یہ ہرگاؤں کا قصہ ہے

سعد اللہ جان برق  منگل 22 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

مملکت ناپرسان عالیشان سے جو خبریں ’’اسمگل‘‘ ہوکر آ رہی ہیں ان کے مطابق آج کل مملکت اللہ داد ناپرسان میں ’’کرپشن‘‘ پر بڑا زور ہے گلی گلی میں ’’شور‘‘ ہے کہ ’’آسوبلا‘‘ چور ہے اور چور کو پڑ گیا ’’مور‘‘ ہے لیکن یہ ’’مور‘‘ اردو کا نہیں بلکہ انگریزی کا دل مانگے مور ہے جس کا مطلب اور اور اور ہے،  ؎

ہے بسکہ ہر اک اس کے اشارے میں نشاں اور

کرتا ہے محبت تو گزرتا ہے گماں اور

اس بات کا پتہ ابھی تک نہیں چلا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ اچانک خلاف توقع اور خلاف معمول اس ’’قومی ہیروئن‘‘ اور نازنین مہ جبین اور گل ورین ملکہ حسن و خوبی مالکہ صورت و سیرت کے خلاف یہ ہنگامہ ہا ہو مچ گیا کہ اس نے آج تک کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا اور سب کا کچھ نہ کچھ سنوارا ہی تھا، وہ کوئی پریانکا دیپکا اور کترینہ کرینہ جیسی مغرور بھی نہ تھی ہر چھوٹے بڑے کو منہ بھی لگاتی بغل گیر بھی ہوتی اور خلوت گیر بھی ہوتی تھی۔

مملکت اللہ داد ناپرسان میں ان دنوں ساری الیکٹرانک اور مکینیکل توپوں کا رخ اس طرف ہو گیا ہے۔ اور وہ بے چاری کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف اور تیسری چوتھی طرف منہ کر کے  بروٹس یو ٹو۔۔۔ بروٹس یو ٹو؟ کا آموختہ دہرا رہی ہے۔

چنانچہ چینل ’’ہیاں سے ہواں تک‘‘ نے مناسب جانا کہ اس خصوصی معاملے پر کچھ خصوصی دانشوروں کو بلا کر دانش دانش کا ایک میچ منعقد کرائے۔ اس غرض کے لیے ہم نے مملکت اللہ داد ناپرسان کے وزیر باتدبیر و باتقدیر حضرت پیرالدین قانون زادہ کو مدعو کیا ہے جنھیں راجدھانی انعام آباد اکرام آباد کا سب سے بڑا ’’لائر‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

ان کی سنگت کے ظاہر ہے ہمارے اپنے ہوم میڈ دانشوروں کو ہی بلانا تھا جو ہمارے ٹھیک ٹھاک اور ٹھوک ٹھاک شو ’’چونچ بہ چونچ‘‘ کے خصوصی چونچ ہیں۔ ان کے نام نامی اور اسمائے گرامی بتانے کی ضرورت بالکل بھی نہیں کہ اب ان کی شہرت کی گونج سیاروں ستاروں تک پہنچ چکی اور ان کی رسوائی ہی ان کے تعارف کے لیے کافی ہے۔

ہاں تو شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو مملکت اللہ داد ناپرسان کو عالم ظہور میں لایا۔

اینکر؛ جناب زادہ

زادہ؛ زادہ نہیں قانون زادہ۔ کہ قانون ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے جاگنا سونا ہے۔

چشم؛ کونسا سونا؟

علامہ؛ وہی سونا جو سوناہوتا ہے جس کے پاس ہوتا ہے وہ ’’ہوتا‘‘ ورنہ نہیں ہوتا

چشم؛ اچھا میں سمجھا وہ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔

علامہ؛ یہ والا کھوتا نہیں بلکہ پاتا ہی پاتا ہے۔

اینکر؛ تم اپنی یہ چونچ بازی بند کرو اور مجھے قانون زائیدہ سے بات کرنے دو۔

زادہ؛ قانون زائیدہ نہیں قانون زادہ

اینکر؛ ویسے آپ کے لیے ’’قانون زائیدہ‘‘ بھی برا نہیں۔

چشم؛ میرے خیال میں ان کے لیے ’’زائیدہ‘‘ زیادہ بہتر ہے مجھے وہ تمام کیس یاد ہیں جن میں انھوں نے نئے قوانین زائیدہ کر کے فائدہ اپنے موکل کو پہنچایا ہے۔

علامہ؛ ایک کیس تو مجھے بھی یاد ہے جس میں انھوں نے مقتول کو مجرم ثابت کر کے قاتل کو مقتول کے لواحقین سے جرمانہ دلوایا ہے۔

چشم؛ وہ کیس بھی تو تھا جس میں انھوں نے مالک مکان کو مجرم قرار دے کر نقب زن کو اس کے زخمی ہونے کا ہرجانہ دلوایا تھا۔

اینکر؛ تو کیا آپ اب کرپشن کا کیس چھوڑ دیں گے۔

زادہ؛ توبہ کریں بھلا ’’ایسا‘‘ اور میں کروں نو ناٹ نیور۔ کسی کا خالی دامن اور میرے پاس سے جائے یہ تو میرے ریکارڈ میں نہیں۔

اینکر؛ تو پھر۔

زادہ؛ کمپرومائز بھائی کمپرو مائز۔ دونوں فریقوں کو ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کی بنیاد پر راضی کر لوں گا

اینکر؛ مگر کس طرح۔

زادہ؛ یہ تو میں بتا نہیں سکوں گا کیونکہ موکلین کے راز افشا کرنا میرے اصول کے خلاف ہے۔

چشم؛ پھر بھی کوئی کلیو کوئی اشارہ۔

زادہ؛ اشارے کے طور پر میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ دو گڈریے جو آپس میں اکٹھے بھیڑیں چرایا کرتے تھے پھر ان میں کسی بات پر ان بن ہو گئی۔

اینکر؛ اچھا۔

زادہ؛ دونوں نے اپنی اپنی بھیڑیں بھی الگ کر لیں اور علاقہ بانٹ لیا۔ کہ اس سڑک کے مشرق کا علاقہ تیرا اور مغرب والا میرا۔

اینکر؛ تو بات ختم ہو گئی۔

زادہ؛ ختم کہاں ہوئی۔ شروع ہوئی۔

اینکر؛ وہ کیسے۔

زادہ؛ دونوں نے اپنے اپنے ریوڑ اپنی اپنی طرف میں ہنکائے لیکن اچانک وہ ایک چلایا۔ بات سنو وہ تالاب تو تمہاری طرف ہے۔ میرے حصے میں کوئی تالاب ہے نہیں تو جانوروں کو پانی کیسے پلاؤں گا۔

اینکر؛ یہ تو مسئلہ ہو گیا۔

زادہ؛ ہاں لیکن حل بھی ہو گیا کہ ایک  تالاب کے لیے دوسرے کے علاقے جا سکتا ہے اور چونکہ جانور راستے میں چریں گے بھی۔ اس لیے اس کے بدلے دوسرا بھی اس کے علاقے میں جانور چرائے گا۔

چشم؛ یہ تو ہمارے گاؤں کے چرواہوں کا قصہ ہے۔

زادہ؛ یہ ہر گاؤں کا قصہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔