پاکستان زندہ باد!

شکیل فاروقی  منگل 22 جنوری 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کو خبردارکیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنی جی ایس پی پلس حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے یونین کی دس شرائط تسلیم کرنا ہوں گی ۔ ان شرائط میں اہل مغرب کے نکتہ نظر کے مطابق خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، این جی اوز کی آزادی ، سزائے موت کا خاتمہ ، چائلڈ لیبر اورآزادی صحافت جیسی شرائط شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ تجارت کے حوالے سے فراہم کی جانے والی اس قسم کی شرائط کی بھلا کیا تُک ہے؟ اس کا واحد اور بالکل سیدھا سا جواب ہے پاکستان کی معیشت کی پستی اور زبوں حالی جس پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے:

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اس حوالے سے ہمیں’’ غریب کی جورو، سب کی بھابھی‘‘ والی مشہور کہاوت یاد آرہی ہے ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں “Begars Are Not Choosers” مجبوری انسان سے اس کی مرضی کے خلاف کچھ بھی کرواسکتی ہے، بشرطیکہ اس کی خودداری اور حمیت ایسا کرنے میں اس کے آڑے آجائے۔ اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا ہے:

اے طائر لاہوتی‘ اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مغرب چونکہ معاشی اعتبار سے انتہائی مستحکم ہے اس لیے وہ پاکستان سے اپنی جائز و ناجائز شرائط منوانے کے لیے دباؤ ڈالتا رہتا ہے جب کہ کشکول بردار وطن عزیز کے حکمرانوں کو ان کی شرائط تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی پاکستان کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہیں۔ یہ عالمی مالیاتی ادارے یوں تو تمام غریب اور قرض خواہ ممالک کے ساتھ اسی طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں اور بڑی طاقتیں جن کے پاس ان اداروں کی فنڈنگ کی بالادستی موجود ہے وہ قرض لینے والے غریب ممالک کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں ۔ وہ ان سے ناصرف سود در سود وصول کرتی ہیں بلکہ جونکوں کی طرح ان کا خون بھی چوستی ہیں جس کے نتیجے میں یہ بے چارے معاشی بحالی کے بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

وطن عزیز پاکستان کے معاملے میں ان مالیاتی اداروں اور انھیں کنٹرول کرنے والی طاقتوں کا رویہ انتہائی امتیازی اور سخت ترین ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے اور اسلام ان اداروں اور قوتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔ بقول شاعر:

میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح

پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کی دوسری بڑی وجہ اس کا ایٹمی قوت ہونا ہے۔ ان اداروں اور قوتوں کو اس بات کی بھی بڑی تکلیف ہے کہ پاکستان اپنی غربت اور پسماندگی کے باوجود میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بڑی پیش رفت کرچکا ہے۔ ان اداروں اور قوتوں کو یہ بات بھی بڑی شاق گزرتی ہے کہ پاکستانی فوج بہترین جنگی صلاحیت کی حامل ہے جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان سے بغض و عناد کا تیسرا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے جب کہ مغرب اسلاموفوبیا (Islam-o-Phobia) میں بری طرح مبتلا ہے۔

عالمی طاغوتی قوتیں چاہتی ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکے پاکستان کو اسلام سے دورکیا جائے۔ ان کی اس کوشش میں عورتوں کا معاملہ سرفہرست ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عورتوں کے حقوق کا جیسا پاسبان اور نگہبان دین اسلام ہے ایسا کوئی اور الہامی یا غیر الہامی مذہب نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خواتین کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر صحیح طور سے عمل نہ کیا جائے اور ان کا استحصال کیا جائے۔

جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ ہے تو پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں ملک کے دیگر شہریوں کے شانہ بشانہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں۔ ریاست کی جانب سے انھیں ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے اور تمام سہولتیں میسر ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اسلامی مملکت پاکستان میں سیکولر ہونے کے دعویدار ہندوستان کی طرح کوئی فرقہ ورانہ فساد نہیں ہوئے۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں تعلیم، تجارت، صحت، سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ عدلیہ جیسے انتہائی اہم شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والی دو قابل ذکر شخصیات آنجہانی جسٹس اے آر کارنیلیئس اور رانا بھگوان داس کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے جب کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کے ہیرو سیسل چوہدری کی خدمات کا ہر پاکستانی معترف ہے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے تحفظ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کے لیے یورپین یونین کی جانب سے عائد کردہ شرائط میں سے ایک شرط موت کی سزا ختم کرنے کی بھی ہے سوال یہ ہے کہ سزائے موت ختم کرنے کا تجارتی مراعات دینے سے کیا تعلق ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ان قوتوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں کبھی اسلامی تعزیرات نافذ ہوگئیں تو مملکت سعودیہ کی طرح اس ملک میں بھی جرائم میں بڑی حد تک کمی آجائے گی اور امن و امان کا بول بالا ہوجائے گا جو یہ قوتیں نہیں چاہتیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان یکسوئی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا جس کے نتیجے میں یہ ملک ان قوتوں کی محتاجی سے بالکل آزاد ہوجائے گا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سزائے موت کا قانون یورپ کے چند ممالک میں اور امریکا کی بعض ریاستوں میں بھی نافذ ہے۔ چنانچہ پاکستان سے سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے سے پہلے مغربی ممالک کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔

جہاں تک چائلڈ لیبر کا مسئلہ ہے تو اس کے پیچھے بھی مغربی ممالک کی دوغلی پالیسی کارفرما ہے۔ عجیب بات ہے کہ ڈاما ڈولہ میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے معصوم بچوں پر تشدد بمباری کرکے انھیں شہید کرنے والوں کو پاکستانی بچوں کی فلاح و بہبود کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ان مغربی قوتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں بچوں کی پرورش، نگہداشت اور ان کی تعلیم وتربیت کو انتہائی فوقیت اور اہمیت دی گئی ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق  ؓ نے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے وظیفے کے اجرا کا نظام متعارف کرایا تھا جوکہ قابل تقلید مثال ہے۔ پاکستانی بچے تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور اپنے والدین کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔

جیساکہ ہم عرض کرچکے ہیں عالمی قوتیں اسلامی ایٹمی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ پاکستان کی اس زبردست صلاحیت کو ختم کردیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان پر یہ دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کردے۔

اس سلسلے میں اسے مختلف اوقات میں طرح طرح کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں لیکن جب پاکستان اس دباؤ اور دھمکیوں کے سامنے سینہ سپر ہوگیا تو ان قوتوں نے ہتھیار ڈال دیے پاکستان کی قیادت اور خصوصاً عسکری قیادت کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اس نے تمام قوتوں کے آگے جھکنے سے صاف انکار کر دیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم نظریہ پاکستان اور اسلام کے حوالے سے بھی چٹان کی طرح ڈٹے رہے تو یہ تمام مخالف قوتیں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گی۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کے خواہش مند ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وطن عزیز پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن گیا تو دنیا کی کسی بھی طاقت کی مجال نہیں کہ وہ اس پر اپنی من مانی شرائط عائد کرنے کی جرأت کرسکے۔ پاکستان زندہ باد ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔