سائیکل ریس

راؤ منظر حیات  پير 21 جنوری 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

چنددن پہلے قومی اخبارات میں مختصرسی خبرشایع ہوئی تھی۔پشاورمیں خواتین کی سائیکل ریس کوصرف اس وجہ سے منسوخ کردیاگیاکہ مذہبی جماعتوں نے اعلان کیاتھاکہ اس ریس کی بھرپورمخالفت کریں گے۔ ہر طریقے اورزاویہ سے ’’ بے حیائی‘‘ کے اس نمونے کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔یہ دوڑایک مقامی این جی او کرا رہی تھی۔

لازم ہے کہ انتظامیہ کے تعاون سے ہی طے ہواہوگا۔مگرسب کچھ ختم کیوں ہوا؟ صرف اس لیے کہ ایک طاقتور گروہ ایسا نہیں چاہتا تھا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں کیاآپ انسانی فکر اور عمل کوکسی بھی طریقے سے دباسکتے ہیں؟کیاخواتین کو مردوں کے برابر کے حقوق دینے سے انکارکرسکتے ہیں؟یہ سوال ملک میں ہر ایک باشعور ذہن میں موجودہے۔مگر اس پر بات کرنا اَزحد مشکل ہو چکا ہے۔ وجہ صرف اورصرف گزشتہ چالیس برس میں ریاستی سطح پرمخصوص طرز فکرکوپروان چڑھا کر لوگوں کوآزادسوچ سے محروم کرناہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ کیا پاکستان کے بڑے شہروں میں چالیس برس پہلے لڑکیاں اورخواتین سائیکل استعمال نہیں کرتی تھیں۔شائدچھوٹی عمرکے مرد اورخواتین کویقین نہ آئے کہ لاہور،کراچی، پشاور اور دیگربڑے شہروں میں لڑکیاں سڑکوں پرعام سائیکل چلاتی نظرآتی تھیں۔کوئٹہ کاذکرکرنابھول گیا۔ مجھے بہت سے لوگوں نے بتایاکہ کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر بھی کئی بچیاں اسکول اورکالج آنے جانے کے لیے سائیکل کا عام استعمال کرتی تھیں۔

فیصل آباد میں متعدد بار لڑکیوں کوسائیکل چلاتے دیکھا ہے۔ ڈویژنل پبلک اسکول کی اندرونی سڑکوں پر اکثر اوقات خواتین سائیکل چلاتی نظرآتی تھیں۔یہ نہ کوئی معیوب بات سمجھی جاتی تھی،نہ ہی اسے کسی قسم کی مذہبی سندکی ضرورت تھی۔یہ زندگی میں ایک عمومی رویہ تھا مگر گزشتہ چالیس برس میں ہم نے حکومتی سطح پر انتہاپسندی کی سرپرستی کی ہے حالانکہ یہ ایک قومی جرم تھامگراسے ماضی کے مقتدر طبقے نے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو کر دھڑلے سے یہ مشن سرانجام دیا۔

سوویت یونین کو شکست دیتے دیتے ہم نے اپنا تہذیب یافتہ معاشرہ برباد کر لیا۔ آزادسوچ کوختم کر ڈالا۔ جس نے اختلاف کیا، اسے خاموش کرادیاگیا یا وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ شدت پسندی کو معاشرے میں شامل کرنے کے قومی جرم کو آج تک باضابطہ طورپرتسلیم نہیں کیا گیا۔ اسے ختم کرنے کے لیے کوئی فکری،علمی یاسماجی جدوجہد نہیں کی گئی۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ انتہا پسندی روپ بدل بدل کر ہمارے سامنے عفریب بن کرآجاتی ہے۔

گزشتہ چھ برس سے ہمارے عسکری ادارے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں مگر تاحال اس عفریت پرمکمل طورپر قابو نہیں پایاجاسکا۔کئی افسران جن کا تعلق کے پی کے قبائلی علاقوں سے ہے، وہ اس جنگ کے متعلق ناقابل یقین حقائق سامنے رکھتے ہیں۔ان کے بقول اس جنگ کی شدت کم تو ہوسکتی ہے مگرمکمل جیت لیے لمبی جدوجہد کی ضرروت ہے۔ اس کی وجہ وہ مخصوص سوچ اور فکر ہے جونسل درنسل منتقل ہوئی ہے۔اس فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس متبادل بیانیہ موجود نہیں ہے۔ لبرل تو دور کی بات معتدل طرز فکر کو بھی تقریباً ناممکن بنادیاگیاہے۔

دس بارہ برس پہلے لاہورمیں خواتین کی ایک دوڑ کا اہتمام کیاگیاتھا۔اسے ناکام بنانے کے لیے بھی شدت پسند عناصر خم ٹھوک کرسامنے آگئے تھے ۔اچھی طرح یادہے کہ فاروق حیدرمودوی،مرحومہ عاصمہ جہانگیراوردیگر نے اس دوڑکے حق میں جلوس نکالا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ دوڑ کامیاب ہوپائی کہ نہیں۔جوہری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا طبقہ اکثریت میں ہے جوخودبھی زندہ رہناچاہتاہے اور دوسروں کوبھی زندہ رہنے کاحق دیتاہے۔مگرایک طاقتور اقلیت انتہا پسندی کے بیانئے کے بل بوتے پر ریاست پرقبضہ کرناچاہتی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا شدت پسندطبقہ، یو اے ای، بحرین ، قطر، ترکی، مراکش، تیونس اورملائیشیاکی طرف کیوں نہیں دیکھتا۔ جہاں ہر شخص اپنے مذہبی افکارکے ساتھ بڑے آرام سے زندگی گزاررہاہے۔تین ماہ پہلے ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ خواتین نے حجاب بھی لے رکھاتھا۔ کچھ خواتین اسکرٹ زیب تن کیے بڑے آرام سے آجارہی تھیں۔ مغربی لباس اور سماجی ترقی کاایک امتزاج ہے جو بہرحال ہمارے ملک سے کافی بہترہے۔وہاں بارز اور کسینوز بھی موجود ہیں۔ کوئی کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتاتک نہیں تھا۔مراکش اورتیونس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔دبئی بھی ایک ایساشہرہے جہاں مغربی زندگی اورمذہبی رواداری عام نظرآتی ہے۔

ہرچیزچھوڑدیجیے۔افغانستان کی مثال سامنے رکھیے۔ آج کہیں بھی اس بدقسمت ملک کاذکر کریں۔ جنگ، بم دھماکے،قتل وغارت اوربدحالی کی تصویر سامنے آجائے گی۔مگر1977ء سے قبل افغانستان ایک انتہائی مہذب اورلبرل معاشرے کی تصویرتھا۔اچھی طرح یادہے کہ فیصل آبادسے لوگ گاڑیوں اوربسوں پر صرف سیرکے لیے کابل جایاکرتے تھے۔

دنیاکی تمام نئی فلمیں کابل میں اسی طرح ریلیزہوتی تھیں جیسے نیویارک،لندن اور دیگر شہروں میں۔سیکڑوں چائے خانے، کیفے، بارز موجود تھے اوریہ مکمل طورپرپُرسکون اور پر امن شہرتھا۔ہزاروں کی تعدادمیں مغربی سیاح افغانستان کے گلی کوچوں میں موجود رہتے تھے۔وہاں سے پاکستان آتے تھے۔ آپ کو بالکل یقین نہیں آئیگا۔ لاہورشہرکاانٹرنیشنل ہوٹل مغربی سیاحوں کی آماجگاہ تھی۔

مال روڈپراَن گنت مرداورخواتین سیاح چہل قدمی کرتے نظرآتے تھے۔بڑی بڑی بسوں میں مغربی سیاحوں کے کارواں لاہوراوردیگربڑے شہروں میں پڑائوڈالتے تھے۔آسودہ حال گورے اور گوریاں، انٹرکونٹینینٹل ہوٹل میں قیام پذیررہتے تھے۔کراچی میں بھی یہی عالم تھا۔دنیاکی تمام ائیرلائنزکراچی کو اپناگڑھ گردانتی تھیں۔کلبزاورجدیدہوٹلوں کاایک جال تھا جو ہر طرف شائستگی کے ساتھ پھیلاہواتھا۔کوئی پاکستانی دوسروں کومذہبی عقائدکی بنیادپرتنگ نہیں کرتا تھا۔ ریاستی جبر بھی موجودنہیں تھا۔مگرآج سب کچھ زیرِزمین چلا گیا ہے۔

سب کچھ ہورہاہے۔مگرچھپ کے، ڈرکے۔ہم نے گزشتہ چالیس برسوں میں معاشرتی رویوں پرمنافقت کی ایسی چادرچڑھادی ہے جسکوبیان نہیں کیاجاسکتا۔کئی مغربی سفارتکاروں نے بتایاکہ جتنا’’مشروب صحت ‘‘اسلام آباد، لاہور، کراچی اورپاکستان کے شہروں میں پوشیدہ طریقے سے استعمال کیاجاتاہے۔ہرچیزچھپ کر ہو رہی ہے۔ یہ منافقت ہمیں لے کربیٹھ گئی ہے ۔اس سے زیادہ میں کیالکھوں،کیاعرض کروں۔مجھے بھی یہاں اس ملک میں رہناہے۔

ہماری سیاسی جماعتیں حددرجہ کمزور ہیں۔ ہمارے سیاسی اکابرین اس قدرکمزورہیں کہ انتہا پسند سماجی رویوں کوقطعاًزیرِبحث نہیں لاتے۔ذکرکرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں کہ کہیں لوگ انھیں اعتدال پسندطبقے سے منسلک نہ کرلیں۔کسی بھی پاکیزہ دینی اُصول کے زاویے سے عملی زندگی کوپرکھیے۔ دوعملی،منافقت اورغلیظ رویے دیکھ کرحیران ہو جائیں گے۔کاروباری طبقہ لوٹ مار کو جائز سمجھتا ہے۔ سرکاری ملازم دھڑلے سے رشوت وصول کرتا ہے۔ ہرجانب کوڑے کرکٹ کے انبارنظرآتے ہیں۔ ایک انچ بھی ایسا نہیں ہے جس کے متعلق کہاجاسکے کہ یہاں مہذب لوگ رہ رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں نوجوان نسل سب سے زیادہ پریشان ہے۔آگاہی کے جدیدانقلاب نے انھیں ہر چیز سے روشناس کردیاہے۔ہرنوجوان بچے اور بچی کے ہاتھ میں موبائل فون نے جدیددنیاسے منسلک رہنے کاایک بھرپورجوازفراہم کر دیا ہے۔ جدیدنسل سمجھ ہی نہیں پاتی کہ ہمارے ملک میں دہری زندگی گزارناہی اصل شعار ہے۔ جھوٹ، فریب، دھوکا بازی،وعدہ خلافی اورظلم کرنا ہماری پہچان ہے۔

ہم خواتین کی ایک سائیکل ریس کو زندگی اورموت کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔مگرزندگی کی اصل دوڑمیں منافقت اور جہالت کی سائیکل کوکسی قیمت پرنہیں روک سکتے۔ان عجیب وغریب رویوں کے ساتھ ترقی کرنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔