اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر ۔۔۔۔۔ ! حاجی منصور علی ملنگی مرحوم

صابر عطاء تھہیم  اتوار 20 جنوری 2019
سرائیکی زبان کو امر کرنے والا صدارتی ایوارڈ یافتہ گائیک۔

سرائیکی زبان کو امر کرنے والا صدارتی ایوارڈ یافتہ گائیک۔

سرائیکی بولی بھی کیا خُوب ہے کہ اگر آپ مٹھاس کو سرائیکی بھی کہہ دیں تو قطعاً غلط نہیں ہوگا، لیکن صرف مٹھاس نہیں ایسی چاشنی جس میں آپ خود کو گُھلا ہوا پاتے اور خود بھی اس کا جُز بن جاتے ہیں، اس سے آگے چلتے ہیں ایسی بولی جس کی چاشنی میں درد و غم ایسے رچابسا ہوا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ جو بولی سُر اور ساز کی زبان بن جائے وہ امر ہوجاتی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس کو پڑھنے سے زیادہ سُنا جاتا ہے۔

نام ور موسیقار و شاعر جناب افضل عاجز کے بہ قول: ’’برِصغیر میں اس وقت دو میوزک سنے جا رہے ہیں۔ ایک انڈیا کا دوسرا سرائیکی کا۔‘‘ اس زبان کے فروغ میں اسے سُر اور ساز کا حصہ بنانے اور دنیا کے ہر کونے میں پھیلانے میں جن فنکاروں، گلوکاروں اور شاعروں کا کردار ہے اُن میں ایک معتبر نام حاجی منصور علی ملنگی کا بھی ہے، جنہیں سرائیکی زبان کا لیجینڈ کہا جاتا ہے۔ بقول عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی: جب میں نے گائیکی کا آغاز کیا تو اس وقت حاجی منصور علی ملنگی کی شہرت کا ڈنکا بجتا تھا اور اُن کے گیت لوگوں میں زبانِ زدِعام تھے۔ (بہ حوالہ کتاب، درد کا سفیر )

حاجی منصور علی ملنگی ضلع لیّہ اور ضلع جھنگ کے سرحدی علاقہ گڑھ مہاراجہ میں یکم جنوری 1947ء کو پیدا ہوئے۔ اِن کے والد گرامی پٹھان علی ملنگی سارنگی نواز تھے اور لوک گائیکی کے حوالے سے بھی علاقائی شہرت رکھتے تھے۔ اُس وقت چوکیاں گانے کا رواج تھا۔ رات کو دیہی علاقوں میں کسی نمبردار، زمین دار یا کسی بڑی چوپال میں لوگ اکٹھا ہوجاتے اور اس میں گلوکار جاکے رات بھر گایا کرتے تھے اسے چوکی کہتے ہیں۔ پٹھان علی اپنے دور میں شادی بیاہ اور میلوں ٹھیلوں میں گیت گانے کے حوالے سے اپنا ایک اونچا مقام رکھتے تھے۔

ویسے بھی انہیں خواجہ فرید ؒ کے دوہے گانے میں ملکہ حاصل تھا اور انہیں فریدی گائیک بھی کہا جاتا تھا۔ وہ خواجہ غلام فرید ؒ کے دورِ حیات میں ان سے ملتے تھے اور ان سے کلام حاصل کرتے تھے۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ چوکیاں گانے کا رواج عام تھا، ان دِنوں جدید ساؤنڈ سسٹم تو تھا نہیں، لوگوں کے پاس تفریح کے مواقع بھی کم تھے، مختلف علاقوں میں کبھی کبھار کوئی چوکی (محفل ) منعقد ہوتی تو اس میں دور دراز سے لوگ شرکت کرتے ہزاروں سامعین کو اپنی بلند آواز سے محظوظ کرنا پڑتا تھا۔ راقم کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں حاجی منصور علی ملنگی نے بتایا تھا: ’’ہم بچپن میں اپنے بابا کے ساتھ محافل میں جایا کرتے تھے میرے بابا کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں افراد آسانی سے ان کے گیت سنتے تھے۔‘‘

منصور علی ملنگی نے آنکھ کھولی تو سُر اور ساز اُن کے آنگن میں اُن کا استقبال کر رہے تھے۔ ابتداء میں اپنے والد گرامی سے سیکھتے رہے بعد ازاں بابا جی اے چشتی کے شاگرد بن گئے اور ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 18سال کی عمر میں گانا شروع کردیا۔ اُن دنوں ریڈیو کا دور تھا اور آپ نے بھی ریڈیو پاکستان کا رُخ کیا۔ وہاں گئے تو علاقائی حدود کا معاملہ سامنے کھڑا ہوگیا، سفر کے اعتبار سے ریڈیو پاکستان ملتان قریب تھا وہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ ضلع جھنگ ریجنل طور پر ریڈیو پاکستان لاہور سینٹر کا علاقہ ہے۔ منصور ملنگی لاہور گئے تو انہوں نے کہا کہ سرائیکی زبان کا اپنا سینٹر ملتان ہے تو آپ وہاں جائیں۔ کچھ عرصہ وہ ریڈیو پاکستان کے حکام کے درمیان دھکے کھاتے رہے بعد ازاں انہیں لیّہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز براڈ کاسٹر ملک عزیزالرحمان اولکھ جو پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ میں ملک صاحب کا کردار ادا کرتے تھے، نے اس مسئلے کا حل نکالا اور منصور علی ملنگی کو کبیروالا کا رہائشی ظاہر کرکے انہیں ریڈیو پاکستان ملتان سینٹر پر مستقل کیا۔ منصور علی ملنگی، بابا جی اے چشتی کے ساتھ کام کرتے ہوئے متعدد فلموں کی موسیقی میں ان کے معاون رہے۔

1975ء میں منصور ملنگی کا پہلا البم ریلیز ہوا، جسے پاک گرامو فون ہاؤس نے ریلیز کیا تھا۔ اس البم کا ایک گیت ’’ اِک پھُل موتیے دا مار کے جگا سوہنڑی یے‘‘ زبان زدِ عام ہوا اور شہرت کی دیوی اسی گیت سے ہی منصور علی ملنگی پر مہربان ہوگئی۔ اس کے بعد ان کے گیت ’’ نکی جئی گل توں رُسدئیں، خان چڑھا دے بندوے خاناں، ککڑا دھمی دیا، بھی شہرت میں اضافہ کا سبب بنے۔ یہی گیت بعد ازاں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی شناخت بنے۔ آج بھی سرائیکی وسیب میں شفاء اللہ خان روکھڑی کا مشہور گانا ’’کوئی روہی یاد کریندی‘‘ منصور ملنگی کا چالیس سال قبل گایا ہوا گیت ہے۔

انہوں نے صرف سرائیکی زبان میں نہیں گایا بل کہ پنجابی اور اردو زبان میں بھی کمال گایا آج بھی ان کے گیت، کہڑی غلطی ہوئی اے ظالم، چھبہ چوڑیاں داسِرتے میں چایا، اُبھے دا ونجارآیا بولی بولے لماں، توں اوڈ میں تیری اوڈنی، یاداں وچھڑے سجن دیاں آئیاں، وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں، مینوں تیرے جیا سوہنڑناں ہور لبھدا ناں، کوئی روہی یاد کریندی اے، بوچھنڑ ڈوریے دا، میتھوں سوں چوالے پُھل میں نی تروڑے، نیندراں نی آندیاں، بے درد ڈھولا اِنج نی کرینداں، بوہتا پیار نہ کرِیں، مریضِ محبت انہیں کا فسانہ، یاد ہے تیرے انتظار میں ہم، غم کے گرداب میں سے بچ نکلتا، تیڈی سانول اگلی ٹور تے نئیں، کڈنڑ ولسو سوہنا سانول آ، کالا تل ماہی دا، بے وفا یوں تیرا مسکرانا، اکھیاں جل بھریاں، عوام والہانہ سنتے ہیں اور ان گیتوں کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں۔ منصور علی ملنگی نے دوگانے بھی کیے، اپنے دور کی معروف گلوکارائیں افشاں اور دیگر نے منصور ملنگی کے ساتھ دوگانے ریکارڈ کرائے۔ منصور ملنگی کے200 سے زاید آڈیو البمز ریلیز ہوئے۔ انہوںنے خواجہ غلام فرید ؒ کی کافیوں، اَکھ پھَڑکاندی اے، گزرگیا ڈینہہ سارا مساگ ملیندی دا، روندے عمر نبھائی وِچ وہی دے، کو ایسے انداز میں گایا کہ آج تک ایسا انداز گائیکی خواجہ فرید کی اِن کافیوں کو کوئی اور نہیں دے سکا۔2012ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ منصور ملنگی کی وفات کے بعد سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ فیصل آباد نے ان کے نام سے ایک شاہ راہ کو منسوب کو کیا ہے۔

منصور ملنگی کی گائیکی کی یہ بھی خوبی تھی کہ وہ کومل اور تیور سروں کو جانتے تھے اور انہیں بہ وقت ضرورت استعمال بھی کرتے تھے۔ گیت گاتے ہوئے درمیان میں ماہیا اچھا ل دینا دوہڑے کا رنگ بھرکر پھر سے گیت شروع کر دینا ان کا ہی خاصہ تھا اور یہی انداز گائیکی ہی انہیں دوسرے ہم عصر گائیکوں سے ممتاز بناتا اور سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ انہوں نے اپنے تمام گیتوں اور غزلوں کی دھنیں خود ترتیب دیں۔ نام ور شاعر محسن نقوی ان کے دیرینہ دوستوںمیںشامل تھے۔ محسن نقوی مرحوم نے کئی سرائیکی گیت اور غزلیات منصور علی ملنگی کے لیے لکھیں جنہیں منصور علی ملنگی نے اہتمام سے اپنی آواز کی زینت بنایا، جن میں ایک اردو غزل ’’وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں۔ نظر پڑی تو چھُپ گئی سہیلیوں کی اوٹ میں ‘‘ نے عالمی شہرت حاصل کی۔

نام ور شاعر افضل عاجز کہتے ہیں : ’’منصور علی ملنگی دھیمے سروں سے دلوں میں آگ لگانے اور بجھانے کے ماہر تھے، ان کے ماہیے کا انداز تو ایسا تھا جیسے کوئی ماہر نشانے باز اڑتی ہوئی مرغابی کو نشانہ بناتا اور پھر پھڑکتی ہوں مرغابی کو ہاتھوں میں دبوچ لیتا ہے، منصور ملنگی بھی ماہیا پھینک کر سننے والوں کے دل مٹھی میں کر لیتے تھے۔ منصور ملنگی سے میری پہلی ملاقات کا احوال بہت دلچسپ ہے مجھے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے کہا منصور بھائی نے آنا ہے ان کا خیال رکھنا اور ہاں ان پہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ پہلے اپنے سریلے پن اور پھر نشیلے پن سے بھی نوازے گا۔ منصور علی ملنگی مرحوم آئے تو میں انہیں ریکارڈنگ روم میں لے گیا، اتفاق سے ان دنوں نئے البم پہ کام چل رہا تھا، ملنگی صاحب اندر داخل ہوئے تو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اس وقت میرے گیت

تیڈے نیناں دے تیر

گئے دل میڈا چیر

میں فقیر ہوگیا

کا ووکل کر رہے تھے، گیت کی دُھن کا انداز سریلا تھا، انہوں نے پوچھا شاعر اور کمپوزر کون ہے، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا افضل عاجز۔ ملنگی مرحوم نے مجھے بہت داد دی اور گلے لگا کے میرا ماتھا چومتے ہوئے کہا: اچھا تے توں ایں افضل عاجز، لیکن یار توں ایڈا وی عاجز نیں جیڈا بنڑیا وتنایں (عاجز یار آپ اتنے بھی عاجز نہیں ہو جتنے بنے پھرتے ہو) اور پھر انہوں نے یہ گیت گنگنانا شروع کردیا اور اپنے سریلے پن سے اسے مزید سریلا کردیا۔ وہ کافی دیر تک گاتے رہے اور ان کی طبعیت نشیلی ہونے لگی اور مجھے کہنے لگے اوئے ظالما فلانیا ڈھمکانیا اے گیت تاں مینوں گاونڑاں چاہیدا ہا توں ایدے کولوں کدے گوا ماریا (اوئے ظالما یہ گیت تو مجھے گانا چاہیے تھا آپ نے اس سے کیوں گوا لیا ہے) اور پھر تھوڑی دیر بعد میں اور عطاء اللہ عیسی خیلوی ان کی نشیلی زد میں رہے۔ صبح میں نے وعدہ کیا کہ انشاء اللہ میں آپ کے لیے بھی کچھ لکھوں گا۔ انہوں نے بہت محبت کے ساتھ کہا میں ’’ جناب دی ہتھ جوڑ کے خدمت وی کریساں ‘‘ (میں جناب کی ہاتھ جوڑ کر خدمت بھی کروں گا) پھر بعد میں ان کے ساتھ کام بھی کیا مگر تھوڑا سا مگر دوستی بہت رہی وہ جب بھی فون کرتے تو کہا کرتے: عاجز بھائی شالا مولا رنگ لاوی وڈیاں حیاتیاں ہونیں۔ ‘‘

منصور علی ملنگی نے دنیا بھر میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ زیادہ تر امریکا، جاپان، یونان، ناروے، دبئی میں پرفارم کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے: ’’ہم نے اپنی زبان کی شناخت اور پاکستان کے کلچر کے لیے گائیکی کی ہے، ہم نے دھن دولت کو اپنا مقصد نہیں بنایا ‘‘ اور ان کی یہ بات بالکل درست ہے، وہ زمانے کے رنگ میں نہیں رنگے اور دولت کے لیے نہیں گایا یہی وجہ تھی کہ اکثر مفلوک الحال رہے مگر رب کے سامنے صابر شاکر رہنے والا یہ شخص انسانوں کے سامنے کبھی نہیں جھکا اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ منصور ملنگی نے تین شادیاں کیں جن میں سے 19بچے (11بیٹے اور 8 بیٹیاں ) پیدا ہوئیں۔ ان کے بیٹے شاہد منصور، انصار منصور اور مختیار منصور ان کے فن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

اُن کی اپنی مٹی اور زبان کے ساتھ جڑت کی وجہ سے آج سرائیکی زبان اونچے مقام پر ہے۔ جہاں سرائیکی موسیقی کی ترویج و ترقی اور اسے دنیا بھر میں متعارف کرانے والوں کا تذکرہ آئے گا تو ان میں منصور علی ملنگی کی خدمات سرِفہرست ہوں گی۔ اور ان میں پٹھانے خان، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور منصور علی ملنگی پہلی صف میں موجود ہوں گے۔ آج بھی سرائیکی وسیب کے ممتاز گلوکار شفاء اللہ روکھڑی، شہزادہ آصف اور احمد نواز چھینہ منصور علی ملنگی کے انداز گائیکی کو اپنائے ہوئے ہیں۔

راقم سے منصور علی کی یاد اللہ بہت پرانی تھی۔ وہ اکثر ناچیز کے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ 10دسمبر 2014کو منصور ملنگی ہماری منعقدہ تقریب میں جو ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان لاہور آصف کھیتران کی تاج پوشی کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی، میں مدعو تھے۔ تقریب سے قبل ہی گھر میں انہیں دل کی تکلیف ہوئی اور قریبی کلینک میں انہوں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔

وہ بلاشبہہ ایک عظیم گلوکار ہونے کے ساتھ ایک انتہائی اچھے ایثار کیش و ہم درد انسان تھے۔ کہتے ہیں نام کا اثر ہوتا ہے تو مجھے کہنے دیجیے وہ اس دور کے منصور تھے اور ملنگی بھی۔

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔