ہماری مہمان داری اور شناسی

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 19 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک بات ایک واقعے سے نہ جانے کتنی باتیں اور واقعات ایک نظارے سے نہ جانے کتنے نظارے اور ایک تماشے سے نہ جانے کتنے تماشے یاد آجاتے ہیں یہ جو گزشتہ دنوں امارات کے شہزادہ عالی وقار اور ولی عہد نامدار کا بے مثل و بے مثال مرقع حسن وجمال اور فقیدالمثال استقبال ہوا اس سے جی اتنا خوش ہوا کہ ہمیں ایک پرانے زمانے کا گیت یاد آگیا بلکہ گنگنانے بھی لگے یہ گیت ہماری جوانی کے زمانے کا بیسٹ سیلر ہوا کرتا تھا

گلونہ روڑہ لہ گلزارہ زما اشنا رازی

د خاپیرو د باغ مالیارہ زما اشنا رازی

ترجمہ میں وہ بات تو پیدا نہیں ہوسکتی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اندازہ ہوجاتاہے کم ازکم اس جوش وجذبے اور محبت وعقیدت کا پتہ تو لگ ہی جاتاہے جو محبوب کو محبوب سے ہوتاہے ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ’’اے پریوں کے باغ کے مالی، چن چن کر اپنے باغ کے پھول لے کر آجاؤ۔میرا محبوب آ رہا ہے۔آگے گیت میں اور بھی بہت کچھ ہے پلکیں بچھانا، پلکوں سے جھاڑو مارنا اور گردوغبار جو آنسوؤں سے چھڑکنا وغیرہ یعنی

بازکش یک دم عناں اے ترک شہرآشوب من

تا زا شک و چہرہ راہت پر زدر گوہر کنم

یعنی اے میرے ترک شہر آشوب۔۔ذرا دیر کو تھم جا۔تاکہ میں تمہارے راستے پر آنکھوں کے گوہر نثار کردوں۔

ولی عہد مکرم عقیدت مجسم اور سراپا کرم ہی کرم کے استقبال کے مناظر اور تفصیلات ہم نے دیکھے بلکہ پڑھے تو جی خوش ہوگیا۔اور بہت کچھ یاد آتا چلا گیا گویا دبستان کھل گیا

بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ

لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر

خاص طور پر وزیراعظم جناب عمران خان نے یہ مہمان محترم کی سواری باد بہاری کو بہ نفس نفیس ڈرائیو کیا اس نے تو اس تقریب خاص کو آٹھ آٹھ چاند لگا دیے جہاں میں اس کے چرچے ہیں ہر طرف پرچے ہی پرچے ہیں اور دشمنوں کے دل میں لگے برچھے ہیں۔

ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی کہ ہم اگرچہ نحیف ونزار ہیں خستہ وخوار ہیں اور زمانے بھر کے قرض دار ہیں لیکن اپنی روایات نہیں بھولے ہیں، ہماری مہمان شناسی مردم شناسی اور فرض شناسی بلکہ ہر قسم’’شناسی‘‘ ابھی تک باقی ہے اور وضع داری قائم ہے جلنے والے جلا کریں

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

ہم اپنے بزرگوں  کے امین ہیں بلکہ صادق بھی ہیں اور عاشق بھی اور اپنے مہمانوں کو ’’ماں‘‘ کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں نہ کہ بیوی کی نگاہوں سے اور یہ بات تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ آدمی جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو ’’،ماں‘‘ اس کے چہرے کو دیکھتی ہے کہ کہیں غم کی گردوغبار تو اس کے چہرے پر نہیں پڑی ہے جب کہ بیوی اس کے ہاتھوں اور بغلوں کو دیکھتی ہے کہ موا کچھ لایاہے یا خالی خولی لٹھا آیا ہے؟

ہمارا رویہ بھی مہمان کے ساتھ ماں والا ہے بیوی والا نہیں یہ بات ہر کوئی نوٹ کرے ہاں اگر کچھ لاتاہے تو اس کا دل رکھنا بھی میزبانی کے آداب میں شامل ہے اب یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ ہمارے لیے کچھ تحفہ تحائف لائے اور ہم اسے قبول نہ کرکے اس کا دل توڑدیں۔اس سلسلے میں بھی ہم اپنی روایات رکھتے ہیں۔وہ کہانی تقریباً ہر بادشاہ کے ساتھ ان کے مداحوں نے بیان کی ہوئی ہے جس میں ایک دیہاتی بادشاہ کے لیے ایک خربوزہ بطور تحفہ لایا تھا اور بادشاہ نے وہ خربوزہ سارے کا سارا خود کھالیا درباریوں کو ایک بھی قاش نہیں دی۔حالانکہ اس سے پہلے جو بھی سوغات …

اس استقبال میں سب سے نیا اور قابل ذکر آئٹم یہ تھا کہ وزیراعظم نے خود بہ نفس نفیس اس گاڑی کو ڈرائیو کیا جس میں مہمان خصوصی تشریف فرماتھے اور اس بات نے سارے عالم میں ہمارے وزیراعظم کے چرچے کردیے جس کے ہر طرف پرچے ہی پرچے نکل رہے ہیں۔ کسی کو یہ معمولی بات لگتی ہے تو وہ خود معمولی ہے، اس بات کی اتنی بڑی اہمیت ہے کہ اسے تاریخ عالم میں مقام ملنا چاہیے وہ بھی نمایاں اور جلی حروف میں۔

کودا ترے گھر میں کوئی یوں دم سے نہ ہوگا

جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا

سچ پوچھیے تو وزیراعظم کی اس ’’ادا‘‘ نے ہم کو ان کے منکرین میں سے نکال کر طرف داروں بلکہ عقیدت مندوں میں شامل کردیا۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات نظر آتی ہے لیکن سوچیے تو بہت بڑی بات ہے، اس سے ایک طرف یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمارے وزیراعظم کتنے خاکسار طبع ہیں اور مہمان شناسی میں سب سے بڑھ کر ہیں دوسری بات یہ کہ وہ اپنے عوام کے لیے اپنے ملک کے لیے کیاکیا کچھ کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں

ہم نے کیاکیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا

صبر ایوب کیا گریۂ یعقوب کیا

تیسرا فائدہ جو سب سے بڑا ہے اور ہمارے خیال میں اہل پاکستان کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتاہے یہ ہے کہ دنیاوالوں کو لگ پتہ گیا ہوگا کہ ہم مہمانوں کے لیے کیاکچھ کرتے ہیں چنانچہ محترم شہزادے اور ولی عہد امارات مجموعہ صفات اور حاصل فیوض وبرکات کے اس استقبال بے مثال سے ’’اوروں‘‘ کے دلوں میں ’’کچھ کچھ‘‘ ہونے لگے گا اور وہ چاہیں گے کہ آئیں اور ہمارے اس جذبہ مہمان نوازی سے فائدہ اٹھائیں چشم روشن کریں اور دل شاد کریں۔

اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مہمان جب آتا ہے تو اپنے ساتھ’’برکات‘‘ بھی لاتاہے اسی لیے تو پڑوسی ملک میں کہاجاتاہے کہ’’اتتی دیوابھوا‘‘ مہمان کی آمد دیوتا یا مہمان دیوتا سمان ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پشتو میں بھی ’’مہمان‘‘ کے فیوض وبرکات کا عقیدہ بڑا پکا ہے کہ مہمان نہ صرف اپنا رزق ساتھ لاتا ہے بلکہ جس گھر میں مہمان آتے ہیں وہاں پھر رحمتوں اور نعمتوں کا بھی نزول ہوتا ہے۔

مہمان کے سلسلے میں سائیں کبیرداس کا ایک واقعہ بھی اکثر بیان کیاجاتاہے۔روایت کے مطابق اس کے گھر میں ایک مہمان آیا تو گھر میں کچھ نہ تھا سائیں کبیر نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے تو کوئی قرض بھی نہیں دیتا لیکن تم نے کہاتھا کہ فلاں دکاندار تم پر کچھ’’مہربانی‘‘ کی نظر رکھتاہے، تم جاؤ اور اس سے کچھ لے کر آؤ تاکہ مہمان کی تواضع ہوسکے ۔بیوی گئی تو دکاندار نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں صرف اس شرط پر کچھ دوں گا کہ تم رات کو میرے پاس آؤگی۔ عورت نے حالات کے مدنظر مجبوری میں ہاں کردی۔ بیوی نے سامان کے ساتھ یہ بات بھی شوہر کو بتائی۔ مہمان رخصت کرنے کے بعد وعدے اور زبان کا پاس بھی بہت ضروری تھا۔

اس وقت شدید بارش ہورہی تھی اور عورت جب ہندو دکاندار کے پاس پہنچ گئی تو دکاندار نے دیکھا کہ نہ وہ بھیگی ہوئی ہے نہ پاؤں کو کیچڑ یا پانی لگا ہے۔ دکاندار کے پوچھنے پر عورت نے بتایا کہ میرا شوہر خود اپنی پیٹھ پر بٹھا کر مجھ کو یہاں تک لایا ہے کیونکہ وعدہ اور زبان کا پاس رکھنا لازم تھا ہندو بنیا اتنا متاثر ہوگیا کہ اسی وقت توبہ تائب ہوکر مسلمان ہوگیا۔

اس کہانی کے سچ یا جھوٹ ہونے یا اس کے پہلوؤں پر بحث کرنے سے دامن بچاتے ہوئے ہم اس بات پر زور دیں گے کہ مہمان کی تواضع کے لیے کہاں کہاں تک جانے کی مثالیں موجود ہیں۔

حرف آخر یہ کہ دنیا کو جب ہماری اس صفت کے بارے میں پتہ چلے گا بلکہ اب تک چل گیا ہوگا تو کسی کا دل نہیں چاہے گا کہ ہمارا مہمان بنے اور پھر خاص طور پر عرب لوگ تو ’’مہمان داری‘‘ کے سارے اسرار ورموز سے واقف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔