فنا ہی میں بقا کا راز پوشیدہ ہے

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 20 جنوری 2019
گم نامی نعمت ہے اور تشہیر آزمائش تو بس اس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

گم نامی نعمت ہے اور تشہیر آزمائش تو بس اس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 28

ناشتے کے بعد میں بابا کے ساتھ ہی گھر سے نکلا اور تھوڑی دور چلنے کے بعد پھر میرے سوالات بابا کے سامنے تھے۔ بابا آپ جانتے تھے کہ آج یہ ہوگا میرے ساتھ۔ میرا بیٹا پھر شروع ہوگیا سوال کرنے، بابا میرے سوال کے جواب میں مسکرا رہے تھے، لیکن میں بہ ضد تھا۔

دیکھو بیٹا میں نے کہا تھا کہ خود سوچو اور صبر کرو، جلدی مت کیا کرو اور تم نے کچھ دن تو اس پر عمل بھی کیا۔ لیکن بابا یہ تو بہت مشکل کام ہے ناں۔ ہاں بیٹا ہے تو مشکل، بہت زیادہ مشکل، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ بابا یہ کہہ کر پھر خاموش ہوگئے۔ مطب پہنچ کر بابا نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور کہا: جب گھر میں کسی نے کچھ پوچھا نہیں تھا تو تم نے اپنی ماں سے پھر یہ سب پوچھنے کی کوشش کیوں کی؟ اس لیے بابا کہ مجھے حیرت تھی اس بات پر، بابا میری بات سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے اور کہا: دیکھو بیٹا حیرت ہی میں تو اس کا بھید پوشیدہ ہوتا ہے، اگر تم سہارنا سیکھو تو پھر کسی سے پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئے، حیرت خود تم پر عیاں ہوجائے ۔

لیکن بابا میں یہ کیسے کروں، کوئی سِرا بھی تو ہاتھ آئے ناں، میرا سوال پھر سے بابا کے سامنے تھا۔ بیٹا پھر تم نے عجلت سے کام لیا، اگر تم کچھ دیر میری بات پر غور کرتے تو تمہیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ تم نے پوچھا ہے کہ میں یہ کیسے کروں، جب کہ میں بتا چکا ہوں کہ عجلت سے گریز کرو، سہارنا سیکھو، غور کرو، اور پھر میں نے تمہیں ابھی تو بتایا ہے کہ بھید کا راز اسی بھید میں پوشیدہ ہوتا ہے، جو بس صبر سے اس پر غور کرنے سے کھل جاتا ہے، شرط صرف یہی ہے کہ صبر و تحمل سے اس پر غور کرو۔ بابا یہ کہہ کر تھوڑی دیر خاموش ہوگئے، اور پھر کہنے لگے: تم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ خاموشی کی زبان کیسے سمجھ میں آتی ہے، اور پھر جب میں نے تمہیں بتایا تھا تو تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تم آواز سن کر تو پہچان سکتے ہو، یہی کہا تھا ناں تم نے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ یعنی تم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ آواز سن کر تم پہچان سکتے ہو، بابا نے مجھے الجھن میں ڈال دیا تھا تو میں کہا جی میں نے ایسا ہی کہا تھا۔

پھر بابا نے بتاتا شروع کیا: دیکھو بیٹا! دعویٰ عبث ہوتا ہے اگر اس میں صداقت نہ ہو، دعویٰ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچو کہ میں جو دعویٰ کررہا ہوں تو اس میں سچائی کتنی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ میں گماں کو یقین سمجھ رہا ہوں، اور اگر میں گماں کو یقین سمجھ رہا ہوں تو میں راستی پر نہیں ہوں، اسی لیے داناؤں نے کسی بھی قسم کا دعویٰ کرنے سے منع کیا ہے، بالکل منع، دیکھو ایک اصول یاد رکھنا جو دعویٰ کردے تو سمجھ جانا ابھی خام ہے یہ، جبھی تو دعویٰ کررہا ہے، اس لیے کہ جاننا اتنا آسان نہیں ہے اور وہ اس لیے کہ ایک شے سے دوسری شے کا سرا جڑا ہوا ہے اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والا ہے، تو کوئی یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ وہ شے کی حقیقت کو جان گیا ہے، اور جب کوئی جانتا ہی نہیں اور اگر جانتا بھی ہے تو ادھورا اور نامکمل تو دعویٰ کیسا! یہ کوئی معمولی علم نہیں ہے جبھی تو ہمارے آقا و مولا جناب امام الانبیاء شہر علم و دانش جناب رسول کریمؐ نے اپنے رب سے دعا فرمائی کہ میرے مالک مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم عطا فرما دے۔

جو انہیں عطا فرمایا گیا، اب خود سوچو کہ یہ کتنا عظیم علم ہے، تو کبھی دعویٰ مت کرنا کہ میں جان گیا ہوں، نہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے، لیکن تم نے یہ دعویٰ کردیا تھا کہ تم آواز سن کر پہچان سکتے ہو، لیکن ایسا ہے نہیں اس لیے کہ تم نہیں جان سکتے، بس وہی جان سکتا ہے جس پر رب تعالٰی کھول دے اور جس پر کھول دے وہ خاموش ہوجاتا ہے بتاتا نہیں پھرتا، اس لیے راز کی حفاظت کرنا ہی اصل ہے، جو کسی بھید کو کھول دے تو سزا کا مستحق ہوجاتا ہے، بندہ ناداں مگر عجلت کا مارا ہوا ہوتا ہے اور اس کا ظرف بھی اتنا نہیں ہوتا تو دعوے کرتا پھرتا ہے، دعویٰ تو وہ کرسکتا ہے جو سب جانتا ہو، اور وہ تو بس رحمت کائنات عالمؐ جانتے ہیں اور وہ جن کے بارے میں صادق و امین کائناتؐ فرما دیں۔ باقی کا دعویٰ عبث ہے، عبث ہی نہیں کذب ہے۔ اس کے بعد بابا پھر گہری سوچ میں پڑگئے تو میں نے کہا: بابا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن میں اس پر غور کروں گا لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا تو پھر آپ کو زحمت دوں گا۔ بابا مسکرائے اور کہا: علم عجز سے منسلک ہے، ادب سے وابستہ ہے۔

انکسار سے جُڑا ہوا ہے، جو عجز کو، انکسار کو، ادب کو اختیار کرلے اور خالق سے التماس کرے کہ میرے علم میں اضافہ فرما تو اگر اخلاص ہے تو مل جاتی ہے یہ دولت، لیکن جب یہ دولت مل جائے تو ذمے داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، اس لیے کہ رب تعالٰی نادان و لاعلم سے تو رعایت کردیتا ہے کہ وہ تو کچھ جانتا نہیں تھا لیکن جو جانتا ہو اور پھر اس پر عمل پیرا نہ ہو تو اس کی چُھوٹ نہیں ہے، تو بس رب تعالٰی سے علم نافع کا سوال کرنا چاہیے اور ساتھ میں اس کا بھی کہ اس سے اس کی مخلوق فلاح پائے اور اس کے صدقے میں اس کی مغفرت ہوجائے اور اس کا خاتمہ خیر کے ساتھ ہوجائے، اسے دعا کرنا چاہیے کہ ایسے علم سے پناہ میں رکھے جو اسے گھمنڈ میں مبتلا کردے، وہ مخلوق خدا کو گم راہ کردے، اور اپنے ساتھ اوروں کی بھی دین دنیا کو نابود کردے، یہ تو عذاب ہے سراسر گم راہی۔

لیکن بابا۔۔۔۔؟ میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ مریض آنا شروع ہوگئے اور بات ادھوری رہ گئی۔

زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی۔ گھر پر معمولات وہی لگے بندھے تھے۔ لیکن بابا کے ساتھ رہنا ہی میرے لیے سعادت تھی، میں جو اب تک کچھ بھی نہیں جان پایا لیکن انہوں نے مجھے سیکھنے کی راہ دکھا دی تھی۔ اس دوران میں بابا کے ساتھ ہر ماہ کی نوچندی کو ان کے ساتھ جایا کرتا اور ہر مرتبہ ہی حیرت کا سامنا کرتا رہا، میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ان سے سوالات کرنے کی خُو نہیں بدلی تھی اور انہیں میرے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا، پھر ہوتا یہ کہ وہ کبھی ان سوالات کا جواب دیتے اور کبھی مجھے منجدھار میں چھوڑ دیتے اور میں اس میں گھومتا رہتا اور بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میں نے انہیں بتایا کہ یہ واقعہ اس طرح تو نہیں تھا، تب میں نے سنا کہ تم درست سمجھ پائے ہو، تم صحیح نتیجے پر پہنچے، واہ میرے بچے بہت خُوب، سچ بتاؤں تو میں واقعی کچھ سمجھ نہیں پایا۔ نوچندی کو بابا کے ساتھ جاتے ہوئے اور پھر واپسی میں ایسے واقعات پیش آتے تھے کہ میرا جی تو چاہتا ہے کہ آپ کو ان سے آگاہ کرسکوں لیکن میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے، مجھے ان واقعات کا تذکرہ کرنے سے انتہائی سختی سے منع کیا گیا ہے، مجھے ان وارداتوں کو بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو میری معذرت کو اپنی کشادہ دلی اور وسیع الظرفی سے قبول کیجیے اور ویسے بھی ان واقعات سے آپ کو کیا ملنے کا ہے تو بس معذرت،

بابا نے مجھے جو کچھ سمجھایا میں اس کا خلاصہ کیے دیتا ہوں کہ جس گاؤں کو چھوڑ دیا تو اس کا تذکرہ بھی کیوں، چھوڑ دیا یا چھڑا دیا گیا تو بس اس کا ذکر بھی نہیں کرنا۔ ہمیں سیدھی سادی بات کرنا چاہیے جو سب کی سمجھ میں آسکے، کوئی دعویٰ نہیں کرنا چاہیے، بالکل بھی نہیں، قطعاً نہیں۔ ادب زندگی کا قرینہ ہے اور رسالت مآب ﷺ نے اس کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی عزت و احترام نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے تو بس اس سے پناہ مانگنی چاہیے اور ہر حال میں اس پر عمل کرنا چاہیے۔ ہر بات ہر ایک کے سامنے نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے بہت مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور اگر کبھی کسی سے کچھ معلوم ہی کرنا ہو تو اس سے تنہائی میں معلوم کرنا چاہیے کہ تخلیے کی بات کو تخلیہ ہی درکار ہے۔ ہمیں خواص کی بستی کے بہ جائے عام لوگوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ ہمیں ہر حال میں رزق حلال پر ہی اکتفا کرنا چاہیے اور کسی بھی حال میں کسی نذرانے کی طلب سے مکمل طور پر دست بردار رہنا چاہیے، ہاں آپ اس وقت کسی سے تحفہ لے سکتے ہیں، لیکن ایک کڑی شرط کے ساتھ کہ آپ بھی انہیں اس طرح کا کوئی تحفہ دے سکیں۔

بابا کے ساتھ رہنا اور ان کی دانش بھری گفت گو سے مجھ جیسے غبی نے زندگی کا اصل جوہر پایا۔ میں سمجھتا تھا کہ روحانیت یہ ہے کہ آپ اپنے مخاطب پر حاوی ہوجائیں اور اس کی زندگی کو کھول کر ایسے بیان کریں کہ وہ نہ صرف شرمندہ ہو بل کہ آپ کا بے دام غلام بن جائے، بدنصیبی تو نہیں کہنا چاہیے کہ اس میں رعایت کا پہلو نکل آئے گا، حماقت و بے وقوفی کہنا چاہیے کہ اب بھی کچھ نوسرباز اسی کو روحانیت کہتے ہیں۔ لیکن بابا نے ہی نے مجھے بتایا کہ روحانیت یہ ہے کہ انسان خود کو بہتر بنا سکے، وہ ہر حال میں شریعت کا پابند ہو، اس کے اندر وسعت ہو، وہ کشادہ دل ہونے کے ساتھ عالی ظرف ہو، اس میں انسانوں کے ساتھ دیگر مخلوقات کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت ہو، وہ ایثار کیش اور ملن سار ہو، اگر کوئی اسے اپنا کوئی راز بتائے یا اسے معلوم ہوجائے تو وہ اسے ہر حال میں پوشیدہ رکھے اور کسی بھی صورت میں اس کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، اسے ایسا ہونا چاہیے۔

جس پر سب لوگ بلا کا اعتماد کریں اور اس سے ذرا سا بھی خوف محسوس نہ کریں، اس کا پہناوا عام لوگوں کی طرح ہو، وہ انتہائی دیانت دار ہو اور کسی بھی طرح کی بددیانتی کا مرتکب نہ ہو، وہ رب کی مخلوق کے لیے رحمت ہو، اور انہیں پر طرح کی زحمت سے نجات دینے کے لیے کوشاں، اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خود کسی پر بوجھ نہ بنے اور رزق حلال کمائے، اور اس سے خود بھی کھائے اور مخلوق کو بھی دے، روحانیت انسان میں احسان کو پروان چڑھاتی ہے اور احسان یہ ہے کہ کسی بھی نادار کو معاشی لحاظ سے اس منزل پر لائے جہاں وہ سب سے بے نیاز ہوجائے۔ وہ ضرور لوگوں کی دل جوئی کا سامان کرے ان کا بھی جو اس کی دل آزاری کا سبب بنے ہوں، وہ کسی بھی حالت میں منتقم نہ ہو ۔

بابا ہی نے مجھے سمجھایا تھا کہ فنا ہونے میں ہی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ گم نامی ایک نعمت ہے اور تشہیر ایک آزمائش تو بس اس سے پناہ مانگنی چاہیے لیکن گم نامی کا مطلب تارک الدنیا ہونا نہیں ہے، بل کہ اسی جگہ رہ کر خود کو بے نام کرنا ہے۔ انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے، ہر دکھ کے ساتھ ایک سکھ اور ہر سکھ کے ساتھ ایک دکھ بندھا ہوتا ہے تو جب دکھ آئے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ایک سکھ بھی تو نتھی ہے اور جب سکھ آئے تو اترانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ اس کے ساتھ ایک دکھ بندھا ہوا ہے۔ بابا خواتین کی بے پناہ عزت و تکریم کرتے تھے اور اس کی تلقین کرتے تھے اور فرماتے تھے عورت ایک غیر معمولی ہستی ہے، رب تعالٰی نے اسے اپنی بہترین تخلیق کو دنیا میں لانے کے لیے منتخب کیا ہے اور یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے، عورت عظیم ہے تو اسے تسلیم کرنا ہی انسانیت ہے۔

بابا کے ساتھ میں ڈھائی سال رہا ہوں اور پھر ایک نئی منزل۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں بعد میں پلٹ کر گیا ہی نہیں، میں ہر سال کچھ دن کے لیے ماں جی اور اپنی بہنوں کے پاس جاتا رہا ہوں، رب تعالٰی نے مجھے یہ سعادت بھی عنایت فرمائی ہے کہ میری چاروں بہنوں کی شادیاں میری رضامندی سے طے ہوئیں اور مجھ جیسے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ایک بھائی کی جو ذمے داری ہوتی ہے وہ ادا کرپایا اور آج بھی جب وہ ملک سے باہر ہیں، میں ان کا پاگل بھائی، ان کی بچوں اور بچیوں کا چہیتا اور اکلوتا ماموں ہوں اور ان کی خوشیوں میں شریک، اور یہ بھی کہ جب ان کی مائیں ان کی کوئی بات نہ مانیں تو وہ میں ان کی ماؤں سے منوا سکتا ہوں اور سنتا ہوں بھائی یہ سب آپ کو پاگل بنا لیتے ہیں اور آپ بھی بن جاتے ہیں، اور میرے اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا کہ میں تو ہوں ہی پاگل، تو یہ مجھے کیا پاگل بنائیں گے تو جی پاگل ہیں الحمدﷲ۔ رب تعالٰی ان سب کو سلامت بہ امان رکھے۔

مائیں کبھی نہیں مرتیں، مر ہی نہیں سکتیں، بس وہ نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی اور پردے میں چلی جاتی ہیں، اور آپ اگر مجھ جیسے کورچشم، سیاہ دل اور سماعت سے محروم نہ ہوں تو وہ آپ کو نظر بھی آسکتی ہیں، آپ ان سے بات کر اور ان کی سن بھی سکتے ہیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مجھ جیسے کور چشم، سیاہ دل اور سماعت سے عاری پر خصوصی عنایت کردیں تب بھی آپ انہیں دیکھ اور سُن سکتے اور اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ ماں جی نے پردہ فرما لیا تھا اور پھر بابا جی بھی وہیں چلے گئے کہ وہ ماں جی کے سنگ رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ لیکن رکیے، ذرا دم لیجیے، عجلت سے گریز کیجیے اور سن لیجیے، میری ساری خامیوں کے باوجود وہ میرے ساتھ ہی ہیں، جی میرے ساتھ، ان سے بات بھی ہوتی ہے اور میں اپنی حماقتوں پر ان سے ڈانٹ بھی سنتا ہوں اور اپنی بات منوا بھی لیتا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا آپ کے! جی بالکل درست فرمایا آپ نے، تو عرض ہے کہ میں عامی آپ کی کیا مدد کرسکتا اور آپ کو سمجھا سکتا ہوں، کسی دانا کے پاس جائیے کہ جس کا منصب سمجھانا ہو اور ان سے سمجھیے ناں۔

بس اب مجھے اگلی منزل کی جانب کوچ کرجانا ہے تو رخصت ہوتا ہوں، اس حیرت کے ساتھ کہ بابا نے مجھے اک دن آئینہ دکھایا تھا اور فرمایا تھا، بیٹا تم تو بالکل ہی بدھو ہو، میں نے ان سے کہا کہ بابا جی وہ تو میں ہوں، لیکن اس میں میرا کیا دوش، لیکن آپ یہ مجھے کیوں کہہ رہے ہیں، تب انہوں نے انکشاف کیا تھا: تم جب پہلی مرتبہ نوچندی کو گئے تھے، اور پھر ہر مرتبہ جاتے رہے اور دریافت کرتے رہے کہ وہ پانچ ہستیاں اندھیرے میں بھی سیاہ چادریں کیوں اوڑھے ہوئے تھیں تو بیٹا وہ پانچ ہستیاں جو وہاں تشریف رکھتی تھیں، تو وہ اس لیے پردہ کیے ہوئے تھے کہ ان میں ایک خاتون بھی تھی۔بس اب مجھ میں سکت نہیں رہی، آنسوؤں کی برسات میں کوئی کیسے لکھ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔