رہ گئی رسمِ ِاذاں ‘ روحِ بلالی نہ رہی

شاہد سردار  اتوار 20 جنوری 2019

ہمارے ملک کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ اس میں انتظامیہ کو عوامی مفاد میں جو فیصلے کرنا چاہیے تھے وہ نہیں کیے جاسکے۔ یہاں وسائل کی تقسیم میں بھی ناانصافی کی گئی۔کرپشن کا دور دورہ رہا، لوٹ مار کے موسم عروج پر رہے۔ اسی سوچ اسی طرز عمل نے پاکستانی لوگوں کو ہمیشہ دل گرفتہ اور محروم رکھا اور اسی وجہ سے پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان بہت سے ایشیائی ملکوں سے بہت آگے تھا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ بائیس کروڑ آبادی کے حامل پاکستان کی برآمدات صرف 24 ارب ڈالرز ہیں جب کہ پچاس لاکھ آبادی والے ملک سنگاپورکی برآمدات 330 ارب ڈالرز ہیں اسی طرح چھ کروڑ آبادی کے حامل ملائیشیا کی برآمدات 220 ارب ڈالرز ہیں۔ 1980 کی دہائی میں سامنے آنے والی سیاسی قیادتوں یا قوتوں نے پچھلے تیس پینتیس برسوں میں دولت کے حصول کو ہی مقصد حیات بنائے رکھا۔

ابن خلدون کا کہنا ہے کہ ’’جب طاقتور اقلیت کسی ملک کے وسائل پر قابض ہوجاتی ہے تو دیگر طبقات میں بے چینی جنم لیتی ہے اور وہ حاکم اقلیت کے ساتھ برسر پیکار ہوجاتے ہیں اور یوں وہ انتشار پھیلتا ہے جو کسی قوم کے زوال کا باعث بنتا ہے۔‘‘ ذرا غور کریں پاکستان میں انتشار کی وجوہات کیا رہی ہیں اور آج ہم ایک دوسرے سے کن وجوہات کی بنا پر دست و گریباں ہیں؟ کیا پاکستان میں قانون اور آئین سب کے لیے برابر ہے؟

کیا پاکستان میں حکمراں طبقہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہیں بناتا؟ پاکستان کے جس صوبے میں سب سے زیادہ معدنی وسائل ہیں وہ صوبہ سب سے زیادہ پسماندگی کا کیوں شکار ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جواب نہ ملیں تو انتشار پھیلتا ہے اور یہ انتشار طاقتور حکمران طبقے کی ناانصافیوں سے بھی پھیلتا ہے۔ ہمارے ہاں برسوں سے حکمرانوں، ارباب اختیار یا سیاست دانوں کی کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا شہرہ ہے لیکن کسی کو قرار واقعی سزا ملتی دور دور تک نظر نہیں آتی۔

نہ جانے فیصلہ کن قوتیں کس ڈھیٹ مٹی کی بنی ہوئی ہیں؟ پرویز مشرف ہوں یا اصغر خان کیس کے اسلم بیگ، اسد درانی، یا پھر ایان علی ہوں، راؤ انوار ہوں، بابر غوری ہوں، ڈاکٹر عاصم حسین ہوں، عزیر بلوچ ہوں یا 286 افراد کو زندہ جلاکر خاک کرنے والے ملازمین کے مرکزی مجرم ہوں سبھی کو استثنیٰ حاصل ہے اور یہ سب قانون کی بالادستی سے بھی بالاتر دکھائی پڑتے ہیں اور سانحات اور المیوں کی سرزمین پاکستان کے باسیوں کو اچھی طرح اس بات کا پتا ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔

ہمارے ہاں خالص احتساب کا وصف پنپ ہی نہیں سکا البتہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو رگیدنے کا عمل پوری شد و مد سے جاری رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ عمل بے اعتبار سا ہوکر رہ گیا ہے۔ نتیجے میں کبھی پاکستان کرپشن کے حوالے سے اقوام عالم میں ہائی لائٹ ہوتا ہے اورکبھی پاکستان کو دہشت گردی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے ناکام ریاست قرار دیا جاتا ہے اورکبھی معاشی بحران سے بے قابو ہونے پر پاکستانی ریاست کی ناکامی کا خدشہ ظاہرکیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے گرہ میں باندھنے کی بات یہ ہے کہ انتشار، بے یقینی،کرپشن یا بدعنوانیوں کا خاتمہ صرف اور صرف قانون کی بالادستی اور صاف وشفاف انصاف ہی کرسکتا ہے اور یہ کام صرف عدالتوں کو ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو بھی کرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کی طرف دیکھے بغیر چیف جسٹس آف پاکستان کی ایک بات یہاں یاد آرہی ہے کہ ’’لگتا ہے وفاقی حکومت کو چند کلرک چلا رہے ہیں‘‘ دراصل ہمارے سوچنے سمجھنے اوردیکھنے کے انداز حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔ ہم نے ایسے معاشرے کو جنم دے کر جوان کردیا ہے جہاں منطق اور تاریخ بھی اپنی چوکڑی بھول جاتے ہیں۔ کیا ساری مملکتیں اسی طرح بھٹکتے اور راستے بدلتے چلتی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان میں اصولوں، نظریات اور پالیسیوں کو تسلسل کیوں نہیں ہے؟ یہاں قومی مفادات کا تعین کیوں نہیں کیا جاتا ؟

عوام اپنے حقوق کی پامالی بھول کر بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے، ان کی سفید پوشی قائم رہے، وہ روکھی سوکھی خود بھی کھائیں اور اپنے بچوں کا پیٹ بھی ان سے بھر سکیں۔ عوام ہمیشہ کی طرح اپنی بہتری کی بڑی دیرینہ خواہشات اور امیدوں کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں لائے۔ اسے توکم ازکم ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہیے تھے جو اس نے آناً فاناً کر ڈالے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرکے دینے والوں نے ہزاروں گھر مسمار کردیے، ہزاروں افراد کو نوکریوں سے نکالا جاچکا ہے، تجاوزات مہم کی وجہ سے کاروبار میں حد درجہ کمی اور ہزاروں لوگ ملک بھر میں بے روزگار ہوگئے۔

رئیل اسٹیٹ اور نجی ڈیولپرز، بلڈرز اور تعمیراتی کاروبارکی حالت بھی بہت خراب ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ہزاروں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور متعدد میڈیا ادارے جن میں معروف ادارے بھی شامل ہیں اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ کراچی میں برسر اقتدار آکر گھر گھر میٹھا پانی دینے والے اب تک ایک بوند پانی نہ دے سکے،کوڑا کرکٹ صاف کرنے کا وعدہ بھی اسی کوڑے دان میں پڑا دکھائی دے رہا ہے۔

حکومت کا مہنگائی کم کرنے کا بھی ایک دعویٰ تھا لیکن ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے خور ونوش پر خوامخواہ اضافہ اور اب سگریٹ کے پیکٹ پر 10 روپے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عوام مجموعی طور پر 45 قسم کے ٹیکس ادا کر رہے ہیں (جن میں زکوٰۃ، خیرات، رشوت اور صدقات شامل نہیں) شاید یہی وجہ ہے کہ جب ٹیکس کے تمام نام ختم ہوگئے تو حکومت کو مجبوراً نئے ٹیکس کا نام ’’ گناہ ٹیکس‘‘ رکھنا پڑا جو سگریٹ کے پیکٹ پر عائد کیا جائے گا۔

کڑوی سچائی یہی ہے کہ نئی حکومت کا آغاز ہی ان کے انجام کی خبر دے رہا ہے۔ پاکستانی اسٹاک ایکسچینج دنیا کی 5 بد ترین اسٹاک مارکیٹوں میں شامل ہوچکی ہے، پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ مستحکم سے منفی ہوچکی ہے۔ ایک روپیہ قرض نہ لے کر 15 سو ارب بیرونی قرضے بڑھ گئے۔ گیس، بجلی کی چوری کرتا کوئی اور بھرتا کوئی اور ہے ہمارے ہاں۔ بار بار اربوں روپے مالیت کے گردشی قرضوں کا قومی معیشت پر پڑنے والا بوجھ کیا نیا پاکستان اٹھا بھی پائے گا یا نہیں؟

تعلیمی اداروں میں فیسیں آسمانوں سے اور پڑھائی یا علم کا معیار زمین کی تہوں سے باتیں کر رہا ہے، بعض بڑے علاقوں کی درسگاہوں میں ڈانس، مغربی ثقافت اور فیشن سکھائی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کے بڑے تعلیمی اداروں میں 75 فیصد لڑکیاں اور 45 فیصد لڑکے حد درجہ خطرناک نشہ ’’آئس کرسٹل‘‘ اور ہیروئن استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ہے نئے پاکستان کا المیہ یا پھر سچ اور سچ کی یہ خوبی یا کمال ہے کہ اسے کوئی جتنا مرضی چھپانے کی کوشش کرے وہ سامنے آکے ہی رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔