نندتا کا منٹو

جاوید قاضی  اتوار 20 جنوری 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

روایتی فلموں میں ایک ہیرو، ایک ہیروئن، ایک ولن اور ساتھ ہی ایک مسخرا بھی ہوتا ہے۔ کچھ گیت اور کچھ ناچ گانا۔ ان فلموں میں کوئی قانون کا رکھوالا تو کوئی قانون توڑنے والا۔ فلم چلتی رہتی ہے اپنے اتار چڑھائو کے ساتھ پھر یوں ایک کلائمکس پر آ کر اپنے اختتام تک پہنچتی ہے جس میں ہیرو تو نہیں لیکن ولن کو ہمیشہ شکست ہوتی ہے۔

حق و باطل کی اس جنگ میں حق فاتح ہوتا ہے اور باطل مفتوح ۔ اس کہانی کو لکھنے والا ایک لیکھک ہوتا ہے اور بنانے والا ہدایت کار۔ گانے بنانے والے کوئی اور، دھن بنانے والے کوئی اور۔ بہت کاوشوں سے یہ ایک فلم تیار ہوتی ہے، کئی کردار ہوتے ہیں جو پردے پر ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے جو پس پردہ ہوتے ہیں تب کہیں جا کر آپ یہ فلم اسکرین پر دیکھتے ہیں۔

بہت سے چہرے ہوتے ہیں جن کو سراہاجاتا ہے اور وہ مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ پس پردہ کام کرنے والے لوگوں کے بارے میں کوئی نہیںجانتا سوائے چند سنجیدہ لوگوں کے جو ان کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔ پردے کے پیچھے کام کرنے والے ان لوگوں کو اس بات کی فکر بھی نہیں ہوتی وہ بس فیضؔ کی ان سطروں کی طرح خود بیان ہوتے ہیں۔

جو ہم پے گزری سوگزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

… چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے

بہت سی فلمیں ہوتی ہیں جو باکس آفس پر ہٹ ہو جاتی ہیں اور بہت سی فلاپ ہو جاتی ہیں۔ آرٹ موویز زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرتی ہیں اور پاپولر فلمیں، پاپولر ہوتی ہیں جو زیادہ بزنس دیتی ہیں، جب کہ آرٹ موویز سپریم کورٹ کے اس جج کے مانند ہوتی ہے جو نیا اختلافی نوٹ لکھ کر آگے چلا جاتا ہے اور پھر ایک دن ان کا اختلافی نوٹ قانون بن جاتا ہے۔ اکثریتی فیصلہ وقت کی نائو میں بہہ جاتا ہے کیونکہ وہ تاریخ کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔

قانون سماج اور معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے اور وہ وسیع، گہرا اور پھیلتا جاتا ہے کیونکہ اسے آگے کی طرف جانا ہوتا ہے۔ معاشرے میں کئی سوچیں کئی نظریے اور کئی زاویے ہوتے ہیں اور قانون ان  زاویوں ، سوچوں اور نظریوں کا امین ہوتا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ اس برصغیر میں کئی بے چین روحیں بستی ہیں جن کو پاپلوسٹ سوچ راس نہیں آتی اور وہ اس سماج میں اپنی اختلافی رائے کو لکھوانا چاہتی ہیں،  لیکن ان کو کافر اور غداروں کے القابات دے دیئے جاتے ہیں ۔

حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیرا الزام بھی سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

…آج بازار میں پابہ جولاں چلو

( فیض احمد فیضؔ )

میں نے جب ہدایت کار سرمد کھوسٹ کی فلم منٹو پاکستان کے سینیما گھر میں دیکھی تو ایک پورا کالم اسی فلم اور اسی جگہ پر تحریرکیا۔

میں نے کہا تھا ایسی کئی بے چین روحیں  ہیں عاصمہ جہانگیر کی طرح، اروندتھی رائے کی طرح ! ہم نے عاصمہ اور اروندتھی کو یہاں غدار کا خطاب دیا۔ یہ دونوں ریاست کے مروج بیانیے کے خلاف اختلاف رائے رکھتی تھیں بلکہ اپنی ایمانداری سے زیرک سا ضمیر رکھتی تھیں۔ اپنی رائے کا کھلم کھلا اظہارکرتی تھیں۔ ’’راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو‘‘ یہ جو مست و رقصاں ہیں ، خم بداماں ہیں ، چاک گریباں ہیں ، یہ سب تاریخ کے طالب علم ہیں۔ وہ بے نیاز ہیں پاپلوازم سے ، چاہے وہ دائیں بازوکا ہو یا بائیں بازوکا ۔ پھرکیا ہوتا ہے؟ جب وہ ہم میں نہیں رہتے تو ہم ان کو یاد کرتے ہیں۔

سب کہاں؟ کچھ لال وگل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

(غالبؔ)

آج منٹو برصغیر میں زندہ ہے ، اس کا کردار جس طرح سے نندتا داس نے اپنی فلم ’’منٹو‘‘ میں پیش کیا ہے سرمد کھوسٹ اپنی فلم میں نہ دکھا سکے۔

ایک تاریک داستان ہے تقسیم ہند اور بٹوارے کی۔ متحدہ ہندوستان میں دو بیانیے تھے ایک کانگریس کا اور دوسرا مسلم لیگ کا۔ دونوں بیانیے جیسے آدھی حقیقت اور آدھا فسانہ جو متحدہ ہندوستان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔ پہلے دو ملک بنے پھر دو سے تین ملک بنے۔ مگر برصغیر اب بھی وہیں ہے۔ اس کی تاریخ ، اس کی تہذیب اور اس کا تمدن بھی وہی۔ منٹو کو یہ بٹوارہ سمجھ ہی نہ آیا۔ یہ بٹوارہ دلوں کا تھا محبتوں کا بٹوارہ تھا جو بلآخر نفرتوں میں تبدیل ہوا۔ منٹو کیا کرتا وہ چیخوف کی طرح حقیقت کو لکھنا چاہتا تھا کہ دیوانوں کا بٹوارہ کیسے ہوتا ہے۔ کیا ان کا بھی کوئی دیس، وطن یا نظریہ ہوتا ہے۔ اسے عورت ایک ناپید چیز نظر آئی جو تانگہ چلاتے چلاتے بلآخر ایک کوٹھے پر اپنا ٹھکانہ پاتی ہے۔

منٹو لکھتا چلا گیا کافکا کی طرح ، اسے اپنے زندگی سے تو کچھ نہ ملا مگر اس دنیا سے جانے کے بعد لوگوں نے اسے پہچانا ۔ نندتا داس کے کیمرے کی آنکھ سے۔ کچھ نہ دیکھ سکے تو وہ ہیں ہم! کیونکہ نندتا داس کی اس فلم کو پاکستان میں آنے کی اجازت نہ ملی۔ وہاں ہندوستان میں انتہا پرست ہندو بھی نندتا داس کی اس فلم کے خلاف ہیں ۔ اس پروپیگنڈے کو انھوں نے بھی بڑھی تیزی سے پھیلایا ۔ میں نے نندتا داس کو پہلی دفعہ آج سے تیرہ سال پہلے دیکھا جب ’’امرائوجان ‘‘ فلم بنانے والے ڈائریکٹر مظفر علی کے ایک اسٹیج شو’’کارواں رومی‘‘ کے لیے یہاں آئی تھیں۔ یہ اسٹیج شوآغا خان ہسپتا ل کے اوپن سمپوزیم میں ہوا تھا۔ اس کا ایک ٹکٹ دس ہزار روپے کا تھا۔ وہ اسٹیج شو تین دن تک چلا اور تین دن تک پورا سمپوزیم بھرا ہوا تھا۔ ایران و کونیا کے فقیر، عابدہ پروین، ضیاء محی الدین اورکون نہیں تھا اس پروگرام میں۔ وہ پروگرام تصوف کی میراث تھا۔

یہ وہی نندتا ہیں جس نے ’’رام چند پاکستانی ‘‘ میں بہت ہی خوبصورت کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں نندتا کا کردار ایک بیوی کا تھا جس کا شوہر چلتے چلتے بارڈر کراس کر کے ہندوستان پہنچ گیا لیکن وہ یہ جان نہ سکا کہ یہ آنگن اس کے گھر کا ہے یا پھر ہندوستان کی سر زمین۔

فیضؔ ہوں، عاصمہ ہوں، منٹو ہوں یا پھر نندتا ، برصغیر کے امن پسند لوگ ان سے پیارکرتے ہیں۔ نندتا کی اس فلم کو دیگر ہندوستانی فلموں کی طرح پاکستان کے سینیما گھروں میں آنا چاہیے۔

اس بہتی ندیا کے بہائو کو نہ روکو ، اسے بہنے دو۔

ایک عرض ہے میری آج کے حکمرانوں سے کہ ہماری آئندہ نسلوں کو منٹو کے صحیح ادبی کردارسے آشنا کریں۔ منٹو کو اس آنکھ سے دکھائیں جس آنکھ سے نندتا کے کیمرے نے اس کو دکھایا ہے۔ آج کے دور میں آپ اس طرح کے اگر قدغن لگائیں گے تو اپنے آپ کو ہی رسوا سر بازار کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔