صوفیانہ کلام کو اوپر اسٹائل میں پیش کرنے کا تجربہ شاندار رہا

شوبز رپورٹر  اتوار 20 جنوری 2019
پاکستانی نژاد برطانوی اوپرا صوفی سنگر سائرہ پیٹر سے گفتگو۔ فوٹو : فائل

پاکستانی نژاد برطانوی اوپرا صوفی سنگر سائرہ پیٹر سے گفتگو۔ فوٹو : فائل

ہمیشہ وہی لوگ ملک وقوم کا نام روشن کرتے ہیں جوزندگی کے مختلف شعبوں میں ایسا انوکھا اورمنفرد کام کریں جس سے ان کے وطن کوایک نئی پہچان ملے۔ اس سلسلہ میں زیادہ ترشخصیات کا تعلق کھیل اورفنون لطیفہ سے ہی ہوتا ہے کیونکہ زندگی کے تمام شعبوں میں یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

کھلاڑیوں کے کھیل کو پسند کرنے والوںکا تعلق کسی ایک ملک، قوم سے نہیں ہوتا ، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے فن سے اپنی منفرد پہچان بنانے والے بھی کسی سرحد کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کا فن سرحدوں کوختم کرتا اورلوگوںکو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ خاص طورپرموسیقی سے وابستہ گلوکاراور میوزیشن اپنے فن کے ذریعے جہاں لوگوں کو انٹرٹین کرتے ہیں وہیں امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔

ایسے ہی گلوکاروں میں ایک نام پاکستانی نژاد برطانوی اوپرا صوفی سنگر سائرہ پیٹر کا بھی ہے۔ جنہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ میوزک کی ایک ایسی صنف کوچنا، جس کوگانا اورسمجھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ ویسے توہمارے ہاں کلاسیکی موسیقی کے بڑے نامورگائیک موجود ہیں لیکن ویسٹرن کلاسیکی موسیقی کوگانے والے بہت کم ہیں۔ خاص طورپراوپرا سٹائل تواپنی مثال آپ ہے۔ مغربی دنیا میں جہاں اوپرا سنگرکوایک خاص مقام حاصل ہے، وہیں اوپرا کی پرفارمنس سننا بھی کسی اعزازسے کم نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سائرہ پیٹرنے اوپرا میوزک میں تربیت حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا توان کوبہترین رسپانس ملنے لگا۔ اس رسپانس کے بعد اگرسائرہ چاہتی تووہ مغرب کی ہی ہوکررہ جاتیں لیکن یہ ان کی پاکستان کی دھرتی اوراس کے کلچرسے محبت ہی ہے کہ انہوں نے حضرت بابا بلھے شاہؒ اورحضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒکے کلام کوانگریزی زبان میںترجمہ کرواکراسے ناصرف ریکارڈ کیا ، بلکہ ’ اوپرا صوفی ‘کے نام سے ایک نئی صنف متعارف کروادی۔

گزشتہ دنوں سائرہ پیٹرلاہورمیں تھیں، جہاں انہوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹس اینڈ کلچر کے زیراہتمام منعقدہ پروگرام میں اپنی عمدہ پرفارمنس سے سماں باندہ دیا، وہیں اپنے فنی سفرکے حوالے سے دلچسپ گفتگوکرنے کے ساتھ ’’ایکسپریس‘‘ کوخصوصی انٹرویوبھی دیا ، جوقارئین کی نذرہے۔

سائرہ پیٹرنے بتایا کہ میرا تعلق میوزیکل فیملی سے نہیں ہے لیکن میری سب سے چھوٹی بہن سارہ فرانسس نے میوزک کے شعبے کا انتخاب کیا اورانہوں نے افغان رفیوجیزکیلئے بہت سا کام کیا۔ ان کی خدمات پرانہیں برطانیہ کے سابق وزیراعظم نے اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اس کودیکھ کرمجھے بھی میوزک سے لگاؤ ہوااورشادی کے بعد جب سارہ نے میوزک کوخیر باد کہہ دیا تومیں نے اس کوباقاعدہ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں، میں نے ویسٹرن کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ حالانکہ اوپرا میوزک سیکھنا ایک بہت مشکل کام تھا۔ مگرمیں نے بڑی محنت ، لگن اورچاہت کے ساتھ اس کوسیکھا اوراس پرکام شروع کیا۔ اس وقت میں دنیا کی آٹھ زبانوں میں پرفارم کرتی ہوں۔ جن میں انگریزی، اٹالین، جرمن، فرنچ، سپینش، پنجابی، سرائیکی اور اردوشامل ہے۔

مغربی ممالک میں متعدد بار پرفارم کرنے کا موقع ملا اورجہاں ، جہاں بھی اوپرا پرفارم کیا، میری پرفارمنس کوحاضرین نے بے حد سراہا۔ اس سلسلہ میں میرے والد اورشوہرسٹیفن سمتھ کی مکمل سپورٹ حاصل رہی۔ میرے شوہرسٹیفن تومیرے ساتھ ہی پرفارم کرتے ہیں اورانہوں نے باقاعدہ میوزک کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کررکھی ہے۔  لیکن میری گائیکی اورمیری شناخت کی اصل وجہ توصوفی اوپرا میوزک ہے۔ جس کواس سے پہلے کسی نے بھی پیش نہیں کیا تھا۔ میں نے ویسے توویسٹرن کلاسیکی کے بہت سے میوزک کنسرٹس میں پرفارم کیا، لیکن صوفیانہ کلام کواوپراسٹائل میں انگریزی زبان میں پیش کرنے کا تجربہ شانداررہا۔

میں نے جہاں ، جہاں بھی پرفارم کیا، لوگوں نے اس تجربے کومنفردقراردیا، جوکہ میرے لئے باعث فخر بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے فنی سفرمیں میرے والدین کا کردارسب سے نمایاں رہا۔ میرے والد نے ہمیں ہمیشہ یہ تربیت دی ہے کہ دوسروں کی مدد کرواوران کے کام آؤ۔ اب میں میوزک کے ذریعے لوگوںکی خدمت کررہی ہوں۔ میرے والد نے کئی برس قبل لندن میں ملکہ ترنم نورجہاں کے نام سے 1998ء ایک ادارہ قائم کیا، جہاں پرنوجوانوں کو میوزک کی تربیت دی جاتی ہے۔

جہاں تک میرا تعلق ہے تومیں بھی ملکہ ترنم نورجہاں کی بہت بڑی پرستار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میری پرفارمنس ان کے گائے مقبول گیتوںکو پیش کئے بناء کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ میں مغربی ممالک میں صوفی اوپرا پیش کرتی ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میڈم نورجہاں کے گیت بھی میری پرفارمنس کا حصہ ہوتے ہیں اوران پرگورے بھی جھومتے دکھائی دیتے ہیں۔

سائرہ پیٹرنے بتایا کہ میں نے 2005ء میں پہلا البم ریکارڈ کیا لیکن اس کوریلیزنہ کرسکی۔ دوسرا البم حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کوانگریزی میں ترجمہ کرکے ریکارڈ کیا اوراب مزید صوفیاء کرام کے کلام کوبھی ریکارڈ کرنے کاارادہ ہے۔ جہاں تک بات پاکستان میں نوجوان گلوکاروں کی کلاسیکی موسیقی سے دوری کی ہے تواس کا بہترجواب تووہ خود ہی دے سکتے ہیں ۔ مگرکلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کی ہوتوپھرموسیقی کی کسی بھی صنف میں مار نہیں پڑسکتی۔

اس موقع پرسائرہ پیٹرکے شوہراورمیوزک ڈائریکٹرسٹیفن سمتھ نے کہا کہ مجھے کلاسیکی موسیقی سے بہت لگاؤ ہے۔ میرا تعلق امریکا سے ہے اورمیں استاد نصرت فتح علی خاں کے میوزک پرریسرچ کیلئے جب برطانیہ پہنچا تومیری ملاقات سائرہ سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ استاد نصرت فتح علی خاں کا میوزک سن کرمیںحیران رہ گیا۔ حالانکہ ان کا کلام اورمیوزک سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن اس کے باوجود اس میں اتنی کشش تھی کہ میں اس کوسنے بنا نہ رہ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے صوفیانہ کلام اورمیوزک سے بہت لگاؤ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔