کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 20 جنوری 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

’’دیہاتی لڑکی‘‘


سچی بات پہ جھوٹی قسمیں کھاتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
ہنستی ہے تو گال بھنور دکھلاتے ہیں
دائیں ہونٹ پہ تِل ہے، اور شرماتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
کل تک جس کی یار، گلابی اردو تھی
انگلش بول کے خود پہ ہے اتراتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
بھاگے دوڑے، تتلی پکڑے، بوسہ دے
غصہ کرتی، پھولوں پر چِلاتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
آ جائے نہ یار کسی کے جھانسے میں
ایک تو بھولی، اوپر سے جذباتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
اس کی ہر ہر بات میں بچپن بستا ہے
گود میں لے کر گڑیا کو سمجھاتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
اب تک اس میں، گاؤں کی عادت باقی ہے
بیچ سڑک پر سَر کو ہے کھجلاتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
لاکھ ہنسے پر، روگ تو ظاہر ہوتے ہیں
ذرا سی آہٹ پر جو ہے گھبراتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
(اویس ویسیؔ، زیارت معصوم ، ایبٹ آباد)

۔۔۔

غزل


سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے
اپنے اشکوں سے ترا دامن بھگونا چاہیے
زندگی کی راہ پر کیسے اکیلے ہم چلیں
اس سفر میں ہمسفر کوئی تو ہونا چاہیے
دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے
بچہ روتا ہے مگر روتا ہے وہ تقدیر پر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے
اجنبی بستر یہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحِ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے
(صبیح الدین شعیبی، کراچی)

۔۔۔
غزل


اِدھر جو شخص بھی آیا اُسے جواب ہوا
کوئی نہیں جو محبت میں کام یاب ہوا
وہ خوش نصیب ہیں جن کو خدا کی ذات ملی
ہمیں اک آدمی مشکل سے دستیاب ہوا
بالآخر آگ دھواں ہو گئی محبت کی
کسی کے ساتھ جو دیکھا تھا خواب، خواب ہوا
تمہارے سامنے کس کو مجال بولنے کی
تمہارے سامنے ہر شخص لاجواب ہوا
ہمارے سامنے بچے زباں دراز ہوئے
ہمارے سامنے ذرہ بھی آفتاب ہوا
مرے اثاثوں میں خواب اور حسرتیں نکلیں
کبیرؔ عشق میں میرا بھی اِحتساب ہوا
کبیر ہو گئے برباد ہم کو ہونا تھا
تمہیں یہ پوچھے کوئی تم کو کیا ثواب ہوا
(انعام کبیر، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


اسی لیے ہی ہماری قسمت ڈری ہوئی ہے
ہمارے ماتھے پہ تیری ٹھوکر پڑی ہوئی ہے
ہمیں محبت کے حادثوں سے ڈرا رہی ہے
ہمارے ہاتھوں میں کھیلتے جو بڑی ہوئی ہے
سیہ نصیبی ہمیں وراثت میں دی گئی تھی
ہمارے آگے جو رستہ روکے کھڑی ہوئی ہے
ہمارے چاروں طرف دیوزاد آ کھڑے ہیں
ہمارے حق میں جو اک پری تھی، مری ہوئی ہے
مجھے کسی کی جھلک نے باندھا ہوا ہے حمزہؔ
وہ جسم میرے پہ آنکھ بن کے گڑی ہوئی ہے
(حمزہ ظفر، پھلروان، سرگودھا)

۔۔۔
غزل


تمہیں جب دیکھتا ہوں تو نظارے بھول جاتا ہوں
گگن ہو یا مہ و انجم میں سارے بھول جاتا ہوں
تعجب ہے کہ میں نے جب تری آنکھوں میں جھانکا ہے
فلک پر ٹمٹماتے سب ستارے بھول جاتا ہوں
چمن ہوں یا بہاریں ہوں ہوائیں ہوں کہ خوشبوئیں
نظارہ جب بھی تیرا ہو میں سارے بھول جاتا ہوں
محبت میں یہ دھوکے کھاتے میرا دل نہیں بھرتا
نجانے کس لیے پچھلے خسارے بھول جاتا ہوں
وقاصؔ ان جھیل آنکھوں میں دیا روشن جو دیکھوں تو
میں ظلمت میں زمانے جو گزارے بھول جاتا ہوں
(محمد وقاص، پہاڑپور)

۔۔۔
’’دِقّت‘‘
پہلے پہلے تو
پتھر کے ٹکڑوں پہ میں
ایک نوکیلے خنجر کو تھامے ترا نام لکھنے کی چاہت میں
ربّ جانے کیا کیا بناتا رہا
کیسی شکلیں بنائیں
کہ خود ان کو پڑھنے سے
قاصر ہوں میں
پر متاثر ہوں میں
اپنے اندر چھپے اس کلاکار سے
جس نے شکلیں بنائی ہیں ایسی
کہ دنیا ابھی تک پریشان ہے
اور حیران ہے
کہ خدا جانے کس نے
یہ کس کے لیے کیا لکھا ہے بھلا…
اور میں منتظر ہوں
تو بس…
چند لفظوں کے ایجاد کا
لفظ ایجاد ہو
تو ترا نام لکھنے میں دقّت نہ ہو
(شبیر احرام، کراچی)
غزل
ربط اُس کو بہت ملال سے ہے
ایک لڑکی جو ساہیوال سے ہے
پیار میرے سخن سے کرتی ہے
عشق اُس کو مرے خیال سے ہے
لیکن ایسے کہ خواب ہو جیسے
ساتھ میرے وہ ماہ و سال سے ہے
اب پریشاں ہوں کیا کروں اِس کا
پھول توڑا جو ایک ڈال سے ہے
ہاتھ مرہم ہیں اس طبیبہ کے
موت زخموں کے اندمال سے ہے
سچ سمجھتا ہوں سچ ہی سمجھوں گا
جھوٹ بولا جو اس کمال سے ہے
حُسن اپنا ہو یا پرایا ہو
چیز کوئی بھی دیکھ بھال سے ہے
(ڈاکٹر فخر عباس، لاہور)
غزل
غم ہیں کھانے کو اَشک پینے کو
اور کیا چاہیے ہے جینے کو
اپنے دامن کو ساتھ رکھتا ہوں
پُھول چُننے کو، خار سینے کو
کیا سجائے ہیں زخم سینے میں
داد دیتا ہے دل قرینے کو
ساتھ ہوتی ہیں رحمتیں رب کی
لوگ جاتے ہیں جب مدینے کو
ختم کر دوں گا اپنی چاہت سے
تیری نفرت کو، تیرے کینے کو
پتھروں کا شہر ہے ڈرتا ہوں
گھر میں رکھتا ہوں آبگینے کو
اب بھروسہ ہے ناخدا سے ہی
پار لے جائے گا سفینے کو
دھوم اس کی ہے شہر میں بزمیؔ
لوگ تکتے ہیں اس نگینے کو
(شبیر بزمی، لاہور)

۔۔۔
’’مطلب۔۔۔‘‘


تم کہاں یہ جانو گے
صحراؤں کے سینے پر
آندھیوں کی نیندوں کی
سلوٹیں بھی ہوتی ہیں
خواہشیں بھی ہوتی ہیں
کروٹیں بھی ہوتی ہیں
تم کہاں یہ سمجھو گے
روح کے مقدر میں
جسم کی قبا کیوں ہے
سر پہ بادباں کیوں ہے
اتنی چپ ہوا کیوں ہے
تم کہاں یہ مانو گے
دھوپ کے تعاقب میں
وقت ڈھل بھی جاتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں
پاؤں جل بھی جاتے ہیں
تم کہاں یہ سوچو گے
شام کے پنپتے ہی
پنچھیوں کے ڈاروں کی
واپسی کا کیا مطلب؟
بے بسی کا کیا مطلب ؟
خاموشی کا کیا مطلب؟
(محمد احمد لنگاہ، عارف والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل


سفر کٹھن ہے تو آہیں بھروں! بھروں نہ بھروں
میں اپنی سمت معین کروں ! کروں نہ کروں
سرکتا جانے لگا ساتھ ساتھ سورج کے
میں اپنے سائے سے بھی اب ڈروں؟ ڈروں نہ ڈروں
میں اختتامِ محبت کا داعی ہو جاؤں؟
شروعِ ہجر مکمل کروں! کروں نہ کروں
تری جبیں پہ سجوں بن کے میں کوئی ٹیکا
یہ تیرا حسن مقفل کروں، کروں نہ کروں
ہراک طرف سے مجھے میری ہار دکھتی ہے
میں تجھ سے جنگ کی ہامی بھروں، بھروں نہ بھروں
(عارف نظیر، کراچی)

۔۔۔
’’ تحفہ‘‘


اب جب تم پردیس کو جانا
سنو کہ لوٹ کے جلدی آنا
دیکھو وعدہ کر کے جانا
اور میری فرمائش سن لو
جانے سے پہلے تم جاناں
اپنی یادوں کی خوش بُو اور
مہکی مہکی بہت سی شامیں
مجھ کو تحفہ دیتے جانا
جانے کب تم لوٹ کے آؤ
کسے خبر، یہ کس نے جانا
دیکھو وعدہ کر کے جانا
اب جب تم پردیس کو جانا
(نادیہ حسین، کراچی)

۔۔۔
’’کڑوا سچ‘‘


سنو ہم تم ہیولے تھے
ہیولوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی!
ہمارے جسم فکریں کھا گئیں
اندوہ سے لتھڑے بگولوں نے
نگاہوں میں رمق بھر روشنائی بھی نہیں چھوڑی
ہمارے خوابیے تعبیر کے کل کی تمنا میں
مقدر کی غذا ٹھہرے!
سو لازم ہے کہ ہم ماتم کا نم اوڑھیں
صدائیں گُل کریں
خاموشیاں پہنیں!
(عبدالرحمان واصف، کہوٹہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔