ڈاگئی باباجی

سعد اللہ جان برق  اتوار 20 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک عرصے تک ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ ہمارے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر آپریشنز اشفاق اللہ خان کسی بطل جلیل کے فرزند ارجمند ہیں اس لیے جب بھی ملاقات ہوتی تھی ہم ان کے ساتھ گستاخیاں اور شوخیاں کر بیٹھتے تھے لیکن یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ :

یارب شمع دل افروز کا شانہ کیست

دل ماسوخت بہ پر سید کہ جانانہ کسیت

ڈاگئی باباجی کو ہم جانتے تھے لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ اشفاق اللہ خان اس عظیم عالم بے بدل اور لائق صداحترام خواص وعوام کے فرزند ہیں۔ڈاگئی باباجی ہمارے شاید آخری بزرگ اور متفقہ طور پر قابل احترام شخصیت تھے۔نام تو ان کا مولانا حمداللہ جان تھا لیکن وہ اپنے گاؤں ڈاگئی کی نسبت سے ڈاگئی باباجی کے نام سے یاد کیے جاتے تھے’’باباجی‘‘ کا خطاب دوسرے علاقوں اور صوبوں میں تو عام ہے بزرگوں کو باباجی کہا جاتا ہے چاہے وہ دنیاوی لحاظ سے بزرگ کیوں نہ ہو مثال کے طور پر اہل پنجاب ہم جیسے عاصی گناہگار اور بے علم و عمل کو بھی باباجی کہہ دیتے ہیں جو ان کی اپنی خوش عقیدگی ہے لیکن پختون خوا میں بہت کم صاحبان کشف وکرامت کو بھی’’بابا‘‘ کا درجہ ملتاہے مثلاً کاکا صاحب،اخون پنجو صاحب،چمکنی صاحب،سوات صاحب قسم کے خطابات تو دیے جاتے ہیں لیکن’’بابا‘‘ نہیں کہاجاتا۔اور پھر’’ باباجی‘‘ تو کسی کسی کو کہاجاتاہے وہ بھی بعدازمرگ مزار کے مجمع خلائق ہونے کے بعد۔

لیکن مولانا حمداللہ جان نورااللہ مرقدہ کو زندگی میں یہ خطاب دیاگیا تھا اور وہ اپنے نام سے زیادہ ’’ڈاگئی باباجی‘‘ کے نام سے،وہ بہت بڑے عالم تھے صرف عالم نہیں تھے بلکہ عامل بھی تھے وہ صوفی تھے لیکن خلوت نشین اور گوشہ نشین نہیں تھے بلکہ زندگی بھر ایک مینار نور کی طرح اپنی روشنی پھیلاتے رہے۔

یہ بھی ان کے احترام کا ایک ثبوت تھے کہ وہ سیاسی میدان میں فعال ہونے کے باوجود جمعیت علماء اسلام(ف) کے سرپرست اعلیٰ چن لیے گئے تھے حالاںکہ سیاسی دنیا سے وہ کوئی علاقہ نہیں رکھتے تھے لوگ ہی ایک دو مرتبہ کھینچ کھانچ کر اس میدان میں گھسیٹ لائے تھے لیکن وہ اس دنیا کے تھے ہی نہیں۔ان کی ناکامی کی وجہ بھی یہ ہوتی تھی کہ جب وہ اس دنیا کے تھے ہی نہیں تو اس دنیا میں چلتے کیسے؟ ان سے وہ توقعات وابستہ ہی نہیں کی جاسکتی تھیں جو سیاست کا طرہ امتیاز ہوا کرتی ہیں اور نہ ہی وہ خود ذہنی طور پر اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکتے تھے۔

انسان کے لیے کہاجاتاہے کہ تم اس دنیا میں ایسے آو کہ تم رو اور لوگ ہنسے اور ایسے جاو کہ تم ہنستے رہو اور لوگ تمہارے لیے روتے رہیں۔اور یہ ہم نے دیکھا کہ لوگ ان کے لیے کیسے روئے۔حالانکہ سب یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک دن ہر کسی کو جانا طے ہے جس نے پہلا قدم اٹھایا وہ آخری قدم تک بھی پہنچے گا جس نے ایک سانس لی وہ آخری سانس بھی لے گا جو چل پڑا وہ ایک دن منزل پر رکے گا،لیکن پھر بھی لوگ روئے اور بہت روئے حالانکہ انھوں نے عام انسانوں سے زیادہ ایک سو پانچ برس کی عمر پائی۔

یہ اتنی عمر بجائے خود ایک ثبوت ہے کہ ان کی زندگی کیسی رہی ہوگی۔انسان کو دو چیزیں مارڈالتی ہیں ایک بے مہار قسم کی شکم پروری۔کیونکہ اکثر بلکہ تمام جان لیوا امراض کا مرکز انسان کا پیٹ ہے یہ پیٹ ہی ہے جس سے سارے امراض پھوٹتے ہیں اور اگر انسان بسیار ہونہ ہو کھانے کے لیے زندہ ہو نہ ہو بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھاتاہو تو بہت سارے امراض اس کے قریب بھی نہیں پٹختے،اس لیے کہاجاتاہے جو بہت کھاتاہے وہ اپنے دانتوں سے ہی اپنی قبر کھودتاہے اور ہم ہر طرف اور ہر سطح پر دیکھتے ہیں کہ بے تحاشا ٹھونسنا ہی انسان کے لیے قاتل ہوتاہے۔آج کل تقریباً ساری بیماریوں کا منبع اور معدن پیٹ ہی ہوتاہے۔

ایک لحاظ سے کہاجاسکتاہے کہ اس دنیا میں انسان کی قسمت میں جو رزق لکھاجاتاہے وہ اگر اسے جلدی جلدی ختم کرلے تو لازم ہے کہ اسے جانا پڑے گا اور اگر اپنا رزق کفایت سے خرچ کرے تو زیادہ عرصہ گزار پائے گا۔

دوسری جان لیوا چیز ذہنی انتشار اور فکری بے مہاری ہے کہ انسان کبھی اس طرف کبھی اس طرف چھوٹے چھوٹے اور عارضی مقاصد کے لیے دوڑتا پھرے اور یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ اسے منزل اور مرام کے لیے جاناہے۔

لیکن جو لوگ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ مجھے اس ایک منزل کو پانا ہے اور اسی ایک منزل کے لگن میں چل پڑتے ہیں تو اسے ذہنی اور فکری ارتکاز توجہ اور سکون حاصل ہوجاتاہے اور یہاں وہاں ڈال پات اپنی زندگی ضایع کرنے کی بجائے ارتکاز اور اطمینان حاصل کرلیتے ہیں یعنی یہ کہ مجھے بس یہی کام کرنا ہے اور اپنی ساری توانیاں اس پر مرکوز کردیتاہے یوں اس کی توانیاں ادھر ادھر ضایع ہونے سے بچ جاتی ہیں اس کی مثال یوں ہے کہ ہم اگر گاڑی کو گئیر بدل بدل کر یہاں وہاں دوڑائیں تو سفر بھی طے نہیں ہوگا اور گاڑی کی توانیاں بھی زیادہ خرچ ہوں گی اور اسے نقصان بھی پہنچے گا لیکن اگر گاڑی کو سیدھی سڑک پرڈال کر ایک ہی گئیر میں چلایا جائے تو صحیح گئیر اور رفتار کی وجہ سے کم توانائی میں زیادہ فاصلہ طے ہوجائے گا۔

حضرت ڈاگئی باباجی نے بھی صرف ایک ہی منزل و مرام کے لیے زندگی وقف کی سکون اور دل جمعی سے چل پڑے تھے اور اپنے کام و دہن کو بھی قابو میں رکھتے ہوئے ایک سو پانچ سال کا عرصہ پاگئے کہ ان کا مقصد ومرام صرف علم کی روشنی پھیلانا تھا بقول رحمان بابا کہ:

لکہ اونہ مستقیم پہ خپل مقام یم

کہ خزان راباندے راشی کہ بہار

میں کسی پیڑ کی طرح اپنے مقام پر سیدھا کھڑا رہوں گا چاہے خزان آئے یا بہار۔ اور اس کا ثبوت ان کے نماز جنازہ میں مل گیا عام طور پر کہاجاتا ہے کہ تھانیدار کی بیوی کے جنازے میں تو لوگ بہت ہیں لیکن خود تھانیدار کے جنازے میں کوئی نہیں ہوتا لیکن ڈاگئی باباجی کے اقرباء میں کوئی تھانیدار بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی اتنی بڑی خلقت۔

روضہ خلد بریں خلوت درویشاں است

مایہ محتشمی خدمت درویشاں است

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔