- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
اس نظام سے انصاف کی توقع بے کار ہے!
انگریز برصغیر سے جاتے جاتے ہمارے ملک کو ایسا نظام دے گئے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود ہم اسے تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ فوجی حکومتیں آئیں، جمہوریت آئی، آئین بنے، ترامیم ہوئیں، صدارتی آرڈیننس آئے مگر ہمارے گلے سڑے نظام کا کچھ نہ بدلا۔ وہی پولیس جو انگریزوں کے دور میں نوابوں اور جاگیرداروں کی غلام ہوتی تھی اور انہی کے کہنے پر عوام پر ظلم وستم کرتی تھی، وہ پولیس آج بھی وڈیروں، سیاستدانوں اور وزیروں کی گھریلو ملازمہ کا کردار ادا کررہی ہے۔ آج بھی پولیس مخالفین کو روندنے کےلیے استعمال کی جاتی ہے، آج بھی سارے ملک کے تھانوں کے ایس ایچ اوز وہاں کے بااثر افراد کے فرمانبردار اور ان کے حکم کے محتاج ہیں۔ ویسے تو پولیس خالصتاً صوبائی محکمہ ہے مگر پولیس کے کام کرنے کا طریقہ کار پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔
پنجاب اور سندھ چونکہ آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے ہیں اس لیے مجموعی طور پہلے نمبر پر پنجاب میں اور دوسرے نمبر پر سندھ میں پولیس گردی اور تشدد کے واقعات دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ آئے روز جعلی پولیس مقابلوں، قاتلوں کی پشت پناہی، کرپشن، رشوت، جیلوں میں غیر قانونی دھندوں، منشیات کے کاروبار، قبضہ مافیا کی سربراہی، چوروں اور ڈکیتوں سے تعلقات اور تمام غیر قانونی کاموں کے ساتھ پولیس کا نام آتا رہتا ہے۔ کراچی میں نقیب اللہ محسود کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہو، ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس کے ہاتھوں چودہ لوگوں کی ہلاکت ہو یا پھر اب ساہیوال میں چار افراد کا قتل، یہ تمام واقعات اور ان جیسے درجنوں دوسرے واقعات، تمام میں پولیس کا مکروہ چہرہ ہی نظر آتا ہے۔
ہر دور میں سیاستدانوں نے پولیس کو گھر کی باندی سمجھ کر استعمال کیا۔ پولیس کو مطلوب لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ سیاسی بھرتیوں سے پولیس کے نظام کو اس قدر کھوکھلا کر دیا گیا ہے کہ صرف پنجاب میں درجنوں قسم کی پولیس کام کررہی ہے۔ ہر دور میں پہلے والی پولیس کو بہتر کرنے کے بجائے کوئی نہ کوئی نئی پولیس فورس تشکیل دے کر اپنے حامیوں کو نوازا جاتا ہے۔ شروع شروع میں ہر پولیس فورس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی پولیس فورس بھی ’’دیسی پولیس‘‘ کی طرح اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال شروع کردیتی ہے اور پرانی پولیس کے رنگ میں رنگ کر عوام کےلیے درد سر بن جاتی ہے۔ پہلے صرف ٹریفک پولیس اور عام پولیس کے ناکے ہوتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ناکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب کہیں ڈولفن فورس کا ناکہ ہوتا ہے تو کہیں کوئیک رسپانس فورس کا۔ کہیں ایلیٹ پولیس والے لوگوں کےلیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں تو کہیں کاؤنٹر ٹیرر اِزم والے، لوگوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
غرض یہ کہ سیاستدانوں نے ذاتی مفاد کےلیے جس محکمے کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے، وہ ہے پولیس۔ عام لوگوں کے مقدمات تو درج نہیں ہوتے جبکہ بااثر افراد کے کہنے پر ان کے مخالفین کو پولیس بغیر وارنٹ ہی اٹھا لیتی ہے۔ عوام چھوٹے چھوٹے مقدموں میں عمر قید کی سزا کاٹتے ہیں جبکہ وڈیروں کے بچے قتل کرنے کے بعد بیرون ملک فرار کرادیئے جاتے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پولیس کے نظام میں بہتری کی ضرورت ہے اور ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانا لازمی ہے۔ موصوف کا کہنا تو درست ہے مگر کاش اپنے پچھلے دس سالہ دور حکومت میں ہی کچھ کیا ہوتا تو آج حالات اس طرح بے قابو نہ ہوتے۔ اپنے ادوار میں پولیس کو سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کرنے والا شخص کیسے توقع کرسکتا ہے کہ اب وہی پولیس کوئی جائز کام کرسکتی ہے جبکہ تمام بھرتیاں خود ان کے ادوار میں سیاسی ہوا کرتی تھیں۔ اسی پنجاب پولیس کے ہاتھوں ماڈل ٹاؤن میں جب 14 بے گناہ افراد کا قتل ہورہا تھا تو موصوف اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کا لقب دے کر پنجاب کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان تھے۔ آج کا بیان بنیادی طور پر خود پرانے سیاستدانوں بالخصوص ان کی جماعت کے منہ پر طمانچہ ہے جو برسہا برس سے صوبہ پنجاب کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر استعمال کرتے رہے۔
ہاں! اب کی بار پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم تو ہو گئی مگر نظام سارے کا سارا وہی پرانا ہے۔ حکومت اس کو بدلنے کا سوچتی بھی ہوگی مگر بدل نہیں سکتی کیونکہ لاکھوں کی تعداد میں پولیس اہلکاروں کے دماغوں کو بدلنے میں بہت وقت لگے گا۔ پولیس اپنے آپ کو جنگل کا بادشاہ سمجھتی ہے یعنی وہ خود قانون سے بالاتر ہیں۔ ماضی میں انہیں سیاسی سرپرستی رہی ہے، جس پولیس آفیسر نے زیادہ وفاداری نباہی، اس نے اتنی ہی جلدی ترقی پائی۔
تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے جس محکمے کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بناتے تھے وہ پنجاب پولیس ہی تھا۔ مگر ابھی تک کوئی ایسا عملی اقدام نہیں ہوسکا کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ حکومت واقعی پولیس کا نظام بہتر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کےلیے سب سے پہلے تو پولیس کو سیاسی غلامی سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ یعنی کسی بھی ضلع کا ڈی پی او اور مقامی تھانے کا ایس ایچ او وہاں کے ایم این اے اور ایم پی اے کے حکم کا تابع نہ ہو بلکہ ہر علاقے کے سیاسی اور بااثر افراد کو پولیس تک براہ راست رسائی نہ ہو بلکہ تمام جائز احکامات صوبائی حکومت کے ذریعے آئی جی اور پھر آئی جی کے ذریعے متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز تک پہنچائے جانے چاہئیں تاکہ وڈیرہ شاہی کا ڈر اور خوف سرکاری ملازمین پر سے ختم کیا جا سکے۔ کسی بھی ضلع کے ڈی پی اور باقی پولیس افسران کو علاقے کے سیاستدانوں کے ساتھ براہ راست رابطوں اور ملاقاتوں پر پابندی ہو تاکہ عام کی تھانے کچہریوں میں داد رسی ممکن ہوسکے وگرنہ پرانے پولیس کے تفتیشی نظام اور طریقہ کار سے حالات بدلنے کی قطعی کوئی توقع نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔