نان فائلرز کو جعلی دستاویزات کے ذریعے فائلرز بنا کر ٹیکس چوری کرنے کا انکشاف

ارشاد انصاری  اتوار 20 جنوری 2019
جعلی دستاویز کا استعمال روکنے کے لیے ایف آئی اے کی مشاورت سے ایس او پی متعارف کروانے کا حکم۔ فوٹو : فائل

جعلی دستاویز کا استعمال روکنے کے لیے ایف آئی اے کی مشاورت سے ایس او پی متعارف کروانے کا حکم۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: ملک میں گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر اضافی ٹیکس ادئیگی سے بچنے کے لیے ایف بی آر اور اس کے ماتحت ادارے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ(پرال) حکام کی ملی بھگت سے نان فائلرز کوجعلی دستاویزات کے ذریعے فائلرز بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب نے ایف بی آر کو ناقص نیشنل ٹیکس نمبرز(این ٹی این)سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے عناصر کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کے احکامات جاری کردیے ہیں اور پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ(پرال) میں جعلسازی سے تیار کردہ دستاویزات کا استعمال روکنے کے لیے ایف آئی اے کے نیشنل ریسپانس سینٹر برائے سائبر کرائمز(این آر سی سی )ونگ کی مشاورت سے فُول پروف اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(ایس او پی)متعارف کروانے کی ہدایت کی ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب نے ایف بی آر کے خلاف دائر ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ کے غلط استعمال سے متعلق کیس میں عائد کردہ الزامات کے بارے میں پیراوئز کمنٹس کے ساتھ تفصیلی جواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے سیکرٹری ریونیو ڈویژن اور ممبران انفارمیشن ٹیکنالوجی ایف بی آر اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ 22 جنوری 2019 کو ہونے والی سماعت میں ایف بی آر کی جانب سے کوئی کسی سینیئر افسر ڈیپارٹمنٹ(ایف بی آر) کی جانب سے کیس پیش کرے۔

ایکسپریس کو دستیاب دستاویز کے مطابق وفاقی ٹیکس محتسب نے ایکٹو ٹیکس پئیر لسٹ کے غلط استعمال سے متعلق اہم و حساس نوعیت کے کیس میں ایف بی آر اور پرال کی غیر سنجیدگی پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کیس میں عائد کردہ سنگین نوعیت کے الزامات کے بارے میں ایف بی آر، پرال سے متعدد مرتبہ پیراوائز کمنٹس کے ساتھ تفصیلی جواب مانگا گیا ہے مگر غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ پرال، آئی آر آئی ایس ،ایف بی آر اور آئی ٹی ونگ میں سے کسی کی جانب سے نہ تو پیراوائز کمنٹس دیے گئے ہیں اور نہ کوئی ذمے افسر کیس کی پیروی کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب کے سامنے پیش ہوا ہے جس سے بادی النظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایکٹو ٹیکس پئیرز فسیلٹی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں۔

نوٹس میں مزید لکھا ہے کہ حالات اور زیر بحث انتہائی مشکوک واقعات کے تسلسل سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں اور اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پرال حکام غلطی پر ہیں۔ مذکورہ دستاویز میں وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے دی جانے والی سفارشات میں ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو ناقص (نیشنل ٹیکس نمبرز(این ٹی این) سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے عناصر کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کی جائیں اور ذمے دار افسران و حکام کے خلاف کاروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ(پرال) میں جعلسازی سے تیار کردہ دستاویزات کا استعمال روکنے کے لیے ایف آئی اے کے نیشنل ریسپانس سنٹر برائے سائبر کرائمز(این آر سی سی) ونگ کی مشاورت سے فُول پروف اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(ایس او پی)متعارف کروانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے ایف بی آر کو اس جعلسازی میں ملوث ملازمین اور بطور خاص اعلی افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب نے ایف بی آر کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لیمیٹڈ(پرال) اور اینٹلی جننس اینڈ انویسٹی گیشن(آئی اینڈ آئی)کی اس طرز پرری اسٹرکچرنگ کی جائے کہ یہ ادارے سیلز ٹیکس فراڈ کی روک تھام اور ٹیکس فراڈ کا سُراغ لگانے میں موثر کردار ادا کرسکیں۔

وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی ٹیکس محتسب اس کیس میں وفاقی ٹیکس محتسب ادارہ جاتی ریفارمز ایکٹ2013 کی سیکشن 9(3)کے تحت کاروائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لہٰذا ایف بی آر کو ذمے داری کا تعین کرنے ساتھ ساتھ 22 جنوری 2019 تک پیراوائز کمنٹس جمع کروانا ہوںگے جس میں شکات کنندہ کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی شواہد کے ساتھ تردید کی جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ذیشان شاہد نامی شخص کی جانب سے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کے ذریعے وفاقی ٹیکس محتسب لاہور آفس میں دائر کردہ درخواست پرریجنل وفاقی ٹیکس محتسب لاہور آفس کے ایڈوائزر میاں منور غفور کی جانب سے ایف بی آر کو 12 دسمبر تک جواب جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی مگر ایف بی آر حکام نے 12 دسمبر کو جواب جمع کروانے کے بجائے 20 دسمبر تک کا وقت مانگا تھا مگر 20 دسمبر کو ریجنل وفاقی ٹیکس محتسب آفس لاہور میں پیش ہونے والے آر ٹی او لاہور اور کارپوریٹ آر ٹی او لاہور لے حکام نے جواب جمع کروانے کی بجائے ذیشان شاہد کو این ٹی این کے اجراء اور فائلر ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کردیا اور موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں نہیں معلوم ذیشان شاہد کیسے فائلر ہوگیا، اور اگر ان کی اجازت کے بغیر ان کی جگہ کسی اور نے ان کے نام سے ٹیکس گوشوارے و ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کروائی ہے تو اس صورت میں یہ ایف آئی اے کا کیس ہے جس پر ریجنل وفاقی ٹیکس محتسب لاہور آفس کے ایڈوائزر میاں منور غفور کی جانب سے پہلے بھی ایف بی آر حکام کو ہدایت کی تھی گئی کہ وہ یہ بات تحریری طور پر لکھ دیں کہ یہ ایف آئی اے کا کیس ہے تو پھر ایف بی آر اور پرال کے لوگوں کے خلاف تحقیقات کے لیے یہ کیس ایف آئی اے کو بھجوادیں۔

ذیشان شاہد نامی شخص نے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کے ذریعے وفاقی ٹیکس محتسب لاہور آفس میں درخواست دائر کررکھی ہے جس میں درخواست دہندہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایف بی آر حکام نے ان کے علم کے بغیر نہ صرف اس کے نام(زیشان شاہد)کا نیشنل ٹیکس نمبر جاری کررکھا ہے بلکہ اس کے نام سے صفر ٹیکس کے ساتھ انکم ٹیکس گوشوارے اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ بھی جمع کروارکھی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انھوں نے این ٹی این حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر کو کسی قسم کی کوئی درخواست نہیں دی او ر بغیر کسی اجازت کے اور ان کے علم میں لائے بغیر ایف بی آر کی طرف سے ذیشان شاہد کے نام سے 18 اپریل 2018 کو یکطرفہ طور پر نیشنل ٹیکس نمبر(این ٹی این) جاری کیا گیا جبکہ اسی روز اس کے کوائف کے ساتھ ٹیکس ائیر 2017 کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے اورویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کروائی گئی ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ سیدھا سیدھا جعلسازی کا کیس ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔