صوابدیدی فنڈزکیس؛پرویزاشرف کے دورمیں پی پی اور اتحادیوں کو 37 ارب روپےملے، ڈی جی آڈٹ

ویب ڈیسک  بدھ 17 جولائی 2013
 ق لیگ کو 7 ارب 80 کروڑ، ایم کیو ایم کو 1 ارب 90 کروڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کو 1 ارب 70 کروڑ روپے دیئے گئے، ڈی جی آڈٹ. فوٹو: فائل

ق لیگ کو 7 ارب 80 کروڑ، ایم کیو ایم کو 1 ارب 90 کروڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کو 1 ارب 70 کروڑ روپے دیئے گئے، ڈی جی آڈٹ. فوٹو: فائل

اسلام آ باد: سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر ڈی جی آڈٹ نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے فنڈ سے 37 ارب روپے سے زائد رقم پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو فراہم کی گئی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ترقیاتی فنڈزکے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی فنڈز اور سرکاری خزانہ میں پڑی رقم عوام کی ملکیت ہوتی ہے ،مجموعی فنڈز سے کوئی بھی رقم قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر نہیں نکلوائی جا سکتی، انہوں نے کہا کہ گذشتہ دور حکومت کے بجٹ میں وزیراعظم کا صوابدیدی ترقیاتی فنڈ بائیس ارب روپے رکھا گیا تھا تاہم بعد میں یہ رقم بڑھ کر 52 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

ڈی جی آڈٹ ملک منظور نے عدالت بتایا کہ سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے فنڈ سے 37 ارب پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کو ملے،  فنڈ کی تقسیم میں منصوبہ بندی کمیشن کی گائیڈ لائن کی پیروی نہیں کی گئی، انہوں نے بتایا کہ  مسلم لیگ (ق) کو 7 ارب 80 کروڑ، ایم کیو ایم کو 1 ارب 90 کروڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کو 1 ارب 70 کروڑ روپے دیئے گئے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ صوابدیدی اختیارات کو ایک نظام کے تحت استعمال کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے جبکہ  سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے وقت ان فیصلوں کو مد نظر نہیں رکھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی فنڈز کا پیسہ کابینہ ڈویژن کے کھاتے میں منظور کرایا گیا، کیا کابینہ ڈویژن کا یہی کام رہ گیا ہے، کل کو وزارت قانون سے کوئی کہہ دے گا کہ وہ یہ کام کرے، انہوں نے کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت ترقیاتی کام کابینہ ڈویژن کی ذمہ داری نہیں، اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں بلدیاتی امور صوبوں کو منتقل کئے جا چکے ہیں، وفاقی حکومت صوبوں کو دل سے تسلیم کر کے ان پر اعتماد کرے اور یہ معاملہ ان پر چھوڑ دے۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔