پاکستانی کرنسی کی بے قدری، امریکی ڈالر کی قیمت 103 روپے سے بھی تجاوز کرگئی

احتشام مفتی  جمعرات 18 جولائی 2013
ایکس چینج کمپنیوں نے روپے کی بے قدری کاالزام غیرملکی بینکوں پر لگادیا، ڈالر سپلائی روکنے سے ہلچل مچی، ملک بوستان،اسٹیٹ بینک آج مارکیٹ میں مداخلت کریگا، ذرائع۔ فوٹو: فائل

ایکس چینج کمپنیوں نے روپے کی بے قدری کاالزام غیرملکی بینکوں پر لگادیا، ڈالر سپلائی روکنے سے ہلچل مچی، ملک بوستان،اسٹیٹ بینک آج مارکیٹ میں مداخلت کریگا، ذرائع۔ فوٹو: فائل

کراچی: اوپن مارکیٹ میں بدھ کو بھی قلت برقراررہنے کی وجہ سے امریکی ڈالر نے بلحاظ قدر سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے اور 103روپے 30 پیسے کی بلند ترین قیمت پر پہنچ گیا۔

جبکہ تجارتی بینکوں کے درمیان زرمبادلہ کے لین دین میں بھی پاکستانی روپے کی بے قدری بڑھ گئی، اس طرح ماہرین اقتصادیات کی ڈالر کے 100 روپے سے تجاوز ہونے کی پیشگوئی باالآخر درست ثابت ہوئی، اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ڈالر کی پرواز بلند ہوتی جارہی اور پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ بدھ کواوپن مارکیٹ میں ڈالر 103 روپے 30پیسے تک پہنچ گیا جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں، صرف ایک دن میں ڈالر کی قدر 70 پیسے بڑھ گئی۔ ایکس چینج کمپنیزنے ’’ایکسپریس‘‘ کے استفسار پر بتایا کہ تجارتی بینک انہیں ڈالر فراہم نہیں کررہے جس کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق بڑھتا جارہا ہے اور اگر یہی صورتحال آئندہ چند روز تک برقرار رہی تو پاکستان میں ڈالر کی قدر104 روپے سے تجاوز کرجائے گی۔

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے بتایا کہ بعض غیرملکی بینکوں کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدرتنزلی کا شکار ہوگئی ہے، یہ غیرملکی بینک منی ایکس چینج کمپنیوں کو انکے اکاؤنٹس میں آئے ہوئے امریکی ڈالر کی سپلائی نہیں کررہے، ہفتے میں صرف 3 دن انتہائی محدود پیمانے پر ایکس چینج کمپنیوں کو ڈالر کی سپلائی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں گھبراہٹ کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف 2دن میں غیرملکی بینکوں کی جانب سے سپلائی روکے جانے سے 6ماہ کے لیے فی ڈالر فارورڈ بکنگ 104 روپے تک پہنچ گئی ہے، اوپن مارکیٹ میں اس وقت ڈالر کی قلت کا سامنا ہے۔

مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی ایکسچینج کمپنیز نے ڈالر کی فروخت بھی بند کردی ہے، بینکوں کے درمیان بھی کھنچا تانی جاری رہی جہاں ڈالر 40 پیسے مہنگا ہونے کے بعد100روپے 80پیسے تک پہنچ گیا جبکہ 6 ماہ کی فارورڈ بکنگ 103 سے 104روپے تک پہنچ چکی ہے جو نشاندہی کر رہی کہ مستقبل میں ڈالر کہاں ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ایکس چینج کمپنیوں کے نمائندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جمعرات کو بہرصورت انہیں مطلوبہ مقدار میں امریکی ڈالر کی ترسیل کا بندوبست کرائیں گے۔ واضح رہے کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے برآمدات کو تو فائدہ ہوتا ہے مگر درآمدی لاگت بڑھنے سے مہنگائی بھی ہو جاتی ہے، غذائی اشیا کے ساتھ خام مال کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے، سب سے بڑا مسئلہ بیرونی قرضوں کا ہے کیونکہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے غیر ملکی قرضوں کی مالیت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ2012 میں ہی ماہرین کی پیشگوئی تھی کہ سال کے اختتام پر ڈالر کی قدر 3ہندسوں تک پہنچ جائے گی، دسمبر تو نہیں البتہ یہ پیش گوئی جولائی 2013 میں ضرور پوری ہوئی، گرتے ہوئے زرمبادلہ ذخائر، بیرونی ذرائع آمدنی محدود ہونے اور عالمی مالیاتی اداروں کو قرض کی ادائیگیوں نے مشکلات کا ایک پہاڑ کھڑا کردیا ہے جس کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں، انٹربینک میں 2 جولائی کو ڈالر99 روپے 60 پیسے کا تھا جو اب 100روپے 80پیسے تک پہنچ چکا ہے، اوپن مارکیٹ میں بھی اسی طرح تیزی رہی لیکن 16جولائی کو ڈالر کی قلت نے یہ فرق بہت بڑھادیا، تقریبا ڈھائی روپے اضافے سے اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 103روپے 30 پیسے میں فروخت کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔