فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع: ضروری کیوں ؟

تنویر قیصر شاہد  پير 21 جنوری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

لیجیے ، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے بارے میں پیپلز پارٹی کا نقطہ نظر واضح طور پر سامنے آگیا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی زیر صدارت ہونے والے ایک غیر معمولی اجلاس میں پیپلز پارٹی نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ ’’ملک میں دہشتگردی کم ہو گئی ہے، اس لیے اب فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں ہے، ان کی مدت میں توسیع کی حمایت نہیں کریں گے۔‘‘

ساتھ ہی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا ایک بیان اِن الفاظ میں سامنے آیا ہے: ’’فوجی عدالتیں فوج کی خواہش نہیں قومی ضرورت تھیں، اگر پارلیمنٹ نے ان کی مدت میں توسیع کی تو یہ اپنا کام جاری رکھیں گی؛ تاہم دیکھنا ہو گا کہ کیا ملک کا فوجداری نظام اب موثر ہو گیا ہے؟‘‘۔ ہمارے ہاں فوجی عدالتوں کا تصور نیا نہیں ہے ۔

جنرل ضیاء الحق کے دَور ِآمریت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوجی عدالتیں بروئے کار آئیں۔ وطنِ عزیز میں سیاسی، صحافتی، ثقافتی اور سماجی آزادیاں و سرگرمیاں ان کی زَد میں آئی تھیں۔ تقریباً چار سال پہلے فوجی عدالتیں پھر سے قائم کی گئی تھیں۔دہشتگردی اور دہشتگردوں کو لگام ڈالنے کے لیے۔ ہمارے دشمنوں نے بھی اپنے پروردہ دہشت پسند عناصر کے ذریعے پاکستان میں آگ اور خون کا نیا کھیل کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ ایک لاکھ کے قریب بیگناہ پاکستانی شہری انسانیت دشمن دہشتگردوں کی وارداتوں کے بھینٹ چڑھ گئے ۔

دسمبر2014ء کے وسط میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو کے قریب معصوم طلبا و طالبات اور اسکول اسٹاف کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی کا عروج تھا۔ اے پی ایس کا خونریز سانحہ، جس کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی، سب کو رُلا گیا تھا۔ ہمارے اشک ہنوز خشک نہیں ہو سکے ہیں۔ یہ سانحہ ہی ملک میں ایک بار پھر فوجی عدالتوں کے قیام کا باعث بن گیا تھا تاکہ دہشتگردوں کو سخت اور فوری سزائیں دی جائیں اور دہشتگردی کا قلع قمع بھی ہو سکے۔

دہشتگردوں کی گردن مروڑنے کے لیے ملک میں ’’ضربِ عضب‘‘ اور ’’ردّ الفساد‘‘ ایسے ملٹری آپریشن بھی بروئے کار لانے پڑے۔ فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے آئین میں (21 ویں) ترمیم کی گئی تھی۔ جنوری2015ء کو باقاعدہ ملٹری کورٹس کا آغاز کر دیا گیا۔ ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی۔یہ فوجی عدالتیں دو سال کے لیے منظور کی گئی تھیں لیکن 2017ء میں دو مزید برسوں کے لیے ان کی مدت میں توسیع کی گئی تھی۔اب مارچ 2019ء سے پہلے ایک بار پھر ان میں توسیع مطلوب ہے۔ملک بھر کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں اس بارے بحث ہو رہی ہے۔

دسمبر2018ء کے وسط میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی اور اُن کے فیصلوں بارے ایک رکنِ قومی اسمبلی کے سوال کا جواب دیتے ہُوئے وزیر دفاع، جناب پرویز خٹک، نے یوں بتایا تھا: ’’ضربِ عضب ملٹری آپریشن کے آغاز سے لے کر اب تک وزارتِ داخلہ نے دہشت گردوں کے717 مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجے ہیں۔ ان میں سے 185کیسز ابھی تک پراسیس میں ہیں۔ان کا فیصلہ 15مارچ2019ء سے پہلے پہلے کیا جانا ہے۔ ‘‘

بقول پرویز خٹک صاحب، ملٹری کورٹس میںکنوکشن ریٹ 60 فیصد سے زائد ہے۔ مذکورہ فوجی عدالتوں کی طرف سے اب تک284 دہشتگردوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور ان میں سے 56 پھانسیاں پا چکے ہیں۔ تقریباً192 مجرموں کو سخت بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں، 2 رہا کیے گئے اور 54 ملزمان وہ ہیں جن کے مقدمات ٹیکنیکل بنیادوں پر خارج کیے گئے ہیں۔

فوجی عدالتوں کا کام مگر ابھی ختم نہیں ہُوا ہے؛ چنانچہ ان کی مدت میں توسیع وقت اور عدل کی ضرورت خیال کی جا رہی ہے۔ اس حساس معاملے کے بارے میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے میڈیا جناب افتخار درانی کہتے ہیں کہ ’’فوجی عدالتوں میں ایک بار توسیع کی جائے گی‘‘ جب کہ حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’’وزیر اعظم عمران خان نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے میں اپوزیشن کے ساتھ دو رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔‘‘

اور اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ نون لیگی قیادت نے کہا ہے کہ ’’فوجی عدالتوں کے قیام اور اُن کی اب توسیع پر حکومت ہمیں مطمئن کرے تو ساتھ دیں گے۔‘‘ ساتھ ہی پیپلز پارٹی کا نقطہ نظر بھی سامنے آگیا ہے۔ چار سال قبل پیپلز پارٹی بحیثیت مجموعی فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت بھی بمشکل ہی مانی تھی۔ لگتا یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں ہی بالآخرمان جائیں گی لیکن ابھی ’’اصول پسندی‘‘ دکھائی جا رہی ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر قانون جناب فروغ نسیم کہہ رہے ہیں : ’’فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی ضرورت ہے لیکن حکومت اور اتحادیوں، دونوں کی خواہش ہے کہ اس معاملے میں ڈبیٹ کے بعد فیصلہ ہو۔ بِل لانے سے قبل حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ضروری ہے۔ اگر ہماری حکومت کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہوتی، تب بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے بارے میں اتفاقِ رائے کے بعد ہی فیصلہ کیا جاتا۔پاکستان میں فوجی عدالتوں کی اُس وقت تک ضرورت ہے جب تک سویلین عدالتوں کی آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات کے تناظر میں استعدادسازی نہیں ہو جاتی۔‘‘

جناب فروغ نسیم صاحب کہتے تو ٹھیک ہیں لیکن حیرت ہے کہ اجتماعی طور پر کوئی بھی موقف شفاف انداز میں سامنے نہیں آرہا۔ ملٹری کورٹس کے بارے میں اپوزیشن سے بات چیت کرنے کے لیے قائم کی گئی حکومتی کمیٹی میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شامل ہیں ۔ افتخار درانی اور فروغ نسیم کے بیانات کا تقابل کیا جائے تو ہمیں ان میں بھی ابہام نظر آتا ہے۔ قومی سطح پر یہ احساس ہو رہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے پورا زور نہیں لگایا جا رہا ہے۔

یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی حساس معاملے میں بھی حکومت کے کارپردازوں میں باہمی ربط اور کوارڈی نیشن معدوم ہے۔ یوں ایک بار پھر ملٹری کورٹس کی مدت میں توسیع کے حوالے سے بھی کنفیوژن ہی پھیلا ہے۔یہ کنفیوژن ضرررساں ہے۔حکومت یہاں بھی متذبذب سی ہے۔

اس تذبذب کی موجودگی میں ملک اور بیرونِ ملک وہ قوتیں جو فوجی عدالتوں سے خائف اور اُن کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں ، ان سب کو حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کے مواقعے ملتے ہیں (جیسا کہ پاکستان میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کا 14جنوری 2019ء کو ایک مفسدانہ بیان آیا ہے) ہم تو بہر حال یہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردوں کا ٹیٹوا دبانے کے لیے فوجی عدالتیں ملک و قوم کی سلامتی اور تحفظ کے لیے از حد ضروری ہیں۔ یہ فوجی عدالتیں جس جانفشانی، انصاف اور تیزی کے ساتھ ملک دشمن عناصر اور دہشتگردوں سے نبٹی ہیں، ان کی تحسین کی جانی چاہیے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اگر زیر حراست دہشتگردوں کے معاملات عام عدالتوں کے سپرد کیے جاتے تو ابھی تک ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی کوئی واضح فیصلہ نہ آتا اور نہ ہی ان بدمعاشوں اور خون آشاموں میں سے کسی ایک کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا ہوتا۔ ایسے میں ہمارے ملک کی نامور دینی و سیاسی شخصیت اور قائدِ تحریکِ منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بالکل درست اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’فوجی عدالتوں کے فیصلوں سے ہمارے ملک میں دہشتگردوں کی کمر ٹوٹی ہے، انھیں توسیع نہ ملی تو دہشتگردی پلٹ آئیگی۔ گزشتہ چار سال میں سویلین سائیڈ سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مطلوبہ اقدامات نظر نہیں آئے، نیشنل ایکشن پلان بھی فائلوں میں بند پڑا رہا۔‘‘

ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کو بھی ملٹری کورٹس کی مدت میں توسیع کے بارے میں ویسا ہی صاف اور غیر مبہم موقف اختیار کرنا چاہیے جیسا کہ طاہر القادری صاحب نے اختیار کیا ہے تاکہ قوم حق الیقین کے ساتھ یکسو ہو سکے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری فوجی عدالتوں نے جرأت و ہمت کے ساتھ اور انصاف کا ترازو تھام کر ان دہشتگردوں سے دو دو ہاتھ کیے ہیں، امن کی فضا قائم ہُوئی ہے اور ان کے فیصلوں سے دہشتگردوں کی ہمتیں ٹوٹی ہیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے کسی کو اِسے بطورِ ’’بارگیننگ چِپ‘‘استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔