متضاد ہیں، لیکن ان کا بہ یک وقت فروغ ہی ان قوتوں کے لیے مفیدِ مطلب ہے جو اس دنیا کو گلوبل ولیج بنانے کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ اگر ان میں سے ایک رویہ ختم ہوجائے یا اس کے اثرات کا دائرہ سمٹ جائے تو یہ قوتیں وہ اہداف حاصل کر ہی نہیں سکتیں جو گلوبل ولیج بناکر وہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس کا بالکل سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ ان دونوں رویوں کا بیک وقت پھیلاؤ نہ صرف ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہے، بلکہ اس منصوبے کے پیچھے کام کرنے والی چاہے دو ہوں یا دو سے بھی زیادہ الگ الگ قوتیں، لیکن بنیادی طور پر ان سب کا اپنے اپنے دائرے میں مقصد ایک ہی ہے۔

یہ سارا منظرنامہ جو جینز، کولا اور برگر کے پھیلاؤ سے لے کر قومیت پرستی، نسل پرستی اور مذہبی انتہا پسندی تک مختلف شکلوں میں اس وقت دنیا بھر میں یہاں وہاں رونما ہوتا چلا جاتا ہے، اس کے عقب میں یک سطری ایجنڈا، یعنی وہی پرانا مال، مفاد اور اقتدار کا شیطانی چکر کام کررہا ہے— جو دنیا بھر کے انسانوں کو ایک ریوڑ کی طرح ہانکنا اور ان کو ہر ممکن طریقے سے زیر نگیں رکھ کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ وہ مقتدر قوتیں جو ایک طرف جینز، کولا اور برگر کے ذریعے دنیا میں تہذیبوں کے انفرادی نشانات اور امتیازی نقوش مٹانے کی مسلسل کوشش میں لگی ہوئی ہیں، تاکہ قطب شمالی سے قطب جنوبی تک دنیا بھر میں ان کا کاروبار پھیل جائے، وہی دوسری طرف مختلف خطوں کے افراد میں مذہب، قوم، رنگ، زبان اور نسل کی تنگ نظری اور تعصب کو بھی بڑھاوا دینے کے لیے سارے حربے استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ دنیا کے عوام کو منظم و متحد قوت بننے کا موقع نہیں دینا چاہتیں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ اقتدار قائم رکھنے کا پرانا اور آزمودہ حربہ بتاتا ہے کہ لڑاؤ اور حکم رانی کرو، کیوںکہ منقسم قوتوں پر حکم رانی نسبتاً آسان رہتی ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ دوسرا بہت بڑا فائدہ ان مقتدر قوتوں کو یہ بھی مسلسل پہنچتا ہے کہ اختلاف و انتشار کی یہ فضا پس ماندہ اور ترقی پذیر اقوام کو بھی اسلحہ خریداری کی دوڑ میں اپنی اوقات یعنی وسائل سے بڑھ کر شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ چوںکہ وہ ہر وقت ایک فرضی خوف میں اس درجہ مبتلا رہتی ہیں کہ انھیں اپنی بقا کا واحد راستہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلحے کے ذخائر اکٹھی کرتی رہیں۔

اب ان حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر 2018ء میں ہونے والے چند ایک واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس عالمی گاؤں کی صورتِ حال کیا ہے اور اس کے حالات کا دھارا کس طرح اپنا رخ متعین کر رہا ہے۔ اس وقت چودھراہٹ کا مسئلہ بڑی گمبھیرتا کے ساتھ ابھرتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ روس کے انہدام کے بعد اس دنیا پر امریکی حاکمیت قائم ہوگئی تھی، جس کے لگ بھگ ربع صدی تک امریکا نے خوب مزے اڑائے۔ طاقت کے توازن کی چوںکہ کوئی صورت نہ تھی، اس لیے کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا۔ چناںچہ امریکا اور اس کے حلیفوں نے جہاں چاہا دراز دستی کے مظاہرے کیے، جہاں چاہا جنگ مسلط کردی اور جہاں چاہا اقتصادی پابندیوں کے حربے استعمال کیے۔ فلسطین اور کشمیر کے نہتے عوام پر گزرتی بربریت سے لے کر روہنگیا کے باشندوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک تک، عراق، افغانستان، مصر اور شام پر مسلط کی گئی جنگوں اور ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں تک ظلم، جبر اور سفاکی کا وہ ہول ناک کھیل سامنے آتا ہے جسے جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی جس پر کوئی پردہ ڈالا جاسکتا ہے۔

دنیا یوں تو بہ ظاہر آج بھی یک قطبی نظر آتی ہے، اس لیے کہ طاقت کے توازن کی صورت اب بھی اس طرح دکھائی نہیں دیتی جیسے پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ تاہم توجہ سے نگاہ کی جائے تو یہ بات محسوس ہونے لگتی ہے کہ آج دنیا پر امریکی تسلط اس طرح نہیں ہے، جس طرح محض چند برس پہلے تک تھا۔ اب ایک بار پھر روس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت تو یوکرائن کے حوالے سے ملتا ہے۔ اس محاذ پر امریکا اور اس کے حلیف یورپی ممالک کی قوت بے اثر ہوکر رہ گئی اور روس کی قوت نے مؤثر کمک کا کردار ادا کرتے ہوئے انھیں پسپائی پر مجبور کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور نقشہ ہم شام میں بنتے ہوئے دیکھتے ہیں جہاں روس کی فوجی طاقت نے مداخلت کی اور امریکا مخالف بشار الاسد کے اکھڑتے ہوئے قدم ایک بار پھر جم گئے۔

صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ گزشتہ برس کے اہم واقعات میں سے ایک یہ بھی کہ روس جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں امن کی صورتِ حال اور افغانستان کے معاملات کے حوالے سے اپنی ایک مؤثر حیثیت کے ساتھ ابھرا ہے۔ بے شک روس اور افغانستان کے مابین پچھلی صدی کی ستر کی دہائی میں ہونے والی جنگ کے بعد سے دشمنی کا تعلق ہے، لیکن اس واقعے کو اب زمانہ گزر چکا ہے، اور اس عرصے میں روس اور افغانستان ہی کی نہیں، دنیا کے بہت سے ملکوں کی صورتِ حال بہت کچھ بدل چکی ہے۔ بہت سے روایتی حریف اب حلیف بن چکے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کے معیارات بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب کسی وقت روس اور افغانستان کے درمیان تعلق کی نوعیت کا بدل جانا کوئی اَن ہونی نہیں کہلائے گا۔

اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اب تک روس اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں تو ضرور ہے، لیکن اس وقت بھی اپنے تیل اور گیس کے ذخائر کے بل بوتے پر دنیا میں اس کی حیثیت ایک اہم اقتصادی قوت کی ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ امریکا کے بعد سب سے بڑی فوج اسی کے پاس ہے۔ اسلحے کے ذخائر اور ٹیکنولوجی کے میدان میں بھی وہ بہت پیچھے یا کم تر پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے معاہدے سے امریکا کے الگ ہونے کے بعد چوںکہ چین اور روس اس معاہدے کے حامی ہیں، اس لیے یہاں متوازی طاقت کا ایک بلاک بنتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ روس اور چین صرف اس ایک معاملے میں ہی ہم خیال نہیں ہیں، بلکہ عالمی سیاسی منظرنامے کے حوالے سے کئی چیزوں میں ان کے تصورات میں ہم آہنگی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرقِ وسطیٰ میں روس کے اثر و رسوخ پر چین کی خاموش مفاہمت بھی کوئی ایسی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ اسی طرح چین پاکستان اقتصادی راہداری اور اس کا بڑھتا ہوا دائرہ نہ صرف روس کے لیے کوئی سوال نہیں اٹھاتا، بلکہ خود اس کے لیے تقویت کا سامان بھی رکھتا ہے۔ امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین اشتراک، مفاہمت اور تعلقات کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ روس اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ سی پیک کے دائرے کی وسعت میں سعودی عرب کا کسی بھی درجے میں شامل ہوجانا صرف اس خطے کے لیے ہی نہیں، بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی کس نوعیت کے اثرات کا حامل ہوگا۔

یہ ہے عالمی گاؤں میں مقتدر اقوام کی صورتِ حال اور ان کے بنتے، بگڑتے اور بدلتے ہوئے تعلقات کا تھوڑا سا نقشہ۔ اس سے ہم بآسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت یہ قوتیں عالمی گاؤں میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے کس طرح کوشاں ہیں۔ اس کے ساتھ اگر برطانیہ اور یورپ کے معاملات کو بھی سامنے رکھا جائے تو کچھ اور حقائق بھی واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بریگزٹ اِس وقت برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین ایک سنجیدہ، بلکہ گمبھیر مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علاحدگی کا نہ صرف ریفرنڈم میں واشگاف الفاظ میں اعلان ہوچکا ہے، بلکہ گزشتہ برس کے اواخر میں برطانیہ اور یورپی یونین کے وفود کے تفصیلی مذاکرات کے بعد اس پر عمل درآمد کا معاہدہ بھی بڑی حد تک طے پاچکا ہے۔

اس کے مطابق علاحدگی کا یہ عمل سالِ رواں کے تیسرے مہینے سے شروع ہوکر لگ بھگ ایک برس کے دوران میں مکمل ہوگا اور اس عرصے میں سرحدی تعلقات، افرادی قوت کے معاملات اور اقتصادی امور کو نمٹایا جائے گا۔ بہ ظاہر یہ سب طے کرلیا گیا ہے، لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے، جتنا کہ نظر آرہا ہے۔ اس کی گمبھیرتا کا اندازہ صرف اس ایک بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کی وزیرِاعظم ٹریسامے کی اپنی جماعت (کنزرویٹو) کے ارکان بھی اس مسئلے پر نہ صرف ہم خیال نہیں رہے ہیں، بلکہ ان کے درمیان اس درجہ سنجیدہ نوعیت کے اختلافات ہیں کہ اُن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کئی وزرا نے استعفیٰ دے کر کابینہ سے علاحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔

دوسری طرف اٹلی کی صورتِ حال بھی یورپی اتحاد میں بگاڑ کا نقشہ پیش کررہی ہے۔ اٹلی میں یورپی یونین سے علاحدگی کا رجحان اس عرصے میں بہت زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ اٹلی کے نئے وزیرِاعظم سلووینی جو ایک قوم پرست راہ نما کی شناخت رکھتے ہیں، اٹلی کے یورپی اتحاد کا حصہ رہنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ ان کی عوامی مقبولیت اور انتخابی کام یابی میں ان کے علاحدگی پسندانہ جذبات اور نعروں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اٹلی میں علاحدگی پسندی کی یہ ہوا نہ تو بالکل اچانک ابھی چلی ہے اور نہ ہی یہ کوئی بے جواز آواز ہے۔ اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اٹلی کے اقتصادی حالات کی خرابی اور یورپی اتحاد کی اس کی پریشان کن صورتِ حال سے لاتعلقی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ عوامی حافظے نے اپنے مسئلے اور یورپی اتحاد کی بیگانگی کو قطعاً فراموش نہیں کیا ہے۔

اس کے علاوہ یورپی اتحاد کے حالات کی تبدیلی کے تناظر میں جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اینجلا مرکل ایک زیرک اور انسان دوست سیاست داں کی شہرت رکھتی ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ دنیا نے حالیہ برسوں میں خاص طور پر اس وقت دیکھا تھا جب مشرقِ وسطیٰ کے جنگی علاقوں سے جان بچا کر بھاگنے والے لوگ جرمنی کے ساحل پر پہنچے اور حکومت نے ان کو پناہ دینے سے نہ صرف انکار نہیں کیا، بلکہ انسانی بنیادوں پر ان کی بڑی سہولت کے ساتھ آباد کاری کے اقدامات بھی کیے گئے۔ سیاسی رہنما کی حیثیت سے اینجلا مرکل کی اپنے ملک و قوم کے لیے خدمات بھی قابلِ ستائش ہیں۔ ان کی سیاسی حکمتِ عملی اور اقتصادی فیصلوں نے جرمنی کے استحکام کی راہ ہموار کی۔ تاہم جرمنی میں بھی قوم پرستی کا رجحان تیزی کے ساتھ نمایاں ہوا ہے جس میں انتہا پرستی کے عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کی قوت اور عوام میں اس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ہی اینجلا مرکل نے آئندہ انتخابات اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا ہے۔

اب اگر اس پورے منظرنامے کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت عالمی گاؤں میں جو دو رویے بیک وقت کام کررہے ہیں وہ متضاد تو بے شک ہیں، لیکن اس تضاد کے ذریعے ہی عالمی گاؤں کی چودھراہٹ کا فیصلہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔