اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 20 جنوری 2019

عدالت عظمیٰ نے بجا طور پر یہ حکم صادر فرمایا کہ کراچی سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے اور ناجائز طور پر قائم ہر تعمیر کو منہدم کردیا جائے۔

عدالت کے احترام میں ارباب اختیار نے اس پر فوری طور پر عمل درآمد شروع کردیا اور یہ عمل درآمد یوں ہوا کہ آنکھ بند کرکے کارروائیاں شروع کردی گئیں۔ عدالت کا منشا بلاشبہ یہی تھا کہ کراچی کو اس کی پرانی شکل پر لایا جائے مگر قابل غور بات یہ تھی کہ پرانی شکل سے کیا مراد ہے۔کیا اسے 1946 کی صورت پر لے آیا جائے، 1951 کی شکل پر 1962 کی شکل پر یا بعد کی کسی اور تاریخ کی صورت میں۔

کراچی سالہا سال سے ایک چھوٹا سا شہر رہا تھا، اگرچہ یہ برصغیر کی واحد قدرتی بندرگاہ تھا مگر کبھی اس کی آبادی 3 لاکھ سے متجاوز نہیں ہوئی۔ بظاہر یہ مچھیروں اور تاجروں کا شہر تھا یا پھر اندرون سندھ کے مال دار لوگوں کی عارضی قیام گاہوں کا شہر۔

پاکستان بنا اورکراچی اس نئی مملکت کا دارالسلطنت قرار پایا ، مہاجرین کی یلغار شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 3 لاکھ آبادی کا شہر 25 لاکھ آبادی سے تجاوزکرگیا۔ نئی آبادکاری کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی نہ اس وقت یہ ممکن تھا۔ اس کے بعد یہ ایک بڑا تجارتی تہذیبی اور سیاسی مرکز بن گیا اور اس کی آبادی تیزی سے اور بے ترتیبی سے بڑھتی چلی گئی۔

اندرون ملک سے روزگارکی تلاش میں آنے والوں کا تانتا بندھا رہا اور جسے جہاں جگہ ملی آباد ہوتا رہا۔ حکومتوں کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوا۔

جب ملک ترقی کرگیا، کراچی خوش حالی کی علامت بنا تو خوشحالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدمستیوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا جہاں قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا قیام عمل میں آیا وہیں پیسہ کمانے والوں نے زمین کے چپے چپے پر قبضے کرلیے ناجائز ذرائع استعمال کرنا شروع کردیے۔

بظاہر عدالت عظمیٰ کا حکم اس خوشحالی کی بدمستیوں کے تحت تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے تھا۔ تجاوزات کو منہدم کرنے کا عمل بلاامتیاز کیا جانے لگا اور کارکردگی دکھانے کے لیے وہاں لوگ آگے آگے نظر آنے لگے جو تجاوزات کے قیام کے سرپرست تھے۔

اب جب تجاوزات کو منہدم کیا جا رہا ہے تو شور برپا ہے کہ لوگوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے اور یہ شور وہ لوگ مچا رہے ہیں جنھوں نے یہ روزگار رشوتیں دے دے کر حاصل کیا تھا جو ملکی کرپشن میں برابر کے شریک تھے۔

اب انہدام کی زد میں آنے والی جائیدادیں ، سیاست دانوں ، مال داروں ، صاحب حیثیت حضرات کی برآمد ہو رہی ہیں۔ یہ لوگ ایک بامعنی خاموشی پر قائم، یعنی وہ دیکھو اور انتظار کرو کے مسلک کے لوگ ہیں اور اس قسم کی وارداتوں کے ماہر ہیں۔

لیکن منہدم کیے جانے والے بازاروں اور دکانوں کے مالکان نے یہ جائیدادیں لاکھوں روپے دے کر حاصل کی تھیں۔ جن سرکاری افسروں نے ان سے لاکھوں روپے رشوت لے کر انھیں ان جائیدادوں کا مالک بنایا تھا ان سے کوئی پرسش نہیں ہو رہی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن افسران نے یہ مال کما کر یہ ناجائز جائیدادیں بنوائی تھیں، ان کے خلاف بھی کارروائی ہوتی آخر کے ایم سی اور کے ڈی اے کے افسران کی نظریں اس وقت اتنی کمزور کیوں ہوگئی تھیں جب یہ جائیدادیں کھڑی کی جا رہی تھیں۔ نظر کی یہ کمزوری صرف اور صرف رشوت کے روپے کے باعث واقع ہوئی تھی ، اس لیے جہاں ان جائیدادوں کو منہدم کیا جا رہا ہے ، وہیں ان افسران کے خلاف بھی کارروائی ہو جو اس کے ذمے دار تھے اور ان پر بڑے جرمانے عائد کرکے رقم ڈیم فنڈ میں جمع کرائی جائے، اگر یہ افسران اللہ کو پیارے ہوگئے تو پھر ان کا حساب اللہ ہی کو کرنا ہے اور اگر یہ سبکدوش ہوگئے ہیں تو ان کی پنشنوں اور ان کی اپنی بنائی ہوئی جائیدادوں سے وصول کی جائے۔ پھر دیکھیے کہ ڈیم فنڈ میں کتنی برکت ہوتی ہے۔

ناجائز قائم ہونے والی یہ بازاری تجاوزات تو نظر آتی اور دکھائی دیتی ہیں مگر ان کی سرپرستی کے نتیجے میں جو ذاتی اور خاندانی جائیدادیں بنائی گئی ہیں وہ نظر نہیں آتیں۔ ان کا پتا لگایا جاتا ہے اور اب یہ پتا لگانا مشکل نہیں۔ ایسی حرام کی جائیدادوں کا پتا لگا کر ان کو نیلام کیا جائے اور یہ نیلامی رقم بھی ڈیم فنڈ میں جمع کردی جائے۔

فساد کی اصل جڑ دراصل یہ رشوت خود سرکاری افسران ہی تھے جو سالہا سال سے غیر قانونی قبضہ کرا کر اپنی جائیدادیں بھی بناتے رہے اور نام نہاد تاجروں کی حلال کی کمائی کو حرام میں تبدیل کرنے کا کارخیر انجام دیتے رہے۔ عدالت عظمیٰ کیا ان لوگوں کی طرف بھی توجہ فرمائے گی۔

اس سلسلے میں ایک مظلوم طبقہ بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تجاوزات کو سرکاری اداروں نے جائز قرار دیا تھا اور جن سے کرائے وصول کیے جا رہے تھے اور انھیں اس طرح تجارت کی قانونی اجازت ملی تھی۔ اب ان کو بے دخل کرنا یقینا سراسر ظلم ہے۔ ان کو تجاوزات کی اجازت دی گئی، ان سے کرایہ یا ملکیت کی رقم سرکاری خزانے میں جاتی رہی ان کو 24 یا 48 گھنٹے کا نوٹس دے کر ان کا واویلا سنے بغیر ان کے خلاف کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔

پرلطف بات یہ ہے کہ کراچی کے میئر اس وقت تجاوزات کے خاتمے میں بڑے سرگرم ہیں جب کہ ان کے عہد ’’حکمرانی‘‘ میں بھی بے تحاشا تجاوزات ہوئیں۔ کیا وہ ساحل پر ریت کے گھروندے بناکر انھیں مسمار کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بچوں کی طرح خوش ہو رہے ہیں یا واقعی وہ اپنے عہد کی کارستانیوں سے یکسر بے خبر تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔