سردار عثمان بزدار کا انداز سیاست ؟

مزمل سہروردی  پير 21 جنوری 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک تیزی نظر آرہی ہے۔ سیاسی بساط تبدیل ہو رہی ہے۔ مرکز میں عمران خان کی حکومت اپوزیشن کے متحد ہونے سے پریشان لگ رہی ہے۔ شاید اسکرپٹ میں اتنا جلدی اپوزیشن کا متحد ہونا نہیں تھا۔ لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں روز اسکرپٹ بدلتا ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں اسکرپٹ میں تبدیلی نظر آرہی ہے لیکن میں اس تبدیلی کو کسی اور نظر سے دیکھ رہا ہوں۔

میرے خیال میں مرکز میں تحریک انصاف کی حکومتی ٹیم کو پنجاب میں سردار عثمان بزدار سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کرنے کا طریقہ اب انھیں بزدار سے سیکھنا ہو گا۔ عمران خان کے وسیم اکرم کی کارکردگی ان سے بہتر جا رہی ہے۔ آپ کہہ رہے ہونگے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مرکز نے منظر نامے میں ایسی تیزی پیدا کر دی ہے کہ پنجاب کا سیاسی سکون کسی کو نظر نہیں آرہا ۔

میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں جس طرح سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھا جا رہا ہے۔ بڑ ے بڑے معاملات کو احسن طریقے سے حل کیا جارہا ہے۔ مرکز کی تحریک انصاف کی ٹیم کو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سردار عثمان بزدار کے تحمل اور برداشت سے مرکز کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بزدار کی سیاسی حکمت عملی کو مرکز میں اپنانے کی ضرورت ہے۔

کیا سردار عثمان بزدار روز تند و تیز بیانات نہیں دے سکتے۔کیا انھیں چور چور کے نعرے لگانا نہیں آتے۔کیا وہ روز میڈیا کو اپنے گرد نہیں گھما سکتے۔ اگر پنجاب کا ایک چھوٹا وزیر ہیڈ لائنز بنا سکتا ہے تو سوچیں اگر وزیر اعلیٰ ایسے زبان استعمال کرے تو کتنی بڑی بڑی ہیڈلا ئنز بنیں گے۔ لیکن سردار عثمان بزدار نے ایک شعوری کوشش کے تحت پنجاب میں سیاسی درجہ حرات کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں مرکز کو سردار عثمان بزدار سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کپتان کو اپنے وسیم اکرم سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سردار عثمان بزدار کو تبدیل کرانے کی خواہش رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ سردار عثمان بزدار اس وقت عمران خان کی لائف انشورنس ہیں۔ سردار عثما ن بزدار کے خلاف سازش کرنے والے دراصل عمران خان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اب سردار عثمان بزدار اور عمران خان ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ اس لیے سردار عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اور جب تک مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔

مرکز کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے سردار عثمان بزدار خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ شہر شہر جا رہے ہیں، اسپتال جیلیں اور دیگر دفاتر دیکھ رہے ہیں۔ وہاں کے مسائل وہاں بیٹھ کر حل کر رہے ہیں۔ وہ لاہور میں نہیں بیٹھے ہیں۔ بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے نہیں کر رہے ہیں۔ سردار عثمان بزدار کو علم ہے کہ اگر اسپتال ٹھیک کرنے ہیں تو لاہور سے نکلنا ہو گا۔ ہر سپتال کو خود دیکھنا ہوگا۔ پھر اس اسپتال کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

شاید سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اسپتالوں کے دوروں سے تو پنجاب کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیوںکہ ان کے پاس تو کوئی اختیار نہیں تھا۔ اختیار تو سردار عثمان بزدار کے پاس ہے اس لیے امید یہی ہے کہ ان کے دوروں سے بہتری آئیگی۔ ویسے بھی جس کا کام ہو وہی کرے تو بہتر ہے۔ ا س ضمن میں بھی سب کو سردار عثمان بزدار سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کمال کا بندہ ہے صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔

سندھ کی سیاست پر بیان دینے کی کوشش نہیں کرتا۔ نیب کے بے وجہ دفاع کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ خود کو جے آئی ٹی سے بھی الگ رکھتا ہے۔ کاش مرکز کے لوگ سردار عثمان بزدار سے ہی سبق سیکھ لیں۔ سرادر عثما ن بزدار جنوبی پنجاب کے لیے بہت کام کر رہے ہیں۔ پہلے جنوبی پنجاب کے لیے الگ انتظامی سیکریٹریٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اب انھوں نے جنوبی پنجاب کے لیے الگ پبلک سروس کمیشن بنانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ان فیصلوں کی ہیڈلائنز نہیں بنتیں۔ ان پر ٹاک شوز نہیں ہوتے۔ لیکن یہ بڑے اور تاریخی کام ہیں۔

اس ضمن میں بھی سردار عثمان بزدار کی حکمت عملی بہترین ہے۔ انھوں نے جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ بننے کا انتظار نہیں کیا۔ اس طرح تو نہ نو من تیل ہوتا نہ رادھا ناچتی۔جہاں تک جنوبی پنجاب کا تعلق ہے۔ تو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سردار عثمان بزدار جنوبی پنجاب کی آخری امید ہیں۔ ان کے بعد دوبارہ جنوبی پنجاب کو وزارت اعلیٰ ملنا مشکل ہو جائے گی۔ سردار عثمان بزدار نے خود کو بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے تنازعہ سے بھی نہا یت سمجھداری سے الگ رکھا ہے۔ بلکہ انھوں نے اس تنازعہ کی آگ کو کم کرنے کے لیے پنجاب کابینہ کا پہلا اجلاس بہاولپور میں کیا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کو بہاولپور میں کابینہ کے اجلاس میں سے سمیع اللہ کی ایک بات ہی نظر آئی۔ جس میں سردار عثمان بزدار کا کوئی قصور نہیں تھا۔ لیکن میڈیا نے اپنی ستم ظریقی کا نشانہ بزدار کو بنایا۔ لیکن سردار عثمان بزدار کی ایک خوبصور ت بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا رد عمل نہیں دیتے۔ وہ غصے میں نہیں آتے۔ تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے انھیں سلجھا نے کی سیاست کرتے ہیں اسی لیے پنجاب میں سکون ہے۔

ساہیوال کے واقعے نے بھی سب کی آنکھیں نم کر دی ہیں۔ ایسے واقعے کی کسی بھی مہذب معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ پولیس ریفارمز اس حکومت کا ایک انتخابی وعدہ ہے۔ جس پر ابھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ میری تجویز ہے جس طرح معصوم زینب کے قاتل کو پھانسی دی گئی ہے۔ اسی طرح ساہیوال سانحہ کے ذمے داران کو بھی جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے۔ ان کا مقدمہ بھی معصوم زینب کے قاتل کے مقدمہ کی طرح دنوں میں مکمل ہونا چاہیے اور قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے۔ اس بار یہ دلیل قبول نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح فورس کا مورال ڈائون ہوگا۔ قتل کا لائسنس بہر حال نہیں دیا جا سکتا۔

ساہیوال کے واقعے میں بھی سردار عثمان بزدار نے فوری ایکشن لیا ہے۔ وہ میانوالی میں تھے اور فورا ساہیوال پہنچے۔ جے آئی ٹی بنائی ہے۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ انھوں نے بیان بازی کے بجائے کام پر توجہ دی اور مجھے امید ہے کہ سردار عثمان بزدار اس ضمن میں ایک مثال قائم کریں گے۔بہر حال یہ کوئی پہلا واقعے نہیں ہے۔کراچی میں رینجرز سے بھی ایسا ہی واقعے ہوا تھا۔ ان کو بھی سزا ملی تھی۔

پنجاب میں ق لیگ کے بدلے بدلے تیور بھی سیاسی منظر نامے میں ہیجان انگیزی پیدا کر رہے ہیں۔ اگر مینگل کے بعد ق لیگ بھی چلی گئی تو تحریک انصاف کے لیے پنجاب اور مرکز میں اپنی حکومت قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

پنجاب میں ق لیگ کے وزیر حافظ عمار یاسر کے استعفیٰ نے بھی ایک بحران پیدا کیا ہے لیکن اس ضمن میں بھی سردار عثمان بزدار کی کاوشیں مثبت ہیں۔ استعفیٰ کے فورا بعد وہ چوہدری پرویز الٰہی کے گھر گئے ہیں اور انھوں نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے تا ہم جو معاملات مرکز نے حل کرنے ہیں ان میں سردار عثمان بزدار کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن اگر مرکزی حکومت ان معاملات کو بزدار کی حکمت عملی کے تحت حل کرنے کی کوشش کرے تو کامیابی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔