طالبان رہنما کی ملالہ کو پاکستان واپسی اور مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی دعوت

طاہر خان  بدھ 17 جولائی 2013
خط میں عدنان نے ملالہ کو نصیحت کی کہ وہ سوات آ کر مدرسے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

خط میں عدنان نے ملالہ کو نصیحت کی کہ وہ سوات آ کر مدرسے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

اسلام آباد: طالبان کے رہنما عدنان راشد نے ملالہ یوسف زئی کو پاکستان واپس آ کر مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔

ملالہ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں تاریخی خطاب کے ایک دن بعد عدنان نے ملالہ کو خط تحریر کیا جس میں انہوں نے ملالہ کو سوات واپس آ کر اسلام اور پشتون کلچر اختیار کرنے اور ساتھ ہی خواتین کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت کی۔

عدنان راشد کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ خط ملالہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ زاتی حیثیت پر لکھا ہے۔ خط میں عدنان نے ملالہ کو سوات آ کر مدرسے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے قلم کو اسلام کی خدمت کے لئے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مصائب اور مشکلات کو دنیا کے سامنے لائیں اور چند عالمی طاقتوں کی جانب سے اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے انسانیت کے خلاف رچائی جانے والی سازشوں کا پردہ چاک کریں۔

عدنان راشد نے اپنے خط میں ملالہ سے کہا ہے کہ  طالبان نے ان پر حملہ اسکول جانے یا ان کی تعلیم سے محبت کے خلاف ہو کر نہیں بلکہ جان بوجھ کر طالبان کے خلاف لکھنے اور سوات میں طالبان کی جانب سے شرعی نظام کے نفاذ کے خلاف ایک مہم چلانے کی وجہ سے کیا، انہوں نے مزید کہا کہ طالبان مردوں اور خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ حق میں ہیں۔

عدنان راشد نے خط میں تحریر کیا کہ پاکستان میں اسکولوں اور کالجوں کو تباہ کرنے والے صرف طالبان ہی نہیں بلکہ پاک افواج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی اس میں برابر کی ذمہ دار ہیں۔

واضح رہے کہ عدنان راشد سابق صدر پرویز مشرف پر حملے میں مجرم ثابت ہو چکا ہے اور گزشتہ سال اپریل میں بنوں جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، عدنان راشد کی ویڈیوز اکثر میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آتی رہی ہیں اور ان کی حالیہ ویڈیو میں انہیں طالبان جنگجوؤں کو سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کی تربیت دیتے دکھایا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔