تزکیہ نفس یا جیبیں بھرنے کا مہینہ؟

رئیس فاطمہ  بدھ 17 جولائی 2013

رمضان آگیا۔۔۔!!۔۔۔کہتے ہیں کہ یہ برکتوں کا مہینہ ہے۔۔۔ہوگا۔۔۔شاید ان ممالک کے مسلمانوں کے لیے جہاں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ایک عام انسان کی بنیادی ضروریات کی ذمے داری حکومت پر ہوتی ہے۔۔۔ جہاں رمضان میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ کوئی بھوکا نہ رہے۔۔۔لیکن پاکستان میں یہ مہینہ جسے برکتوں والا مہینہ کہتے ہیں صرف عوام کی کھال ادھیڑنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کی برکتوں کا فائدہ بھی صرف تاجر برادری، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائزمنافع کمانے والوں کو ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ ’’کمانے کا مہینہ‘‘ ہے۔ کیونکہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی ہر چیز کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔ ’’قیمتوں پر کنٹرول‘‘۔۔۔۔صرف میڈیا کی خبروں اور اخبارات کی سرخیوں تک محدود ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے بارشوں سے پہلے۔ برساتی نالوں کی صفائی اور بارش سے بچنے کے انتظامات کی خبریں نہایت اہتمام سے شایع کی جاتی ہیں لیکن پہلی ہی بارش میں سارا پول کھل جاتا ہے ۔ دراصل جس طرح صدارتی تقاریر لکھنے کے لیے کچھ بقراط مقرر کیے جاتے ہیں بالکل اسی طرح ایک پورا شعبہ سرکاری محکوموں کی کارکردگی جو ہمیشہ ہر لحاظ سے صفر ہوتی ہے اسے اپنے کرشماتی قلم سے ہزاروں میں بدل دیتے ہیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جگہ جگہ سرکاری افسران کی تصاویر کھینچی جاتی ہیں۔ جن میں انھیں قیمتیں چیک کرتے اور چالان کرتے دکھایا جاتا ہے۔ اور پھر ان تصاویر کو اخبارات کی زینت بنادیا جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ ایک نیٹ ورک ہے۔ جن کا معاوضہ یا محنتانہ ماہانہ بنیادوں پر ادا کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ نہ کہیں چھاپہ پڑتا ہے نہ چالان ہوتے ہیں بلکہ پرانی تصاویر سے کام چلا لیا جاتا ہے۔

بات رمضان کی ہو رہی تھی کہ جس میں 60 روپے درجن والا کیلا 100 روپے درجن ہوگیا، انگور، خربوزہ، تربوز، ناشپاتی نے بھی علی الترتیب اپنے اپنے بھاؤ بڑھائے کہ ’’برکتوں کا مہینہ‘‘ ہے۔ سارا سال تاجر برادری اس ماہ کا انتظار کرتی ہے۔ سبزیوں، دالوں اور دیگر اشیائے خورونوش کے علاوہ ہرا دھنیا بھی دس اور پندرہ روپے میں ملنے لگا کہ برکتوں کا مہینہ ہے تو پھر ہری مرچ، پیاز اور آلو کیوں پیچھے رہیں۔۔۔۔اور میڈیا خدا زندہ رکھے اسے کہ رمضان کی برکتیں صرف اور صرف ٹیلی ویژن اسکرین پر نظر آتی ہیں۔ ہر چینل پر نت نئے پکوانوں کا میلہ لگا ہے۔

کہیں میٹھی ڈشوں کی بھرمار ہے تو کہیں مرغی، بکرے، مچھلی اور گائے کے گوشت کے پکوانوں کا جمعہ بازار لگا ہے۔جہاں تک کھانا پکانے کی مہارت کا سوال ہے تو زیادہ تر پکانے والے اور پکانے والیاں اپنے سامنے وہ کاغذ رکھتے ہیں جس میں سے دیکھ دیکھ کر وہ ڈشیں بناتے ہیں۔ جن سے ان کی مہارت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔اس بابرکت مہینے میں جس طرح عام لوگ شدید ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، ان کی ذہنی کیفیت کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ جن گھروں میں ایک وقت کا کھانا بڑا دقتوں سے پکتا ہو، جہاں سحری و افطاری کے وقت ان لوازمات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، جن کی تشہیر ٹیلی ویژن کے اشتہاروں اور کھانا پکانے کے پروگراموں میں کی جاتی ہے ان کے لیے رمضان کس طرح برکتوں کا مہینہ ہوسکتا ہے۔۔۔؟

اس بار تو رمضان کے حوالے سے ’’مرے پہ سو درے‘‘ والا محاورہ صادق آتا ہے کہ نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اپنے دعوؤں کے برعکس مہنگائی کا کوڑا عوام کی کمر پر ایسا مارا کہ چیخیں نکل گئیں۔ بھلا کونسی شے ہے جو سستی مل رہی ہو۔ پٹرول، گیس، بجلی، مٹی کا تیل، اشیائے خورونوش، حتیٰ کہ موبائل فون کے کارڈ پر بھی ڈیوٹی بڑھادی گئی۔۔۔۔اور کہا یہ گیا کہ ۔۔۔۔عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا۔۔۔۔اللہ اللہ۔۔۔۔ان  کو کیا یہ نہیں معلوم کہ خواہ کسی بھی چیز کی قیمت بڑھے، بوجھ تو ہر قیمت پر عام آدمی کی جیب پر ہی پڑے گا۔۔۔۔سی این جی اور پٹرول کی قیمت بڑھی، رکشہ، ٹیکسی اور ٹرانسپورٹرز نے منہ مانگے اور من پسند کرایے بڑھا دیے۔۔۔ادا کون کرے گا، یہ اضافی رقم کس کی جیبوں سے نکلے گی۔۔۔۔؟چائے کی پتی کی قیمتیں مالکان نے بجٹ سے پہلے ہی بڑھا دی تھیں۔۔۔۔بوجھ کس کی جیب پر پڑا۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والے پچھلی حکومت سے کئی گنا بڑا کشکول بلکہ ڈرم تیار کرکے آئی ایم ایف کے آگے جھک گئے۔۔۔۔مزے کی بات یہ کہ قرضہ بھی وہ اپنی شرائط پر دیتے ہیں اور واپسی کے طریقے بھی ہمارے ناداں اور ’’کھیلن کو مانگے چاند‘‘ والے انوکھے لاڈلوں کو خود بتاتے ہیں اور ان کی چھری بھی ہمیشہ عوام کی گردن پر ہی چلتی ہے۔ آخر وہ ان بھتہ خور اور اغواء برائے تاوان کے محافظ سیاست دانوں اور ارکان اسمبلی کی مراعات ختم کرنے کو کیوں نہیں کہتے۔

آئی ایم ایف 500 گز سے زائد بنگلوں کے مالکان، زمینداروں اور بڑی بڑی گاڑیوں والوں پر ٹیکس کیوں نہیں بڑھانے کو کہتے۔۔۔۔؟۔۔۔ ۔شاید اس لیے کہ یہ سب ہر حکومت کے چہیتے ہوتے ہیں۔ الف لیلہٰ ، سند باد جہازی کا سابقہ صرف ایک ’’پیر تسمہ پا‘‘ سے پڑا تھا۔۔۔جب کہ پاکستانی قوم گزشتہ چھ دہائیوں سے مختلف قسم کے ’’پیرتسمہ پا‘‘ جیسے لیڈروں اور سیاست دانوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک پیر تسمہ وہ ہیں جن کے قبضے میں وزارت داخلہ ہوتی ہے اور جو سابقہ حکومتوں میں کرپٹ اور لٹیرے معزز لوگوں کو اربوں کا تاوان لے کر بیرون ملک فرار کروادیتے ہیں اور منتخب وزیر اعظم اس پر جواب طلب نہیں کرسکتا۔ایک پیر تسمہ وہ ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پر لوگوں کو یرغمال بنارکھا ہے۔ جو رمضان میں زکوٰۃ، خیرات، صدقات اور فطرے کے کشکول لے کر ہر طرف سے عوام پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔

ایک پیر تسمہ پا وہ بھی ہیں جنھیں کچھ قوتوں نے میوزیکل چیئر از راہ کرم انھیں عطا کردی ہے جو پانچ برسوں سے قطار میں لگے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔اور یہی ان تمام پیر تسمہ کے باپ ہیں جن کے ڈوری ہلانے سے ہر پیر تسمہ اپنا اپنا کام انجام دینے لگتا ہے۔ کہیں بم دھماکے، کہیں خودکش بمبار، ملالہ یوسف زئی کے خطاب کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دے کر اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیں تاکہ ان کے آقا ان کا ’’وظیفہ‘‘ بڑھادیں تاکہ آیندہ انھی پیر تسمہ کی گرفت پاکستان کے ہر شعبہ ہائے زندگی پر رہے۔ سندباد جہازی خوش قسمت تھا کہ وہ اپنی عقل مندی سے پیر تسمہ پا کو چکمہ دے کر آزاد ہوگیا۔۔۔۔!!۔۔۔۔لیکن پاکستانی قوم کو جن لاتعداد پیرتسمہ نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ان سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ تمام پیر تسمہ اندرونی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور ہر معاملے میں ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ ایسے میں رمضان میں مہنگائی کم کون کرے گا۔ سب کو اپنی اپنی جیبوں کا خیال ہے کہ کس طرح انھیں بھرا جائے۔۔۔خاص کر برکتوں اور رحمتوں کے مہینے میں۔

چلتے چلتے ایک اور معیاری ادبی پرچے کا ذکر کرتی چلوں۔ یہ ہے سہ ماہی ’’روشنائی‘‘ جس کا تازہ ترین شمارہ جولائی تا ستمبر 2013 میرے سامنے ہے۔ اس کے مدیر جناب احمد زین الدین ہیں جو بڑی محنت اور لگن سے یہ پرچہ ترتیب دیتے ہیں۔ روشنائی کا یہ شمارہ نمبر54 ہے۔ حسب روایت اس میں وہ تمام موضوعات ہیں جو کسی بھی ادبی پرچے کو معتبر بناتے ہیں۔ بطور خاص پروفیسر جمیل آذر کے مضمون ’’بیدی میرا دوست میرا ہمدم‘‘ کا ذکر کروں گی جو ایک معلوماتی اور دلچسپ تحریر ہے۔ اس میں اوبندر ناتھ اشک کی کتاب جو اس مضمون کا عنوان بھی ہے کا ذکر ہے اور پڑھنے کی چیز ہے۔ دیگر مضامین کا انتخاب بھی خوب ہے۔ اس سے پہلے منٹو نمبر بھی شایع ہوچکا ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ احمد زین الدین صاحب ایک بڑے ناول اور افسانہ نگار عزیز احمد پر بھی ایک معیاری نمبر شایع کریں جو اس ادیب کے شایان شان ہو، کیونکہ ہم نے انھیں بہت جلد بھلا دیا ہے۔ دوستوں اور ادبی دنیا کی روایتی سنگدلی کی بناء پر وہ آخری عمر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے اور کسی سے نہیں ملتے تھے۔ جب کہ انھوں نے قرۃ العین حیدر کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اور محترمہ ان کی بہت عزت کرتی تھیں ایسے نمبر جو بڑی اور اہم شخصیات پر شایع کیے جائیں ایک ادبی دستاویز کی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔