متحدہ اپوزیشن کا قیام... حکومت گرانا نہیں غلط پالیسیوں کا محاسبہ کرناچاہتے ہیں!!

احسن کامرے / اجمل ستار ملک  پير 21 جنوری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد سے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن پر قابو پانا کافی مشکل نظر آرہا ہے۔

حال ہی میں اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کے خلاف متحد ہوگئی ہیں لہٰذا یہ متحدہ اپوزیشن حکومت کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد کیوں بنا؟ کیا یہ صرف حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے بنایا گیا ہے یا پھر حکومت گرانے کی کوشش بھی کی جائے گی؟ متحدہ اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے حکومت کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’متحدہ اپوزیشن اور حکومت کیلئے چیلنجز‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کاا ظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عظمیٰ بخاری (رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)

ملکی تاریخ میں اپوزیشن ہمیشہ منظم رہی جس کا مقصد حکومت کا محاسبہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اپوزیشن کے موجودہ اتحاد پر اتنا شور کیوں مچایا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ اب بھی ہمیں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ اب جواب دینے کی باری حکومت کی ہے۔ عمران خان سے یہ پوچھنا چاہیے کہ جن سیاستدانوں کی وہ مخالفت کرتے تھے وہ آج ان کے اتحادی کیسے بن گئے؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مخالفت کے باوجود اکٹھے ہوگئے، ہم تو پہلے بھی ملکی مفاد کی خاطر مشترکہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن حکومت کو گرانے کیلئے نہیں بنائی گئی بلکہ ہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو اس کی غلط پالیسیوں پر ٹف ٹائم دیں گے جبکہ حالات کے پیش نظر مستقبل کا لائحہ عمل دیا جائے دیا۔ابھی ہمارا فوکس 23 جنوری کو آنے والے منی بجٹ پر ہے جس پر سخت ردعمل دیا جائے گا۔ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ ڈیلور نہیں کر پائیں گے لہٰذا ابتدائی 100 دنوں میں ہی حکومتی نااہلی کا پول کھل گیا جبکہ 5 ماہ کی کارگردگی پر صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی شدید تحفظات ہیں۔گلی محلوں میں حکومت کے بارے میں ہونے والی گفتگو افسوسناک ہے، آج سے پہلے کسی بھی حکومت کے خلاف اتنی جلدی عوامی ردعمل نہیں آیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نہ نکلے تو پھر عوام خود بخود سڑکوں پر آجائیں گے۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ حکومت سب کچھ پچھلی حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتی ہے اور جھوٹے بیانات سے عوام کو گمراہ کیا جارہاہے۔ یہ کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے خزانہ خالی کر دیاجو درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت، نگران حکومت کو 17 ارب ڈالر دے کر گئی جبکہ نگران حکومت کے دور میں زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالر پر پہنچ گئے۔ عمران خان تو جلسوں میں کی جانے والی تقاریر میں بھی عوام کو گمراہ کرتے تھے اور یہ امید دیتے تھے کہ ان کے اقتدار میںآتے ہی یکدم سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تحریک انصاف اپنی تمام باتوں پر  یوٹرن لے رہی ہے۔ عمران خان نے بیرون ملک دورے نہ کرنے کا کہا مگر اب وہ دورے کر رہے ہیں اور خصوصی طیارہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں کہتے تھے کہ معاملات پارلیمنٹ میں زیر بحث لائیں جبکہ وہ خود کسی بھی بیرون ملک دورے یا معاہدے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لے رہے  بلکہ وہ تو پارلیمنٹ میں بھی نہیںا ٓتے۔ ہمیں یہ طعنے دیے جاتے تھے کہ چین کے ساتھ معاملات کو پبلک کیوں نہیں کرتے جبکہ اب خود انہوں نے ترکی میں ایک انٹرویو کے دوران یہ تسلیم کیا کہ چین معاہدوں کو پبلک نہیں کرنا چاہتا۔ اب وہ خود وزیراعظم ہیں تو یہ خفیہ معاہدے بھی انہیں ٹھیک لگ رہے ہیں۔ ایل این جی معاہدوں کوپی ٹی آئی تنقید کا نشانہ بناتی رہی، یہ کہتے تھے کہ ایل این جی معاہدہ تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے مگر اب ان کے وزیر پٹرولیم، ایل این جی معاہدے کو شفاف قرار دے رہے ہیں۔ سی پیک منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے مگر اب یہ منصوبہ ٹھیک ہوگیا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جو وعدے انہوں نے کیے تھے ان کا کیا ہوا۔ ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے، اب ان کو وہ تمام وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ افسوس ہے کہ موجودہ حکومت نے 5 مہینوں میں کسی ایک محکمے کی بھی پالیسی نہیں بنائی ۔ وزیر خزانہ ابھی تک یہ نہیں بتا سکے کہ جی ڈی پی کا اگلا ٹارگٹ کیا ہوگا جبکہ برآمدات، درآمدات کی کوئی پالیسی بھی نہیں دے سکے۔ اس وقت ملک میں کیا ہورہا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ اب تیسرا منی بجٹ لایا جا رہا ہے جو حیران کن ہے۔ وزیر خزانہ کی مذحقہ خیز بات یہ ہے کہ مہنگائی سے غریب کو نہیں صرف امراء کو فرق پڑا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ گیس کی قیمت گھریلو صارفین کے لیے نہیں بڑھائی بلکہ صرف صنعتوں کیلئے بڑھائی گئی لہٰذا اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جس فیکٹری کی گیس کی قیمت 140 فیصد بڑھا دی جائے، کیا وہاں تیار ہونے والی چیز کا ریٹ زیادہ نہیں ہوگا؟ کیا اس سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا؟ کیا اس کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا؟ اشیائے خورونوش کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ لوگ تو بجلی اور گیس کے مسائل سے ہی نکل نہیں پا رہے۔ افسوس ہے کہ تجاوزات کے نام پر غریبوں کو بے گھر کیا جا رہا ہے۔ بنی گالہ تو جرمانہ ادا کرنے کے بعد ریگولرائز کردیا گیا جبکہ عام آدمی کے گھر اور دکانیں گرائی جارہی ہیں۔ افسوس ہے کہ پنجاب میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں 8 افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ان حالات کے باوجود ہم سے سوال کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن منظم کیوں ہو رہی ہے۔ کیا ان کو ملک تباہ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟ کیا انہیں عوام کا استحصال کرنے دیا جائے؟ کیا ملک کو بحران اور اندھیروں میں دھکیلنے دیا جائے؟ ہمیں خوف ہے کہ اگر ان کا محاسبہ نہ کیا تو وہ دن دور نہیں ہے جب لوگ خود سڑکوں پر آجائیں گے اور بہت سارے علاقوں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ متحدہ اپوزیشن بھی مستقبل میں سڑکوں پر نکل سکتی ہے مگر ابھی منی بجٹ میں حکومت کی ناکامیوں اور نااہلی کو عوام کے سامنے عیاں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہم نے عام آدمی کے مسائل کو بھی اجاگر کرنا ہے۔ فوجی عدالتوں اور نیب قوانین کے حوالے سے جوائنٹ اپوزیشن کی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو معاملات دیکھے گی۔ ہم نیب بھگت چکے ہیں، اب حکومت کی باری ہے لہٰذا ہمیں نیب قانون کی تبدیلی میں فی الحال کوئی دلچسپی نہیں۔ پہلے تمام جماعتیں اپنے اپنے طور پر اپوزیشن کر رہی تھی، اب ہم نے مل کر مضبوط اپوزیشن کا فیصلہ کیا ہے، جیسے جیسے سیاسی معاملات آگے بڑھیں گے، متحدہ اپوزیشن بھی اپنا لائحہ عمل دیتی جائے گی۔ یہ بیانیہ دیا جا رہا ہے کہ احتساب کے عمل کی وجہ سے اپوزیشن متحدہ ہوئی ہے جو بالکل غلط ہے۔ احتساب کے حوالے سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ بلا تفریق سب کا کیا جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ صرف اپوزیشن کا احتساب کیا جائے اور حکومتی بینچوں پر بیٹھے اراکین سے نرمی برتی جائے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک جو گزشتہ دور حکومت میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے ان پر کرپشن کے 11 کیسوں کی انکوائریاں چل رہی ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں آرہا۔ ہمارے کیسوں میں کہا گیا کہ بہت بڑے ثبوت مل گئے مگر آخری حربہ آمدن سے زائد اثاثوں کا استعمال کیا گیا۔ اگر آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس بنائے جائیں تو اس ملک کے کسی بھی ادارے کے لوگ نہیں بچیں گے۔ اگر یہی معیار ہے تو پھر سب کے اثاثے نکالیں اور انہیں سزا دیں۔ 2013ء میں عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں 1 کروڑ 40 لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے جو 2015ء میں 1 ارب 35 کروڑ 75 لاکھ روپے ہوگئے، بتایا جائے کہ ان کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے۔ان کو تو وراثت میں بھی کچھ نہیں ملا لہٰذا قوم کو بتایا جائے کہ یہ اثاثے 2 سال میں کیسے بڑھ گئے۔  وزیراعظم کو طلب کرنے پر نیب کو دھمکایا جاتا ہے جبکہ علیمہ خان کو بھی ریلیف مل جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔ ان کے وزراء کے خلاف کیس انکوائری سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ اس کے علاوہ مونس الٰہی اور علیم خان کی آف شور کمپنیوں کا کیس بھی پانامہ سے شروع ہوا مگر ان کے کیس آگے ہی نہیں بڑھے۔  ہم نے تحریک انصاف کو لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی سے پاک اور معاشی طور پر بہتر ملک دیا مگر انہوں نے تباہ کردیا۔ جنہوں نے کبھی یونین کونسل نہیں چلائی انہیں 22 کروڑ عوام کا ملک دے دیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ 3 ماہ بعد موجودہ حکومت اپنے ہاتھ کھڑے کر دے گی۔

اعجاز چودھری ( مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)

اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بننے کے پیچھے عوامی مفاد نہیں بلکہ ان جماعتوں کے سیاسی قائدین کی پکڑ کا خوف ہے۔ نواز شریف تو پہلے سے ہی سزا بھگت رہے ہیں لیکن جب آصف زرداری اور ان کے خاندان کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو اپوزیشن متحد ہوگئی۔ حکومت کو اپنے نمبرز معلوم ہیں۔ ہم اپنے اتحادیوں سے روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں بھی ہیں لہٰذا ہمیں متحدہ اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں،ہم ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ میرے نزدیک حکومت کوملکی مفاد میں آگے بڑھ کر اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں معاملات بہتر کرنے چاہئیں اور عوام کے سامنے حقائق لانے چاہئیں۔ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے حوالے سے پارٹی میں دو آراء موجود ہیں، میں اس فیصلے کے خلاف ہوں۔ بلاتفریق احتساب کا عمل جاری ہے اور اس وقت تمام ادارے آزاد ہیں۔ عمران خان نے عدالت میں اپنا 41 سالہ ریکارڈ پیش کیا جس کے بعد انہیں صادق اور امین قرار دیا گیا۔ اسی طرح علیمہ خان نے بھی اپنا تمام ریکارڈجمع کروا دیا جس میں ایک غلطی پر انہیں جرمانہ ہوا۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ عمران خان کا اپنی بہن سے کوئی کاروباری تعلق نہیں۔ اپوزیشن الزامات لگا کر حکومت کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ بلا وجہ تنقید سے شوکت خانم ہسپتال جیسے بہترین اداروں کی ساکھ کو نقصان ہوسکتا ہے جس کا فرق عام آدمی پر پڑے گا ۔ خیبر پختونخوا میں ہمیں پہلے سے زیادہ ووٹ ملے جس سے ہماری 5 سالہ کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  ہمیں 5ماہ میں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ میں اپوزیشن سے یہ سوال کرتا ہوں کہ ماضی کی حکومتوں کے ابتدائی 5 مہینوں کی کارکردگی نکال لیں اور کوئی ایسا بڑا کارنامہ بتا دیں جو انہوں نے کیا ہو ۔ ہمیں جس قدر خراب اقتصادی صورتحال ملی تاریخ میں کبھی اتنی خراب نہیں رہی۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑا ہوا تھا۔ قرضوں کی اقساط دینی تھیں۔ ہمارا ایکسپورٹ کا سلسلہ تقریباََ صفر تھا جبکہ امپورٹ آسمان کو چھو رہی تھی۔ ان حالات میں تحریک انصاف نے حکومت کا آغاز کیا۔ ابھی ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے اور ملک چل رہا ہے۔ ہم تمام قرضوں کی اقساط دے رہے ہیں اور کسی دباؤ میں بھی نہیں آرہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ کم اور ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے۔ خسارہ بھی کم ہورہا ہے۔ ہم اقتصادی صورتحال بہتر کرنے میں سنجیدہ ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں جو غیر حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائی گئی، ہم اسے حقیقت پسندانہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ سابق دور میں آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار بتانے پر پاکستان کو جرمانہ ہوا اور اس کے ذمہ دار اسحاق ڈار تھے۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ قوم کے سامنے اصل حقائق رکھیں گے اور ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہی ہم اپنی اقتصادی پالیساں آگے لے کر چلیں گے۔ اقتصادی بہتری کیلئے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری لائی جائے، ایکسپورٹس اور ترسیلات زر کو بہتر کیا جائے۔ ہم نے پہلے بجٹ میں ہی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ایکسپورٹ انڈسٹری کی مشاورت سے اقدامات کیے جس کی وجہ سے ایکسپورٹس میں اضافہ ہوا۔ جہاں تک بیرونی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو اس میں اچانک کمی آئی ہے مگر انہی 5 مہینوں میں مقامی سرمایہ کاری میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی بہتری آئی ہے۔ بین الاقوامی اعداد وشمار کے مطابق ہر سال پاکستان سے 10 بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے جبکہ ہمارے ابتدائی 5 مہینوں میں ایک روپیہ کی منی لانڈرنگ بھی نہیں ہوسکی جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوا۔ خارجہ محاذ پر پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ جبکہ بھارت کی پسپائی ہوئی ہے۔ کرتار پور کوریڈور سے دنیا کو اچھا پیغام گیا جسے عالمی سطح پرسراہا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اپنا موقف بدلنا پڑا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ انتخابی دھاندلی کی بات کی جاتی ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ یہ نظام تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بنایا تھا ، جن حلقوں میں وہ جیتے وہاں دھاندلی نہیں ہوئی مگر جہاں تحریک انصاف جیتی وہاں دھاندلی ہوگئی لہٰذا اب یہ پراپیگنڈہ خود بخود ہی ختم ہوگیا ہے۔ صحت کے مسائل کے حل کیلئے بھی حکومت کام کر رہی ہے۔ اسی ماہ کے آخر میں لوگوں کو صحت کی سہولیات یقینی بنانے کیلئے انصاف صحت کارڈ لانچ کیا جارہا ہے جس کی حد 3 لاکھ 80 ہزار روپے ہے جبکہ اس میں 3 لاکھ تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سکیم کا آغاز جنوبی پنجاب سے کیا جائے گا۔ 7 شہروں میں 50لاکھ گھر سکیم کے تحت 5 ہزار گھروں کی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے اتھارٹی کا قیام باقی ہے۔ ابھی تک 500 سے زائد کمپنیاں اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہیں لہٰذا اس سے نہ صرف لوگوں کو چھت ملے گی بلکہ لاکھوں کو روزگار بھی ملے گا۔ سی پیک منصوبے کا کریڈٹ ہم نہیں لے رہے اور نہ ہی ہم نے کبھی اس کی مخالفت کی۔ اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اپنے طور پر لیتی ہیں، ہم تو یہ منصوبہ ملکی مفاد میںا ٓگے لے کر چل رہے ہیں۔

بیرسٹر عامر حسن ( مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

پاکستان میں جمہویت ہو یا جمہوری روایات ، آئینی بالادستی ہو یا آئینی حکومت کا قیام ہو، اس کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ صف اول میں رہ کر کردار ادا کیا۔ 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر بہت زیادہ شکوک و شبہات تھے۔ تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جماعتوں کے ووٹ جمع کریں تو ان کی تعداد زیادہ ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکثریت ان انتخابات سے مطمئن نہیں تھی۔تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ 6 سیٹیوں والی ایم کیو ایم نے بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی اور ان نشستوں پر انگلی اٹھائی جن پر کراچی میں تحریک انصاف کے امیدوار جیتے۔ ان حالات میں تقریباََ تمام اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جو مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام جماعتوں سے بات کی اور مسلم لیگ (ن) سے کہا گیا کہ ہم نے میثاق جمہوریت کیا ہے، اگرچہ تحریک انصاف اس کا حصہ نہیں ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کو آگے بڑھنا چاہیے۔ ہم شکر گزار ہیں کہ پیپلز پارٹی کی تجویز کو مانا گیا اور پھر مسلم لیگ (ن)، ایم ایم اے و دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے میثاق جمہویت کی روح کو فروغ دیا۔ہم نے یہ اس لیے کیا کہ پاکستان میںآئین کی بالادستی ہو۔ اگر اپوزیشن جماعتیں چاہتی تو با آسانی حکومت بنا سکتی تھیںمگر تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا کیونکہ یہ عوام سے خوش نما وعدے کر کے آئے تھے جن میں ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر وں کی تعمیراور تمام خرابیوں کا خاتمہ شامل تھا۔ اب اس حکومت کو 5 ماہ گزر چکے ہیں جبکہ ملکی معیشت ، خارجہ پالیسی، تعلیم، صحت و دیگر شعبوں کا برا حال ہوچکا ہے۔ یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو چارٹر آف اکانومی پر چلنے کی آفر کی مگر حکومت نے اپوزیشن کی مخلصانہ آفرکو ہماری کمزوری سمجھا۔ملک کو درپیش معاشی مسائل کا فوری حل ضروری ہے۔ اگر پاکستان کو دوست ممالک سے کوئی مدد ملتی ہے تو وزیراعظم کو وہاں ضرور جانا چاہیے لیکن یہ قرضے کن شرائط پر مل رہے ہیں اور حکومت انہیں کہاں خرچ کرنے جارہی ہے اس حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے لیکن موجودہ حکومت ایسا نہیں کر رہی۔ ذوالفقار علی بھٹوسے لے کر راجہ پرویز اشرف تک، پیپلز پارٹی کے تمام وزراء اعظم پارلیمنٹ میں پیش ہوتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان کا اپنا وعدہ تھا کہ وہ ہر بدھ کو پارلیمنٹ میںآکر سوالات کے جوابات دیا کریں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ وہ ٹویٹر پر تو متحرک نظر آتے ہیں مگر پارلیمنٹ میں نہیں آتے۔ حکومتی وزراء کا رویہ قابل مذمت ہے۔  وہ الزام تراشی کے ذریعے سیاسی قیادت کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کا حکومت گرانے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔ اگر ہم نے ایسا کرنا ہوتا تو پھر انہیں حکومت بنانے ہی نہ دی جاتی۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آپس میں اختلافات بھی ہیں مگر ان دونوں جماعتوں نے مل کر جنرل (ر) پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ موجوہ حکومت بھی جنرل (ر) پرویز مشرف دور کا تسلسل ہے۔ اس میں 80 فیصد وزراء وہی ہیں جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے تھے۔ حکومت کا 100 روزہ پلان بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کا 7 نکاتی ایجنڈہ تھا ۔ ہمیں جنرل (ر) پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل نظر آرہا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے آئینی بالادستی کیلئے اپوزیشن اتحاد بنایا گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں بھی حکومت کو تجویز دی ہے کہ آئیں مل کر قانون سازی کریں اور ملک کو چلائیں۔ ہم نے نیب کو بھگت لیا ہے، آپ کی باری آئی تو آپ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ہم نے تو اب بھی حکومت گرانے کی بات نہیں کی۔ ہمارا پہلے دن سے ہی حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن ہے۔ سیاسی جماعتیںعوامی مفاد کے کاموں میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ احتساب کی بہت بات کی جاتی ہے۔ اگر تو یہ احتساب حکومت کر رہی ہے تو وزراء کی بیان بازی ٹھیک ہے لیکن اگر یہ کام احتساب کے ادارے کر رہے ہیں تو پھر حکومت کو ان کی ترجمانی نہیں کرنی چاہیے۔ وزراء اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور وزیر اطلاعات یہ بتائیں کہ حکومت کیا کام کر رہی ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ خارجہ امور،سکیورٹی، تعلیم، صحت و دیگر شعبوں میں کیا بہتری آئی ہے اور جو وعدے آپ نے کیے ، کتنے پورے کیے۔ ہم کہتے ہیں کہ احتساب بلا امتیاز اور شفاف ہونا چاہیے۔ حکومت احتساب کے اداروں اور عدالتوں کو ان کا کام کرنے دے۔متحدہ اپوزیشن کے پیچھے وجوہات میں لوگوں کے آئینی، معاشی اور قانونی حقوق کا تحفظ ہے۔ ہم جمہوری ارتقاء چاہتے ہیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ اتحاد کسی کے ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے بنایا گیاہے۔

امیر بہادر خان ہوتی (ترجمان عوامی نیشنل پارٹی پنجاب)

ہم تو انتخابات سے پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے بلکہ ان میں حکومت چلانے کی اہلیت ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 5برسوں میں انہوں نے خیبر پختونخوا کو جس انداز میں چلایا وہ ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے وہاں ناکام ترین حکومت کی اور کچھ ڈیلور نہیں کیا۔ جسے یہ جنگلا بس کہتے رہے، وہ منصوبہ بھی ان سے مکمل نہیں ہوا بلکہ اس میں کرپشن کی انتہا کر دی گئی۔ اس منصوبے کے ٹینڈر بار بار ہوئے اور ابھی تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا بلکہ اس سے خزانے کو نقصان اور عوام کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔ افسوس ہے کہ جب سے تحریک انصاف اقتدار میںا ٓئی ہے ملکی سیاست سے شائستگی ختم ہوگئی ہے۔ پہلے سنجیدہ لوگ وزیر اطلاعات بنائے جاتے تھے مگر اب وفاقی و صوبائی وزراء اطلاعات کی باتیں سن کر دکھ ہوتا ہے۔اب صرف تنقید کو شیوہ بنا لیا گیا ہے اور لوگوں پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ حکومت ابتدائی مہینوں میں ہی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی حکومت کو اتنی جلدی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ آج ڈالر اونچی اڑان بھر چکا ہے، روپیہ کی قدر تیزی سے کم ہورہی ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی کا طوفان ہے جبکہ گیس کا ریٹ بھی بڑھا دیا گیا ہے جس سے غریب کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ عام آدمی سے تو اس کی چھت بھی چھینی جا رہی ہے جبکہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں سینکڑوں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا جو افسوسناک ہے۔ یہ تو ایک کروڑ نو کریوں اور 50 لاکھ گھر دینے کے وعدے کر کے آئے تھے مگر انہوں نے تو اس پر بھی یوٹرن لے لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ملک دورے نہ کرنے کا کہا تھا مگر اب وہ بیرون ملک دورے کر رہے ہیں۔ ان پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا بلکہ وہ پارلیمنٹ میں آتے ہی نہیں جو جمہوری روایات کے خلاف ہے۔اس وقت ملک میں احتساب نہیں انتقام ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف لاہور میں نیب ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں ہونے والی کرپشن پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔ افسوس ہے کہ وہاں تو احتساب کمیشن بھی بند کردیا گیا اور کرپشن کرنے کی چھوٹ دیے دی گئی۔ سابق دور حکومت میں یہ احتجاج کرکے دوسرے ممالک کے سربراہان کے پاکستان دوروں میں رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے، آج یہ ان ممالک سے مدد مانگنے کے لیے جارہے ہیں۔میرے نزدیک حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ملک کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ہم نے تو انتخابات کے فوری بعد ہی پارلیمنٹ نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا مگر بڑی جماعتوں کے کہنے پر پارلیمنٹ گئے۔ آج ان جماعتوں کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ پارلیمنٹ نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ متحدہ اپوزیشن حکومت کی غلط پالیسیوں پر اس کا محاسبہ کرنے کیلئے بنائی گئے ہے، جو بھی کال دی جائے گی اس کا خیر مقدم کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔