پردہ نہ اٹھاؤ

ظہیر اختر بیدری  پير 21 جنوری 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں اگرکوئی سرمایہ دارکوئی بڑا پروجیکٹ لانچ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور منصوبہ بندی میں ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیںجو پروجیکٹ کو منافع بخش اور خطرات سے بچانے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

جاگیردارانہ نظام جب اپنی افادیت کھونے لگا تو دنیا میں سرمایہ دار طبقہ ابھرنے لگا، جب سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ تیارکیا گیا تو سب سے پہلے دو باتوں کو ترجیح دی گئی ۔ ایک منافع، دوسرے اس نظام کا تحفظ ۔ چونکہ اس نظام کے لیے کوئی مسابقت نہیں تھی، سو اسے کسی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ سو منصوبہ ساز مسابقت کی خوف سے آزاد تھے البتہ چونکہ نظام کی سرشت میں استحصال شامل تھا، لہذا منصوبہ سازکیمو فلاج کر کے اس کے استحصالی پہلو کو عوام کی نظر سے اوجھل کرنا چاہتے تھے اور یہ کام اس طرح کرنا چاہتے تھے کہ عوام کے ساتھ ساتھ اسے خواص کی حمایت بھی حاصل ہو ۔

سو ان منصوبہ سازوں نے جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو عوام اور اہل علم کی نظروں سے چھپانے یا اسے کیموفلاج کرنے کے لیے جمہوریت کا سہارا لیا اورکہا گیا جمہوریت کا مطلب ، عوام کی حکومت ، عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے ۔ یہ جہموریت کی ایسی پرکشش تعریف تھی کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس قاتل نظام کا گرویدہ ہوگیا۔ پھر منصوبہ سازوں نے جمہوریت کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ بادی النظر میں یہ نظام ’’عوامی‘‘ لگنے لگا۔ یعنی انتخابات کے ذریعے اپنے نمایندوں کا انتخاب ۔

اس پرکشش تصور سے دانشوروں اور اہل علم کو بھی مس گائیڈ کرکے انھیں جمہوریت کا حامی بنا دیا گیا ۔ ماضی کے یونانی دانشوروںکو براہ راست جمہوریت کے نفاذ میں کوئی دشواری اس لیے پیش نہیں آئی کہ اس دور میں آبادیاں بہت کم تھیں اور ضرورت کے وقت عوام کو ایک جگہ جمع کر لیا جاتا تھا ، یوں جمہوریت کو نیابتی بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ عوام براہ راست اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، نیابتی جمہوریت متعارف ہوتی گئی، یہی وہ فراڈ تھا جو انتہائی ہوشیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ ماڈل کیا گیا ۔

انتخابی نظام کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ اس نظام میں مالدار لوگ یعنی سرمایہ دار شرکت کر سکتے ہیں ۔ ترقی یافتہ دنیا میں جمہوریت کو کھلا فراڈ نہیں بنایا گیا ۔کیونکہ ان ملکوں کے عوام تعلیم یافتہ تھے ، وہ جمہوریت کے منفی پہلوئوں کو بھی سمجھتے تھے لیکن پسماندہ ممالک میں جہاں کے عوام عموما تعلیم اور سیاسی شعور سے محروم تھے ’’ہاتھ پائوں‘‘ باندھ کر جمہوریت کے شیروں کے سامنے ڈال دیا گیا ۔

جمہوریت شاہانہ اور جاگیردارانہ نظام کے مزار پر تعمیرکی گئی لہذا اس فراڈ میں ان طبقات کی بالادستی کا اہتمام نہیں کیا گیا، لیکن شرم سے ڈوب کرنے کا مقام ہے کہ جمہوریت کے پاکستانی ماڈل میں بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے اب ڈنکے کی چوٹ پر خاندانی اور موروثی جمہوریت کو نافذ کر دیا گیا اور تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوانوں کو سیدھا پارٹیوں کی قیادت کے منصب پر بٹھا دیا گیا ۔ چونکہ ہمارے ملک کے عوام میں اب تک شاہوں کی خوشامد کی عادت مضبوط ہے لہذا وہ بادشاہت سے خوش رہتے ہیں ۔ ہماری جمہوریت کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ ابھی تک اس جمہوریت میں جاگیردار بھی شامل ہیں ، صرف شامل ہی نہیں بلکہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ہم نے اس حوالے سے عوام کے مزاج کا ذکر کیا تھا کہ ابھی ان کی فطرت میں جاگیرداری اور شخصیت پرستی ٹوٹ ٹوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ اس حوالے اس شرمناک حقیقت کا ذکر نامناسب نہیں کہ ہماری سیاست میں صنعتکاروں کے داخلے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جاگیرداری نظام کی باقیات کا خاتمہ کر دیا جاتا اس کے برخلاف ہو یہ رہا ہے کہ جاگیر دار ہماری اسپیشل جمہوریت میں سب سے بڑا حصے دار بنا ہوا ہے ، بلکہ اقتداری صنعت کار طبقے کو بلیک میل کر رہا ہے اور ساتھ ہی پارٹنر بھی بنا ہوا ہے یہ ’’ ترکیب ‘‘ کسی جمہوریت میں نظر نہیں آتی۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ماضی کی سیاست کا فعال بایاں بازو چھومنتر ہوگیا ہے ۔ وہ اکیسویں صدی کی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے ابھی تک اسٹڈی سرکل اور انڈرگرائونڈ سیاست کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، اسے ہم اکہتر سال کا تسلسل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بعد از وقت سیاست اور انقلاب کی بے موقع راگنی کی وجہ سے وہ نہ ادھر کا رہا ہے نہ ادھر کا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے شاطروں کو اندازہ تھا کہ بھوک بیکاری ، بیماری سے تنگ آئے ہوئے لوگ کسی بھی وقت انقلاب فرانس کی راہ اختیار کر سکتے ہیں ۔

اس عوامی یلغار سے بچنے کے لیے مصنوعی اختلافات کے حوالے سے بھاری اسلحے کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے جو آخرکار عوام کے خلاف ہی استعمال ہونگے ۔اس ملک میں جو لوگ اشرافیہ کی بالادستی کا خاتمہ چاہتے ہیں ان کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ اس اشرافیائی جمہوریت کا خاتمہ کر کے عوامی جمہوریت کی ابتدا کریں کیونکہ جب تک یہ نام نہاد فراڈ جمہوریت موجود ہے عوام کی حکومت ، عوام کے لیے کی لازمی جمہوری شرط پوری نہیں ہو سکتی ۔ پچھلے دس سال کے دوران اشرافیائی حکمرانوں نے اربوں کھربوں کی کرپشن کر کے ملک کو کنگال کر دیا اور ملک سر سے پائوں تک اربوں کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سابقہ حکمران اشرافیہ اور اس کے ایجنٹ پروپیگنڈا کا طوفان اٹھائے ہوئے ہیں کہ عمران حکومت کی وجہ سے ملک قرضوں میں ڈوب گیا ہے ۔ ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے، مہنگائی چاند پر پہنچ گئی ہے، وغیرہ، وغیرہ ۔ ان شرم کے دشمنوں کو یہ تک احساس نہیں رہاکہ عمران حکومت کو اقتدار میں آئے صرف پانچ ماہ ہوئے ہیں وہ اتنے کم عرصے میں اتنے کارنامے انجام نہیں دے سکتے یہ سب آپ جناب کے کارنامے ہیں ۔

ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کے شاطروں کے حوالے سے ابتدا میں نشان دہی کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کو منصوبہ سازوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے ، جمہوریت کا نقاب اوڑھنے کی حکمت عملی بنائی تھی جوکامیاب رہی عام اور خاص طور پر عقل سے پیدل مڈل کلاس جمہوریت کے قلابے ملانے میں بڑی مہارت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس طلسم ہوش ربا کو روندے بغیر نہ اس ملک میں عوامی جمہوریت آسکتی ہے نہ عوام کی حکمرانی آسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔