کچھ چہل قدمی، کچھ تیزگامی اور پھر موٹاپے سمیت مختلف مسائل سے پائیں نجات

شاہدہ ریحانہ  جمعرات 23 اگست 2012
چہل قدمی کرنے کے دوران نظام دوران خون جسم کے اندرونی نظام تک پھیل جاتا ہے. (فوٹو : ایکسپریس)

چہل قدمی کرنے کے دوران نظام دوران خون جسم کے اندرونی نظام تک پھیل جاتا ہے. (فوٹو : ایکسپریس)

یہ بات تجربات کے ذریعے ثابت ہوچکی ہے کہ جو لوگ پر تعیش اور آرام دہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنے بیشتر کام مشینوں کے سہارے کرتے ہیں اور پیدل بالکل نہیں چلتے وہ اکثر و بیشتر بیماریوں اور پیچیدہ قسم کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، جب کہ پرمشقت اور جسمانی طور پر مصروف زندگی گزارنے والے اوسط درجے یا زیادہ پیدل چلنے والے افراد دل کی بیماریوں، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ سے تو محفوظ رہتے ہی ہیں، بلکہ ماہرین کے مطابق
ان کی عمر میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
تحقیق کے بعد بہت سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چہل قدمی یا تیز قدموں سے روزانہ آدھے پونے گھنٹے چلنے کا معمول اپنا کر ہم نہ صرف اپنی زندگی میں خوش گوار تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ محققین خاص طور پر خواتین کو موٹاپے سے بچنے اور مشکل ورزشوں سے نجات کے لیے صرف اور صرف چہل قدمی اور تیز قدمی کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ’’جم‘‘ کی بھاری بھاری فیسوں اور بھاری مشینوں کا بوجھ ڈھونے کے بجائے روزانہ بلا معاوضہ صرف آدھے گھنٹے چہل قدمی اور پندرہ منٹ تیز قدمی کر لیں تو وقت ، صحت اور پیسے کی بچت بونس ہوگی۔
یہی نہیں بلکہ چہل قدمی سے دل اور پھیپھڑے فعال ہو جاتے ہیں۔ خون رگوں میں تیزی سے گردش کرتا ہے، جس کی وجہ سے رگوں میں چکنائی کو جمنے کا موقع نہیں ملتا۔ چہل قدمی ذہنی دبائو کو دور کرتی ہے اور طبیعت ہلکی کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صبح سویرے یا شام کو ٹہل قدمی سے واپسی کے بعد خود کو ہلکا پھلکا اور تازہ دم محسوس کرتے ہیں۔ چہل قدمی سے بہت زیادہ توانائی بھی خرچ نہیں ہوتی۔ چہل قدمی کی عادت کو اپنانے سے بڑھاپے میں اوسیٹوپروسس کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔ چہل قدمی ایک سیدھی سادی ورزش ہے، جسے ہر عمر کی خواتین بہ آسانی اپنا سکتی ہیں۔ اس کے لیے نہ آپ کو کسی ٹرینر کی ضرورت ہے نہ ڈاکٹر کی۔ البتہ مضبوط اور آرام دہ جوتوں کی ضرورت ضرور پڑے گی اور بس۔
چہل قدمی آپ گھر کے صحن، چھت، لان، برآمدے کے علاوہ فٹ پاتھ، سڑک کے کنارے، باغ ، پارک وغیرہ میں کر سکتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہوگی کہ پارک یا باغ میں ننگے پیر گھاس پر چہل قدمی کریں۔ پارک یا باغ میں چہل قدمی کرنے سے آپ کو زیادہ سے آکسیجن ملے گی، جو کہ خون کو صاف کرنے میں مدد دے گی روزانہ چہل قدمی کرنے سے پیٹھ اور کمر کا درد بھی ختم ہوجاتا ہے۔ ورزش کے ماہرین خواتین کو درپیش کمر اور اس سے نچلے حصے کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے خاص طور پر چہل قدمی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ خواتین کی فٹنس، کے لیے چہل قدمی بہترین تھراپی ہے۔ چہل قدمی سے سانس کی نالیوں کے پٹھوں کو طاقت ملتی ہے اور نظام تنفس بہتر ہوجاتا ہے۔ چہل قدمی خواتین کے پچھلے حصے میں موجود پٹھوں کے لیے بہترین ورزش ہے۔ اس کے علاوہ اس سے پیروں، جسم کے اوپری حصے اور پیڑو کے آس پاس موجود مسلز کی قوت برداشت بھی بڑھ جاتی ہے۔
چہل قدمی سے دماغ کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ چہل قدمی سے بلند فشار خون کی سطح نیچے آجاتی ہے، جس سے جسم دباؤ اور تناؤ سے نمٹ لیتا ہے۔ چہل قدمی کے ذریعے خواتین ’’HDL ‘‘ (کولیسٹرول کی ایک قسم) کو قابو میں رکھ سکتی ہیں، جو دل کے کئی امراض کا باعث بنتا ہے۔
چہل قدمی سے انسانی جسم پُرسکون ہوجاتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ہمارے پیر کے تلووں میں کچھ خاص حصے ہوتے ہیں، جن پر چہل قدمی کے دوران جب دباؤ پڑتا ہے، جو جسم کو آرام ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دباؤ سے جسم کے دیگر حصوں مثلاً جگر، پیٹ، گردے ، بڑی آنت ، چھوٹی آنت، مثانہ وغیرہ کے غدودوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ موٹی خواتین اگر متوازن غذا کے ساتھ صرف چہل قدمی ہی کریں تو بھی ان کے وزن میں کمی ہوجائے گی ۔ جیسے جیسے آپ چہل قدمی کی عادی ہوتی جائیں ، اپنی رفتار بڑھاتی جائیں۔ اس کے نتیجے میں آپ کی کیلوریز زیادہ سے زیادہ جلیں گی اور آپ خود کو تازہ دم محسوس کریں گی۔ بہت جلد آپ کو دیگر مثبت تبدیلیوں کا بھی احساس ہوگا۔
حاملہ خواتین خواتین وضع حمل کے بعد جسم کو متناسب بنانے کے لیے چہل قدمی کریں۔ چہل قدمی یوں تو آپ کسی بھی وقت کر سکتی ہیں، مگر صبح و شام کو کی گئی چہل قدمی کے زیادہ بہتر نتائج دیکھے گئے،کیوں کہ عموماً اس وقت آپ کا معدہ خالی اور موسم معتدل ہوتا ہے، جس کے باعث آپ کے ’’انڈورفین‘‘ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا ہارمون ہے جو ہمیں سب کچھ ٹھیک ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
وہ خواتین جو دفتری مصروفیات کے باعث وزرش نہیں کر سکتیں اور نہ ہی بس اسٹاپ تک پیدل چل کر جا سکتی ہیں، ان کو چاہیے کہ اپنے دفتر کے کمرے ہی میں ابتداء میں ہلکے ہلکے اور پھر تیز تیز چکر لگائیں۔ پہلے دن پانچ اور پھر بہ تدریج اس میں اضافہ کرتی جائیں۔ دن میں پندرہ منٹ ضرور چہل قدمی کریں۔ رات کے کھانے کے بعد اتنی دیر کی چہل قدمی آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور اگر آفس سے بس اسٹاپ تک تیز تیز قدموں سے چل کر جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 60 برس کی عمر کے بعد روزانہ پیدل چلنے کی ورزش بڑھاپے سے پیدا ہونے والی بیش تر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خاص طور پر یادداشت کھو جانے والی بیماریوں میں چہل قدمی نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چہل قدمی کے ایک سو ایک فوائد ہیں اور نقصانات صفر۔ ان میں سے کچھ فوائد یہ ہیں:
چہل قدمی کرنے سے جسم کے تقریباً تمام اعضاء حرکت میں آجاتے ہیں۔
چہل قدمی کرنے کے دوران نظام دوران خون جسم کے اندرونی نظام تک پھیل جاتا ہے جو ہمارے جسم کے لیے بے حد موثر اور مفید ہے۔
چہل قدمی میں کبھی ہلکے اور کبھی تیز چلنے سے ہماری رگیں اور پٹھے مسلسل حرکت میں رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی بھی ورزش ہوتی رہتی ہے۔
تیز تیز چہل قدمی کرنے سے دل کی پمپنگ زیادہ بھرپور طریقے سے ہوتی ہے اور جسم کا فاضل کولسیٹرول خرچ ہوجاتا ہے۔
تیز چلنے سے پھیپھڑے تیزی سے کام کرتے ہیں، جس سے سانس لینے اور چھوڑنے کا عمل بہتر ہوجاتا ہے۔ پھیپھڑے صاف، ذہن فریش اور پرسکون ہوتا ہے اور قوت فیصلہ میں اضافہ ہوتا ہے۔
چہل قدمی ویسے تو آپ کسی بھی وقت کر سکتے ہیں، مگر رات کے کھانے کے بعد کرنے سے آپ کو ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کھانا جلد ہضم ہوتا ہے۔ یہی نہیں ہمارا نظام ہضم مستقل طور پر درست ہوجاتا ہے۔ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرنے سے ہمارا معدہ خوراک کو تیزی سے جذب کرلیتا ہے اور خوراک معدہ پر بھاری پن پیدا نہیں کرتی اور یوں غذا ہضم ہوجانے کے بعد رات کو بھرپور نیند آتی ہے اور ہم صبح کے وقت تازہ دم حالت میں اُٹھتے ہیں۔
دل کے معالجین اپنے مریضوں کو پیدل چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پیدل چلنے کے دوران کبھی ہمارے قدم تیز ہوجاتے ہیں اور کبھی سست، جس سے دل تیزی سے دھڑکتا ہے، دوران خون تیز ہوتا ہے اور پسینہ بہتا ہے۔ اس تمام عمل کے باعث کولیسٹرول کی سطح کم ہوتی ہے۔ خراب خون صاف ہوتا ہے اور دماغ کو صاف و تازہ خون میسر آنے کے باعث دماغ کی کارکردگی بڑھتی ہے، کیوں کہ صاف و تازہ خون دماغ کو پرسکون رکھتا ہے۔ دل کی طرح ذیابیطس کے معالجین بھی اپنے مریضوں کو چہل قدمی کا مشورہ دیتے ہیں، جس سے ان کی بیماری میں افاقہ ہوتا ہے اور وہ چاق و چوبند رہتے ہیں۔ یہ ورزش ایسی ہے جو صحت مند اور بیمار دونوں بہ آسانی کر سکتے ہیں۔
چہل قدمی کے مزید فوائد پر بات کرنے سے پہلے ہم خواتین کی یہ غلط فہمی دور کردینا چاہتے ہیں کہ جو یہ کہتی ہیں کہ گھر کا کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال ہی ان کی سب سے بڑی ورزش ہے۔ یہ سوچ درست نہیں۔ ورزش یا چہل قدمی تب ہی اثر کرتی ہے جب یہ ترتیب میں ہو۔
ٹہلنے یا سست روی سے چلنے کو چہل قدمی یا پیدل چلنا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ چہل قدمی کا مطلب ہے کہ آپ چہل قدمی سے شروع کریں اور ایک مخصوص چال کے ساتھ نپے تلے قدموں سے اضافہ کیا جائے اور تیز رفتاری کا خاص طور پر خیال رکھا جائے تو یقیناً متوقع نتائج حاصل ہوں گے۔
ٹہلتے ہوئے گپ شپ کرتے رہنا مونگ پھلی، پاپ کارن، ڈرنکس وغیرہ کا بے دریغ استعمال کرنا یا چھالیہ، سونف، سپاری، سگریٹ پان کا استعمال کرنا، آپ کو ہرگز چہل قدمی کے فوائد نہیں دے گا۔ جو لوگ وقت گزاری کے لیے یا بجلی کی بندش سے پیدا ہونے والی گرمی اور حبس سے بچنے کے لیے گپ شپ کرتے ہوئے تیز رفتاری کے بجائے ٹہلتے ہوئے یا صرف ایک مخصوص رفتار سے چلتے ہیں (خواہ روزانہ ہی یہ عمل کریں) انھیں اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ بے وقت، بے ترتیب چال اور کھانا پینا الٹا ان کا وزن مزید بڑھا دیتا ہے یا انھیں تھکا دیتا ہے سست رفتاری سے چلنے، ٹہلنے سے وہ بجائے فریشنس محسوس کرنے کے تھکن اور کمر درد یا پنڈلیوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔
ذہنی جسمانی سکون و آرام، اسمارٹنس اور صحت مند سڈول جسم کے لیے چہل قدمی سے تیز قدمی کی طرف جانا ہوگا۔ یاد رکھیں دن رات کے 24 گھنٹوں میں دماغ جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو آرام نہیں کرتا۔ دماغ کو آرام کی ضرورت ہے اور اسے یہ آرام صحت مند طرز زندگی سے ملتا ہے۔ پیدل چلنے یا تیز قدمی کا عمل ہمارے دماغ کو آرام دینے کا سب سے آسان، آرام دہ اور سستا طریقہ ہے۔ پیدل چلنے سے ہمارے دل، دماغ، پھیپھڑوں، نظامِِ ہضم، خون کی روانی اور نظامِ تنفس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر چہل قدمی کسی سرسبز مقام پر، جیسے پارک یا باغ میں کی جائے، تو آنکھوں کو تازہ صاف ستھری ہوا اور سبزہ قوت عطا کرتا ہے۔ مزاج پر بھی اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یادداشت بھی تیز ہوتی ہے۔
تو پھر آج ہی سے واک پر جائیے، مگر یاد رکھیے کہ واک کا مطلب ٹہلنا نہیں، بلکہ تیز چلنا اور پھر کچھ دیر کے لیے بھاگنا ہے یا پھر تیز تیز چلنا ہے۔ n

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔